دیگر ممالک

اگر آپ افغانستان کی ایک لڑکی ہیں تو طالبان نے آپ کے مستقبل کا فیصلہ کر لیا ہے : ملالہ یوسف زئی

ملالہ یوسف زئی 15 سال کی عمر میں طالبان کے قاتلانہ حملے میں اس وقت سر میں گولی لگنے کے بعد زندہ بچ گئی تھیں جب انہوں نے اپنے آبائی وطن پاکستان میں پاکستانی طالبان کے اقدام کے خلاف مہم چلائی جو لڑکیوں کو تعلیم سے روکتے تھے۔

کیپ ٹاون: امن کی نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے منگل کو نیلسن منڈیلا فاؤنڈیشن کے زیرِ اہتمام جنوبی افریقہ میں ایک لیکچر میں طالبان کی جانب سے افغانستان میں خواتین پر پابندیوں کو اس سلوک سے تشبیہ دی جو نسلی امتیاز کے تحت سیاہ فام لوگوں کے ساتھ برتا جاتا تھا۔

متعلقہ خبریں
چین نے طالبان کے سفیر کے کاغذات تقرر قبول کرلئے
اکسپریس، پلے ویلگو بسوں میں خواتین کامفت سفر۔ احکام جاری
افغانستان کے خلاف شکست تکلیف دہ: بٹلر
اجئے جڈیجہ، ورلڈکپ کیلئے افغان ٹیم کے مشیر مقرر
بنگلہ دیش نے ٹسٹ کرکٹ کی تیسری سب سے بڑی کامیابی درج کی

ملالہ یوسف زئی 15 سال کی عمر میں طالبان کے قاتلانہ حملے میں اس وقت سر میں گولی لگنے کے بعد زندہ بچ گئی تھیں جب انہوں نے اپنے آبائی وطن پاکستان میں پاکستانی طالبان کے اقدام کے خلاف مہم چلائی جو لڑکیوں کو تعلیم سے روکتے تھے۔

2014 میں امن کا نوبیل انعام جیتنے کے بعد سے ملالہ یوسفزئی جو اب 26 سال کی ہیں، جبر و استبداد کا سامنا کرنے والی خواتین کی عزم و ہمت کی عالمی علامت بن چکی ہیں۔

العربیہ کے مطابق یوسفزئی نے جوہانسبرگ میں نیلسن منڈیلا کے 21ویں سالانہ لیکچر کے دوران کہا۔ "اگر آپ افغانستان کی ایک لڑکی ہیں تو طالبان نے آپ کے مستقبل کا فیصلہ کر لیا ہے۔ آپ سیکنڈری اسکول یا یونیورسٹی نہیں جا سکتیں۔ آپ کو کوئی کھلی لائبریری نہیں مل سکتی جہاں آپ پڑھ سکیں۔ آپ کو اپنی مائیں اور بڑی بہنیں قیدی اور مجبور نظر آتی ہیں۔”

یوسفزئی نے کہا کہ طالبان کی کارروائیوں کو "جنسی عصبیت” سمجھا جانا چاہیے اور یہ کہ انہوں نے "عملاً لڑکی ہونے کو غیر قانونی بنا دیا ہے۔”

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی عناصر کو طالبان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر نہیں لانا چاہیے جو 2021 میں افغانستان میں اقتدار میں واپس آئے جب امریکہ کی قیادت میں افواج 20 سالہ جنگ کے بعد افغانستان سے واپس لوٹ گئیں۔ طالبان کے ترجمان نے یوسف زئی کے خیالات پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا فوری طور پر جواب نہیں دیا۔

اقتدار میں واپسی کے بعد طالبان نے اکثر افغان خواتین عملے کو امدادی ایجنسیوں میں کام کرنے سے بھی روک دیا ہے، بیوٹی سیلون بند کر دیے ہیں، خواتین کو پارکوں میں جانے سے روک دیا ہے اور مرد سرپرست کی غیر موجودگی میں ان کے سفر پر پابندی لگا دی ہے۔

طالبان کہتے ہیں کہ وہ اسلامی قانون اور افغان رسم و رواج کی تشریح کے مطابق خواتین کے حقوق کا احترام کرتے ہیں اور یہ کہ حکام لڑکیوں کے ہائی اسکول کھولنے کے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں لیکن 18 ماہ گذرنے کے بعد بھی انہوں نے کوئی ٹائم فریم فراہم نہیں کیا۔

لیکچر کے بعد ایک انٹرویو میں یوسفزئی نے کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ طالبان لڑکوں سے بھی سائنس اور تنقیدی سوچ چھین لیں گے۔ انہوں نے کہا، "بین الاقوامی برادری کے لیے یہ بہت اہم ہے کہ وہ نہ صرف لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی کے تحفظ کے لیے قدم بڑھائے بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ یہ معیاری تعلیم ہو، یہ کوئی تعصب نہیں۔”

غزہ میں جنگ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ فوری جنگ بندی دیکھنا چاہتی ہیں اور یہ کہ بچے اسکول اور اپنی معمول کی زندگیوں میں واپس آنے کے قابل ہو جائیں۔ انہوں نے مزید کہا: "ہم جنگیں دیکھ رہے ہیں بالخصوص غزہ میں ہونے والی بمباری جس نے بچوں سے معمول کی زندگی چھین لی ہے۔”