سیاستمضامین

کتنے ناصر اور جنید ہجومی تشدد کا شکار ہوں گے

ابراہیم آتش (گلبرگہ کرناٹک )

ہجومی تشدد آخر کیا ہے ایک ہجوم نہتے شخص پربربریت کے ذریعہ موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے یہ ایک ہتھیار ہے جس کا استعمال ملک کی اکثریت قوم حکومت کی سر پرستی میںاقلیتوں پر‘ دبے پچھڑے لوگوں پر کرتی ہے اور اس طرح کے واقعات آج کل ہمارے ملک میں دیکھے جا رہے ہیںدراصل ہجومی تشدد کی شروعات دو صدی پہلے امریکہ میں شروع ہو چکی تھی جب وہاں کے گورے لوگ اقتدار میں تھے کالے لوگوں کو ہجومی تشدد کا شکار بنایا جاتا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ میکسیکو کے لوگوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا تھاحالانکہ وہ نیگرو نہیں تھے مگر نسل پرستی کی وجہ سے ایسا ہوتا تھا ایک سروے کے مطابق1882 سے1951 تک4730 لوگوں کو ہجومی تشدد کا شکار بنایا گیا ‘جس میں 3437 افراد سیاہ فام تھے ۔
ہجومی تشدد کا مقصد ان لوگوں کو خوف میں مبتلا رکھنا اور باقی اپنی زندگی خوف کے سائے میں گذارنا اس طرح کا ماحول پیدا کر کے ان لوگوں میں اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے کو روکنا ہوتا ہے ۔ اب امریکہ میں اس طرح کے واقعات نہ کے برابر ہیںکبھی کبھی اکا دکا واقعات پیش آتے ہیں حالیہ دنوں میں ایک نیگروپر پولیس کی جانب سے ظلم اور بعد میں اس کی موت واقع ہوئی تھی ساری دنیا میںتوجہ کا مرکز بنا تھا پورے امریکہ کی عوام نے اس واقعہ کی مذمت کی ۔
ہجومی تشدد کو دنیا میں زندہ رہنا ہے وہ ہجومی تشدد کی ہوا اب ہندوستان اور خاص کر شمالی ہندوستان کو اپنا مسکن بنا لیا ہے اس لئے اس طرح کے واقعات ہمارے ملک میں دیکھے جا رہے ہیںہجومی تشدد ہمارے ملک میں مسلمانوں اور دلتوں پر عام دیکھا جا رہا ہے دلتوں پر ظلم صدیوں سے جاری ہے مگر مسلمانوں نے دلتوں کا دل کھول کر ساتھ نہیں دیا دلتوں کے مسئلہ کو فاصلے سے دیکھا ۔ مسلمانوں پر اب شروعات ہوئی ہے 2015 میں اتر پردیش کے دادری میں محمد اخلاق کے گھر میں گھس کرگائے کے گوشت کے شبہ میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ‘اس وقت مسلمانوں کو احساس ہوا کہ ہجومی تشدد کیا ہوتا ہے۔ جو مسلمان ٹی وی دیکھتے ہیں اور اخبارات پڑھتے ہیں اس واقعہ کے بعد ششدر رہ گئے ‘ جو مسلمان ٹی اور اخباروں سے دور رہتے ہیںان کے کان پر جوں بھی نہیں رینگی ہوگی اور یہ بھی حقیقت ہے ویسے ہی لوگ تشدد کا شکار ہوتے ہیں کب کہاں اور کس طرح جانا چاہئے ہمارے ملک میں ہجومی تشدد کا شکار گائو کشی کے نام پر مسلمان زیادہ ہو رہے ہیںاس کے بعد لو جہاد کے نام اور پھر اپنی شناخت کی وجہہ سے ہجومی تشدد کا شکار ہونا پڑ رہا ہے اور کبھی کبھی چوری کے الزام میں مسلمانوں کو ہجومی تشدد کا شکار بنایا جاتا ہے۔
یکم اپریل 2017کو آلوار راجستھان میںپہلو خان ضلع نوح ہریانہ جو دودھ کا کاروبار کرتے تھے راجستھان سے مویشی خرید کر ہریانہ جا رہے تھے دو سوفراد کا گروپ جو اپنے آپ کوگائو ر کھشک بتاتے ہیںپہلو خان کو موت کے گھاٹ اتار دیا17 جون 2019 میںایک چوبیس سالہ تبریز انصاری کو چوری کے الزام میں درخت سے باندھ کر پیٹا گیا اور ہندو مذہبی نعرے لگانے پر مجبور کیا گیا بعد میں موت واقع ہو گئی جس کی آواز 41 ویں اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل میں سنی گئی۔ ہندوستان میں مسلمانوں اور دلتوں پر ہجومی تشدد پر تشویش ظاہر کی گئی 2002 ہر یانہ میں پانچ دلتوں کو گائو کشی کے نام پر موت کے گھاٹ اتارا گیا 2010 سے 2017 کے درمیان 28 لوگوں کی جانیں چلی گئیںجن میں 24 مسلمان تھے اور زخمی ہونے والوں کی تعداد124 بتائی جاتی ہے۔ ملک میں گائو کشی کا تنازعہ بہت پرانا ہے انگریزوں کے دور حکومت میں بہت سی ریاستوں میں گائو کشی پر پابندی تھی اور سخت سزائیں تھیں1714 میں گجرات میں ہولی فساد گائو کشی کی وجہہ سے ہوا تھا احمد آباد میں مسلمانوں کی دکانوں اور گھروں کو جلایا گیا تھا 1920 میں سو سے زیادہ فسادات مغربی بنگال میں ہوئے تھے جس وقت مغربی بنگال بنگلہ دیش اور مغربی بنگال پر مشتمل تھا اس فساد میں 450 افراد جاں بحق ہوئے تھے اور پانچ ہزار کے قریب زخمی ہوئے تھے1947تقسیم ہند کے بعد1948سے1951 کے درمیان اعظم گڑھ‘اکولہ‘پیلی بھیت‘کٹنی‘علی گڑھ‘دھوبری‘ دہلی اور کولکتہ میں فسادات ہوئے ہجومی تشدد پر نظر ڈالتے ہیں ‘قانون میں کئی خامیاں ہیں جس کی وجہہ سے مجرم چھوٹ جاتا ہے ‘اقلیتوں اور دلتوں کو تحفظ فراہم کرنے میں قانون کا صحیح استعمال نہیں ہوتا ‘پولیس افسران سیاستدانوں کے دباؤ میں کام کرتے ہیں‘عدم برداشت مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف بڑھ رہا ہے ‘ کچھ تنظیموں کی جانب سے مسلمانوں اور دلتوں کے متعلق غلط باتیں پھیلائی جا رہی ہیں‘بے روز گاری بھی ایک وجہ ہے ان بے روزگاروں کو سیاسی پارٹیاںاستعمال کر رہی ہیں‘عدالت کے ذریعہ سزا نہ ملنا بھی ان واقعات کو بڑھاتا ہے سوشل میڈیا کے ذریعہ غلط اطلاعات عوام تک پہنچانا بھی اس کی ایک اہم وجہہ ہے سماجی تنائو اور نفرت بھی ایک اہم وجہ ہے جو مختلف ذاتوںمذہبی لوگوں میں جڑوں تک پھیل چکا ہے ملک کی جن ریاستوں میں گائو کشی پر پابندی ہے وہاں مسلمان قانون کا احترام کریں ۔
ہجومی تشدد کے سماجی اثرات:قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی وجہ یہ کہ قانون کے ذریعہ انصاف ملنے کی امید نہیں ہے مگر یہ خطرناک ہے ملک کے قانون کے لئے اور انصاف کے لئے جس پر عوام کا بھروسہ ہے اس طرح کے واقعات ملک کے اقلیتوں اور دلتوں کے لئے خطرناک ہیںدائیں بازو کی جماعتیں اس طرح کے واقعات کو انجام دے کرکچھ سیاسی پارٹیوں کو فائدہ پہنچا رہی ہیںاور اکثریتی طبقہ میں ان کی عزت بڑھ رہی ہے اور ساتھ میں اکثریتی طبقہ بھی محسوس کر رہا اس کی عزت بڑھ رہی ہے۔ اس طرح ہراساں کر کے اقلیتوں اور دلتوں کے حقوق کو محدود کرنا عوام کو اپنے ہاتھ میں قانون اور انصاف کو اپنے ہاتھ میں لیناہندوستان جیسے ملک کے لئے بہتر نہیں ہے ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے یہاں تمام مذاہب کے لئے یکساں قانون ہے ۔ مسلمانوں کا مسئلہ یہ کہ وہ خود غرضی اور احمقانہ مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیںوہ جس ملک میں رہتے ہیںہم وطنوں کے ساتھ کس طرح رہنا ابھی تک نہیں سیکھ پائے دنیا کے کسی بھی حصے میں مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے توبڑے ہی جذباتی انداز میںاس ظلم کے خلاف متحدہ طور پر آواز اٹھاتے ہیںاور یہ آواز اٹھانے کا سلسلہ کئی دنوں تک جاری رہتا ہے مان بھی لیںیہ ایمان کی حرارت ہے تو کیا ہم وطنوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف خاموش بیٹھنا کیا اسلام کا شیوہ ہے ۔ ہاتھرس میں جب ایک دلت بیٹی کے ساتھ ظلم ہوا کتنی مسلم تنظیموں نے آواز اٹھائی اور احتجاج کیا۔ اگر جب اخلاق‘ پہلو خان‘تبریز انصاری‘ناصر اور جنید کو وہی لوگ موت کے گھاٹ اتارتے ہیں تو مسلمانوں کو اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا احساس ہو مسلمانوں کی تمام تنظمیں اور جماعتیں و ادارے اس وہم کو اپنے ذہنوں سے نکال دیںوہ اس ملک میں اپنے بل بوتے پر ہندو توا تنظیموں کا مقابلہ کر سکتے ہیںمسلمانوں کے ذہنی سوچ اور نظریہ پر افسوس ہوتا ہے وہ مسلمانوں کے خلاف ہونے والے ہر ظلم کے خلافاکیلے لڑنا چاہتے ہیںمسلمانوں کی مختلف جماعتیں اور تنظیمیں متحد ہو کر مقابلہ کرنے کو تیار نہیںوہ اکیلے بیانات اور جلسوں کے ذریعہ صرف یہ پیغام دینا چاہتے ہیں وہی مسلمانوں کے اصل نمائندے اور قائد ہیں مسلمانوں کی تمام جماعتوں اور تنظیموں کو یہ عہد کرنا ہوگاملک میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے خلا ف اکیلے کبھی آواز نہیں اٹھائیں گے بلکہ متحدہ طور پر آواز اٹھائیں گے مسلمانوں کی تمام جماعتوں اور تنظیموں کو یہ بات بھی یاد رہے اس ملک میں تمام مسلمان بھی متحد ہو کر ان دائیں بازو کی جماعتوں سے مقابلہ نہیں کر سکتے اپنے جلسوں میں جذباتی نعرے تو لگائے جا سکتے ہیںمگر زمینی سطح پر کامیاب نہیں ہوں گے مسلمانوں پر جس طرح ظلم ہو رہا ہے اسی طرح دلتوں پر ظلم ہو رہا ہے اور ملک کے دلت اب جاگ رہے ہیںان کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیںانھیں مذہب کے نام کس طرح دھوکہ دیا جا رہا ہے آج ضرورت ہے ملک میں دلتوں کے ساتھ مل کر متحدہ طور پر دائیں بازو کی جماعتوں سے مقابلہ کریںمسلمانوں کے مقابلے میں دلتوں کی آبادی بہت زیادہ ہے اگر یہ دونوں قومیں ملتی ہیں توسماجی طور پرمعاشی طور پر اور سیاسی طو ر پر ہر جگہ دائیں بازو کے نا پاک ارادوں کو کچلا جا سکتا ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰