سیاستمضامین

آبائی جائیداد کو ورثاء میں اگر منصفانہ طور پر تقسیم کرلیا جائے تو عدالت سے رجوع ہونے کی ضرورت پیش نہیں آئے گیتقسیم صرف قرآن کریم کے احکامات کے مطابق ہونی چاہیے۔ حق تلفی کو گناہِ کبیرہ سمجھا جائے گا

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد۔

٭ عدالت سے رجوع ہوں تو کئی سال لگ جائیں گے۔
٭ ابتدائی ڈگری چھ سات سال بعد ملے گی۔
٭ آگے اپیل کا مرحلہ آئے گا اور اس طرح زندگی گزرجائے گی۔
٭ فریقین کو حقیقت شناس بننے کی ضرورت ہے۔
ایک سروے کے مطابق سیول کورٹ حیدرآباد میں سب سے زیادہ تقسیم ترکہ کی نوعیت کے مقدمات زیرِ دوران ہیں۔ ان میں سے سینکڑوں مقدمات ایسے ہیں جنہیں فائل کرکے زائد از دس سال کا عرصہ گزرچکا ہے اور ابھی تک ٹرائل کی نوبت نہیں آئی۔ گویا اگر بیانات شروع ہوں تو اور دو تین سال انتظار کرنا پڑے گا اور اس کے بعد ہی کسی ایک فریق کے حق میں ابتدائی ڈگری جاری کی جائے گی لیکن اپیل کا مرحلہ باقی رہے گا ۔ اگر شہر کی سٹی سیول کورٹ کے کسی چیف جج کی عدالت میں مقدمہ کا فیصلہ صادر ہوا ہو تو ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی جائے گی۔ جہاں تک ہائیکورٹ کا تعلق ہے وہاں CCA یعنی سٹی سیول کورٹ اپیل کم از کم پندرہ تا بیس سالہ عرصہ کے بعد آخری سماعت کے لئے پیش ہوگی ‘ پھر اس کے بعد ہی حقدار کو حق ملے گا اگر وہ فریقِ ثانی زندہ رہیں ۔مغربی دنیا میں انصاف رسانی کا عمل جیٹ کی رفتار سے چل رہا ہے اور ہماری عدالتوں کی رفتار چھکڑوں سے بھی کم ہے۔ انصاف میں تاخیر انصاف سے محرومی کے مترادف ہے۔ کیا یہ انصاف سے محرومی نہیں ہے کہ ایک بیٹی کو اس کا جائز حق حاصل کرنے کے لئے بیس تیس سالہ عرصہ لگ جائے۔ کئی صورتوں میں فریقین کے فوت ہونے کی صورت میں ان کے ورثاء کو فریق بنانے میں ایک دو سال کا عرصہ لگ جاتا ہے۔ ہمارے انصاف کا انتظام فرسودہ ہوچکا ہے۔ بلکہ اس بات کا کہنا حق بجانب ہوگا کہ انصاف دلانے کا سسٹم ازکارِ رفتہ ہوچکا ہے اور اس ضمن میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ حکمران طبقہ اپنے مرضی کے قوانین منظور کرواتا ہے لیکن ایسی کوئی ترمیم سیول پروسیجر کوڈ میں نہیں ہوتی کہ سیول عدالتوں میں ٹرائل کے مرحلہ کو ایک سالہ مدت میں مکمل کیا جائے اور اس کی اپیل پر فیصلہ کی مدت چھ ماہ مقرر ہو۔ یہ بات ممکن ہے لیکن وکلاء برادری جان بوجھ کر اس عمل میں رخنے ڈالتی ہے اور ہر چھوٹی سی بات پر ایک Interlocutory Application دائر کرکے مقدمہ کو طوالت میں ڈال دیتی ہے۔ جب تک اس درمیان میں دائر کی ہوئی درخواست پر آرڈر نہیں ہوتا مقدمہ جوں کا توں موقف میں پڑا رہتا ہے اور جب اس (I.A) پر آرڈر پاس ہوتا ہے تو اس آرڈر کی ناراضگی میں ہائیکورٹ میں ایک (CRP) دائر کی جاتی ہے جس کے تصفیہ کے مزید ایک سال کا عرصہ لگے گا پھر اس کے بعد کسی بھی (Issue) پر دوبارہ یہی عمل دہراتا ہے اور چلتے چلتے کبھی کبھی فریق کی تو کبھی ایڈوکیٹ صاحب کی موت ہوجاتی ہے اور مقدمہ دھرا کا دھرا ہی رہ جاتا ہے۔
ہمارے ایک عزیز دوست جناب انیس الدین سابق این آر آئی او رکالم نگار روزنامہ منصف کی ننھیالی جائیداد جو سینکڑوں ایکر پر مشتمل ہے‘ کا تقسیم ترکہ کا مقدمہ 2006ء سے رنگاریڈی کورٹ میں زیرِ دوران ہے اور آج تک اس مقدمہ کا فیصلہ نہیں ہوا۔ یہ شہر کے نواحی علاقہ میں واقع ایک بیش قیمت اراضی کا مقدمہ ہے جہاں زمین کی قیمت بیس کروڑ روپے فی ایکر ہے۔ مقدمہ کا فیصلہ اب تک نہ ہوسکا اور اس درمیان میں کئی لینڈ گرابرس نے زمین کے بڑے حصے پر قبضہ کرلیا۔ اس مقدمہ سے سبق حاصل کیا جاسکتا ہے کہ ایک فریق غاصبانہ قبضہ کئے ہوئے ہے تو دوسرے فریق ہمارے عزیز دوست ہیں جن کو اب تک انصاف نہ مل سکا۔ اگر اس جائیداد کی منصفانہ تقسیم پہلے ہی ہوجاتی تو ہر فریق انتہائی خوشحال ہوتا اور لینڈ گرابرس اور غنڈہ عناصر کو موقع نہ ملتا کہ کسی غیر کی ا راضی پر غاصبانہ قبضہ کرے۔
اس سے پہلے کہ اولاد ایسی تباہ کن صورتحال سے دوچار ہو ‘جائیداد کی منصفانہ تقسیم کردیجئے
سب سے زیادہ ناپائیدار چیز انسان کی زندگی ہے۔ نہیں کہا جاسکتا کس وقت خالقِ حقیقی اس امانت کو واپس لے لے۔ ہر روز اموات کی خبریں پڑھتے ہیں۔
کتنی مشکل زندگی ہے ‘ کس قدر آساں ہے موت
گُلشنِ ہستی میں مانندِ نسیم ارزاں ہے موت
زلزلے ہیں بجلیاں ہیں قحط ہیں آلام ہیں
کیسی کیسی دخترانِ مادرِ ایام ہیں
کُلبۂ افلاس میں، دولت کے کاشانے میں موت
دشت و در میں، شہر میں، گُلشن میں، ویرانے میں موت
موت ہے ہنگامہ آرا قُلزُمِ خاموش میں
ڈُوب جاتے ہیں سفینے موج کی آغوش میں
نَے مجالِ شکوَہ ہے، نَے طاقتِ گفتار ہے
زندگانی کیا ہے، اک طوقِ گُلو افشار ہے!
قافلے میں غیرِ فریادِ درا کچھ بھی نہیں
اک متاعِ دیدۂ تر کے سوا کچھ بھی نہیں
علامہ اقبالؒ نے اوپر کے اشعار میں موت کا کتنا صحیح نقشہ کھینچا ہے ۔ موت نوشتہ دیوار ہے لیکن لوگ اسے پڑھنے کی زحمت نہیں فرماتے۔ جب کہا جاتا ہے کہ اپنے ورثاء کے لئے اپنی حیات میں کچھ کردو تو جواب دیتے ہیں ہاں! یہ کام تو کرنے کا ہے۔ لیکن بہت ساری صورتوں میں یہ کام نہیں ہوپاتا اور انجامِ کار اولاد میں سے کچھ کو اور خصوصاً بیٹیوں کو محروم ہی ہوجانا پڑتا ہے اور ان کی قسمت میں عدالت کے چکر ہی رہتے ہیں۔
اگر صاحبِ جائیداد اپنی حیات ہی میں احکاماتِ قرآنی کے مطابق اپنی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کو اپنے ورثاء میں تقسیم کردیں تو بعد موت ورثاء کو ان کا حق یقینی طور پر مل جائے گا ۔ تقسیم نامہ کو اپنے ہاتھ ہی میں رکھیئے اور مناسب وقت پر سب ورثاء کو یہ بات بتادیجئے۔ ورنہ بعد میں اگر کسی بھی وارث کے حق میں ناانصافی ہوگی تو بہت بری بات ہوگی۔
صاحبِ جائیداد اپنی حیات میں اپنی جائیداد اپنے ورثاء میں بذریعہ ہبہ منتقل کرسکتا ہے ۔ اس عمل میں کوئی دشواری نہیں ہوگی اور نہ لاکھوں روپیہ بطورِ اسٹامپ ڈیوٹی ادا کرنا پڑے گا۔
حصوں کی تقسیم
بیٹی کا حصہ بیٹے کے حصہ کے بہ نسبت نصف ہوگا۔ اگر صرف ایک بیٹی ہ وتو اس کا حصہ نصف ہوگا۔ بیوی کا حصہ آٹھواں ہوگا۔ اور باقی جو بچ رہے گا ہو بھائی بہنوں میں دو اور ایک کی نسبت میں تقسیم ہوگا۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ماں یا باپ بیٹے کی وراثت پائیں۔ ویسے دونوں کا حصہ فی کس 1/6 ہوگا۔ بیوی کا حصہ آٹھواں ہوگا اگر اولاد ہو ورنہ ایک چوتھائی۔ اس ضمن میں سورۃ النساء بالکل وضاحت کے ساتھ تمام حصہ جات کی تقسیم کا طریقہ بتاتا ہے۔ جو بعد از مرگ ہوگا ۔ لیکن ہم یہاں حیات ہی میں تقسیمِ جائیداد کی بات کررہے ہیں کیوں کہ اس بات کا صد فیصد امکان ہوگا کہ بیٹے ا پنی بہنوں کو محروم ردیں گے اور کہیں گے کہ تمہاری شادیوں میں بہت کچھ خرچ کیا جاچکا ہے جو بہت کافی ہے۔ ایسی صورت کو ٹالنے کا بس یہی طریقہ ہے کہ صاحبِ جائیداد اپنی جائیداد کی ت قسیم بذریعہ ہبہ کردے۔
دوسری جانب اگر صاحبِ جائیداد کا انتقال ہوچکا ہو اور ورثاء آپس میں تقسیم جائیداد کے مسئلے میں متفق الخیال ہوں اور انصاف کو پیشِ نظر رکھیں تو بہت ہی اچھی بات ہوگی۔ تقسیم ترکہ کے لئے انہیں نہ رجسٹریشن آفس جاکر Partition Deed کے ذریعہ جائیداد کی تقسیم کرنی ہوگی اور نہ ہی بھاری اسٹامپ ڈیوٹی کی رقم ادا کرنی ہوگی۔ یہ کام بہت ہی آسان ہے جسے قانون کی حمایت حاصل ہے ۔ اگر وہ ایک Deed of Family Settlement تیار کرلیں اور اس کی ورثاء کی تعداد کے مطابق دستاویز تیار کرلیں اور ہر دستاویز پر سب ورثاء کی دستخط ہو اور ہر کسی کا حصہ مختص ہو تو مسئلہ ہی باقی نہیں رہے گا۔ ہر کسی وارث کے ہات ھ میں ایک دستاویز ہوگا جس پر تمام ورثاء کے دستخط ثبت ہوں گے۔ قانون اور عدالتیں اس اصول کو تسلیم کرتی ہیں۔
لہٰذا مزید وقت ضائع کئے بغیر یہ نیک کام کردیجئے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰