طنز و مزاحمضامین

ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی

حمید عادل

دنیا ایسا بازار ہے کہ جہاں غم کی بے شمار اور خوشیوں کی دکانیں بہت کم ہیں،ہم اکثراپنے غم کو بڑا اس لیے سمجھتے ہیں کیوں کہ ہم دوسروں کے غم کو چھوٹا سمجھتے ہیں … اور جب ہم سمجھ جاتے ہیں کہ دنیا میں ایسے بے شمار لوگ ہیں جن کا غم ہمارے غم سے بھی بڑا ہے تو پھر دیوانہ وار یہ نغمہ گنگناتے پھرتے ہیں ’’ دنیا میں کتنا غم ہے ، میرا غم کتنا کم ہے ، لوگوں کا غم دیکھا تو میں اپنا غم بھول گیا ۔‘‘اس بازار میں ہر قسم کا کردار ہم سے ٹکراتا ہے …ہر کردارکی اپنی اہمیت ہے ،ہم جسے بے کار سمجھتے ہیں، پتا چلتا ہے کہ وہی توکام کی چیز تھا…
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ چوبیس آدمی جنگل سے گزر رہے تھے کہ موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔وہ ایک بڑے کمرے میں بارش کے رکنے کا انتظار کرنے لگے…دریں اثناآسمانی بجلی زور دار گھن گرج سے کمرے کی چھت پر سے ہو کر واپس چلی جاتی لیکن دھیرے دھیرے آسمانی بجلی کا یہ عمل تیز ہو گیا۔ چوبیس آدمیوں نے آپس میںمشورہ کرکے فیصلہ کیا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم میں سے بجلی کسی ایک آدمی کو شکار بنانا چاہتی ہے،ایسا کرتے ہیں کہ ہرآدمی ایک ایک کر کے کمرے سے باہرچلا جائے جس آدمی پر بجلی پڑنی ہو گی پڑ جائے گی اور سب باقی بچ جائیں گے۔ اس طرح تمام آدمی کمرے سے باری باری باہر گئے اور بچ کر واپس آ گئے…پھر انہوں نے چوبیسویںآدمی کویہ کہہ کر کمرے سے باہر پھینک دیاکہ اس کی وجہ سے ہم سب پریشان تھے…آسمانی بجلی بڑی زور سے کمرے پر پڑی اورتمام آدمی جل کر راکھ ہو گئے…یعنی صرف چوبیسویںآدمی کی زندگی کی وجہ سے 23آدمی بچ رہے تھے …
خود کومکمل اور دوسرے کوحقیر سمجھنا بری بات ہے ، کسی نے کیا خوب کہا ہے انسان اپنا برا وقت بھول جاتا ہے لیکن برے وقت میں لوگوں کا برا رویہ نہیں بھولتا … احساس کی دولت سب سے بڑی دولت ہوتی ہے ،کچھ لوگ اس قدر حساس ہوتے ہیں کہ وہ یہ سوچ سوچ کر مرے جاتے ہیں:
میں تواُس وقت سے ڈرتا ہوں کہ وہ پوچھ نہ لے
یہ اگر ضبط کا آنسو ہے تو ٹپکا کیسے ؟
احمد ندیم قاسمی
ہر روز ہمارا مختلف لوگوں سے سامنا ہوتا ہے ، بیشتر کردار فلمی منظر کی طرح آتے جاتے ہیں لیکن کچھ ذہن سے ایسے چمٹ جاتے ہیں کہ جانے کا نام ہی نہیں لیتے…مثال کے طو رپر ہمارے معزز وزیراعظم … جو کبھی ڈرتے نہیں،کبھی رکتے نہیں اور کبھی تھکتے نہیں …سناہے کہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرتے ہیں اور باقی چھ گھنٹوں میں بھی وہ کھلی آنکھوں سے ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کے خواب دیکھتے ہیں….(جی نہیں! مونگیری لال والے خواب نہیں) یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم کے پاس وقت کی بہت قلت ہے، چنانچہ چلچلاتی دھوپ میں ہفتوں سے دھرنے پربیٹھیں اولمپک میڈ ل جیتنے والی خاتون ریسلرس سے ملنے کے لیے تک ان کے پاس وقت نہیں تھا …جی کیا کہا؟پھر پارلیمنٹ ہاوز کی نئی عمارت کے افتتاح کے لیے وزیراعظم نے وقت کیسے نکالا؟لو کرلو بات… ارے پارلیمنٹ ہاوز کا افتتاح کیا انہوں نے اپنے لیے کیا ہے ، یہیں بیٹھ کر تو وہ ملک و قوم کے لیے اہم فیصلے کریں گے… براہ کرم ! وزیراعظم کو سمجھنے کی کوشش کریں… انہوں نے تو برسوں قبل یہ کھلے عام کہہ دیا ہے کہ ہم تو فقیر آدمی ہیں، جھولا لے کر چل دیں گے…اتنا کہنے کے بعد بھی اوٹ پٹانگ اور بے تکے سوالات کرتے ہوئے شرم تم کو مگر نہیں آتی…خیر! بات خاتون ریسلرس کی ہورہی تھی …وزیر کھیل کا کہنا ہے کہ حکومت خاتون ریسلرس کے مسئلے کو حساس طریقے سے نمٹ رہی ہے ، تب ہی تو پولیس نے اولمپک چمپئنس کو سڑک پر گھسیٹا، انہیں مارا پیٹا،اتنا ہی نہیں فرض شناس پولیس نے جنتر منتر پر خاتون ریسلرس نے جو عارضی ٹھکانہ بنایاہوا تھا ، اسے اکھاڑ پھینکا …کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس طرح کی سخت کارروائی ملک کا نام روشن کرنے والی خاتون ریسلرس کے خلاف نہیں کرنی چاہیے تھی، وزیراعظم کو خاتون ریسلرس سے بات کرنی چاہیے تھی…ارے بھائی ! وزیراعظم من کی بات تو کرتے ہی ہیں ،من کی بات سے بھی بڑی بھلا کیا کوئی بات ہوسکتی ہے ؟
ہمارے دوسرے کردار ہیں،مشکوک حیدرآبادی جوہمیشہ شکوک و شبہات میں گھرے ہوتے ہیں اور اپنا کیا دھرا لوگوں پر دھرتے ہیں،اپنی غلطی کوغلطی سے بھی نہیں مانتے… دفتر کو آتے دیر سے ہیں،اور باز پرس کرنے والے پر ہی برس پڑتے ہیں …کبھی کبھی تو ڈھٹائی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ خود تو فون کرتے نہیں،اگر کوئی بندہ انہیں فون کردے تو شکایت کرتے ہیں کہ تم تو بھول ہی گئے، ہفتے پندرہ دن میں بھی یاد نہیں کرتے ، مجھے تم سے تویہ امید نہ تھی،لگتا ہے تمہارا خون سفید ہوگیا ہے …‘‘ اب بیچارہ فون کرنے والا پچھتاتا ہے کہ آخر اس نے فون ہی کیوں کیا ؟کچھ تو دوڑے دوڑے ڈیاگناسٹک سنٹر پہنچ جاتے ہیں کہ جانچ تو لیں میرا خون سچ مچ سفید تو نہیں ہوگیا ہے ؟
آدمی وہ ہوتا ہے جس سے مل کر دل باغ باغ ہوجائے نام تو چمن بیگ ہے ،لیکن جب بھی ملتے ہیں بہار کے موسم میں بھی خزاں کی باتیں کر تے ہیں،لہٰذا اب لوگ انہیںاجڑا چمن کہنے لگے ہیں، ان کا سایہ بھی لہراتا ہے تو بھاگ کھڑے ہوتے ہیں…ایک دفعہ چار دوست محو گفتگو تھے، چمن بیگ نے انہیں دیکھ کر گاڑی روکی،گاڑی سے اتر کرانہوں نے دیکھا تو وہاں کوئی نہ تھا، جہاںکچھ لمحے پہلے چار دوست کھڑے محو گفتگوتھے…کسی نے سچ ہی کہاہے کہ ہنسنے والے کے ساتھ سب ہنستے ہیں لیکن رونے والے کے ساتھ کوئی نہیں روتا…
ہمارے ایک اور دوست ہیںمیاں رائچوری، ہرچھوٹی بڑی دعوت میں شریک ہونا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں اوران دعوتوں میں جانا ہر گز نہیں بھولتے جن میں ان کا خرچ کم ہواور کھانے کو ڈھیر ساری ڈشس ملیں ۔ اگر کوئی کسی دعوت کا ان کے روبرو بھولے سے بھی ذکر کردے تو فوری دوڑ کر گھر سے اپنی موٹرسائیکل لے آتے ہیںاور اسے اس حدتک پریشان کرتے ہیں کہ وہ بیچارہ انہیں اپنے ساتھ دعوت میں لے جانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
شادی بیاہ کے موقع پر ڈنر کے بعد عموماً ویٹر حضرات دلہے کے ہاتھ گرم پانی سے دھلا کر اپنی جیب گرم کرتے ہیں… اسی طرح کی مانگ جب میاں رائچوری سے ان کی شادی پر کی گئی اوران سے ہزار روپئے ویٹروں نے بطور نذارانہ طلب کیے تو وہ بدک کر اپنی کرسی سے اچھل پڑے اور ویٹر سے نہایت درشت لہجے میں کہنے لگے ’’ ظالمو! ایک دفعہ ہاتھ دھلانے کے ہزار روپئے طلب کرتے ہو؟ کیا حرام کامال سمجھ رکھاہے ؟ ارے اگر کوئی مجھے ہزار روپئے دیدے تو میں تمام مہمانوں کا ہاتھ کھڑے کھڑے دھلادوں! ‘‘ بہرکیف ہوتے ہوتے یہ بحث یہاں تک پہنچ گئی کہ ویٹر اورمیاں رائچوری میں زبردست ٹھن گئی اور تمام ویٹر انہیںمارنے مرنے پرتل گئے ۔ وہ تو اچھا ہوا کہ شادی میں شریک چند شرفا نے بیچ بچاؤ کیا اور میاں رائچوری کو اٹھاکر شادی خانے کے محفوظ گوشے میں چھپا دیا…
آپ نے کنجوسوں کی خیرات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ صرف اتنا سنا ہوگا کہ وہ اندھے بھکاریوں کی ہتھیلی میں ایک روپیہ رکھ کربڑی ڈھٹائی سے پانچ روپئے اڑا لیتے ہیں لیکن میاں رائچوری کا تو انداز ہی نرالا ہے وہ خیرات کی شکل میں کھوٹا سکہ یا پھٹی پرانی نوٹ دیتے ہیں یا پھر جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ دینے کے انداز میں بنا کچھ دیے بھکاری کی جھولی میں موجود نقد رقم اٹھا لیتے ہیں۔پچھلے دنوں وہ ہمارے ساتھ کھڑے تھے کہ انہیں ایک اندھا بھکاری نظر آگیا‘ جسے دیکھ کر برا سا منہ بناکر ہم سے کہنے لگے ’’ یار! مجھے غربا و مساکین کی یہ حالت دیکھی نہیں جاتی‘ خاص کر اندھے بھکاریوں کی !‘‘ اورپھر جیب سے کچھ نکال کر انہوں نے اس کی جھولی میں ڈالا ہی تھا کہ بھکاری نے لپک کر ان کا ہاتھ پکڑ لیا ۔ اُس کی اس غیر متوقع حرکت پرمیاں رائچوری بری طرح سے گھبرا گئے اور ہماری جانب دیکھنے لگے۔ بھکاری نے ایک روپئے کا بوسیدہ نوٹ دکھلاتے ہوئے کہا ’’ کیوں رے بے ایمان! ہمیشہ پھٹے پرانے نوٹ میری جھولی میں ڈال کر‘ کرارے نوٹ اٹھا لیتا ہے ؟ کیا مجھے نوٹ ایکسچینج کاؤنٹر سمجھ رکھا ہے؟‘‘ نا بینا بھکاری کا یہ ریمارک سن کر میاں رائچوری تقریباً کانپتے ہوئے بولے ’’ کم بخت!تیری یہ ہمت ! ایک تو تو اندھا نہیں ہے اور اوپر سے مجھے تمیز سکھا رہاہے ! میں تیرا کاروبار بند کرادوں گا۔‘‘ بھکاری نے اپنا کاروبار خطرے میں دیکھا تو طیش میں آگیا اوراچھل کر ان کا گریبان پکڑ لیا اور ایک زور دار کان بھیری چھوڑنے ہی والا تھا کہ ہم نے میاں رائچوری کو اس کی مضبوط باہوں سے آزاد کرالیا!
میاں رائچوری مہمانوں کے سخت دشمن ہیں ، چنانچہ مہمان بے چارے پہلے تو ان کے ہاں آتے نہیں اور آتے بھی ہیں تو انہیں نت نئے طریقوں سے ذہنی و جسمانی تو کبھی روحانی ایذا پہنچا کر پہلے ہی دن بھگادیتے ہیں ۔ پچھلے سال مئی اور جون کا بڑا سخت گرما تھا کہ ان کے چند قریبی رشتے دار ایک ہفتے کے لیے ان کے ہاں وار د ہوئے لیکن میاں رائچوری ایک ہفتے تک انہیں بھلاکیسے برداشت کرتے؟ اس لیے انہوں نے مہمانوں کو بھگانے کے لیے اپنے بھائیوں کے ہمراہ بند کمرے کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا۔یہاں اس بات کا تذکرہ بے محل نہ ہوگا کہ میاں رائچوری کے دو بھائی اور ہیں جو بالکل ان ہی کی طرح تنگ دل‘ تنگ چشم‘ تنگ ذہن ‘تنگ ظرف اور تنگ پوش ہیں! مختصر یہ کہ ہر معاملے میں تینوںاتنے تنگ ہیں کہ زمانے کو دنگ کرکے رکھ دیاہے…
بہرحال! مذکورہ ہنگامی اجلاس میں یہ فیصلہ صادر کیا گیا چونکہ گرما بڑا سخت چل رہاہے ‘اسی لیے مہمانوں کے کمرے کی فوراً سے پیشتر برقی سپلائی منقطع کردی جائے اور وہاںرکھا ہوا کولر اٹھوا لیا جائے ۔لہٰذا اس تجویز پر فوری عمل ہوا جس کا خاطر خواہ نتیجہ بھی برآمد ہوا ‘ سارے مہمان اسی شام اپنا سامان چھوڑ کر میاں رائچوری کے گھر سے بھاگ کھڑے ہوئے…
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
ندا فاضلی
۰۰۰٭٭٭۰۰۰