مضامین

ارتداد و معاشرے کو درپیش بیشتر مسائل کے لیے ذمہ دار کون؟

محمد ضیاءالدین

ایک طرف اغیار کا یہ پرچار کہ مسلمان اپنی عورتوں پر ظلم کرتے ہیں، انہیں مساویانہ حقوق نہیں دیتے، انہیں پردے میں قید کرتے ہیں، غرض کے ان کے خیال سے مسلم خاتون ایک ایسی مظلوم عورت ہے جو بے دست و پا ہے جس کا سماج میں کوئی مقام ہی نہیں جب کہ حقیقی صورت حال یہ ہے کہ مسلم معاشرہ آج عورتوں کی سرزوری سے پریشان ہے۔
وہ دور گیا جب عورتوں کا دائرہ کار چولھے چکی اور بچوں کی پیدائش تک محدود تھا۔ ویسے بھی مسلم معاشرے میں مسلم خواتین دروں خانہ ہمیشہ اہمیت کی حامل ہی رہی ہے۔ عورتوں کے تئیں مسلمانوں کے رویے کا ایک روشن ثبوت تاج محل اور بی بی کا مقبرہ بھی ہے۔ تاج محل کو عشق کا لازوال مظہر کہا جاتا ہے تو بی بی کا مقبرہ ماں کے تئیں محبت و عقیدت کا اظہار ہے۔ علم و سیاست کے میدان میں بھی مسلم خواتین نے اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے ہیں ۔
مسلم معاشرے کا اجمالی منظر نامہ یہ رہا ہے کہ یہاں مسلم خواتین اہمیت و عزت و احترام کی حامل رہی ہیں لیکن اب ہم بات کرتے ہیں آج کے حالات کی۔ گزشتہ کچھ دہائیوں سے تعلیم نسواں کا غلغلہ مچا، ابتدا میں تو مسلم معاشرے کی اکثریت نے اسے اپنے دین اور اپنی تہذیب و تمدن کے خلاف قرار دے کر اس سے گریز کیا، کہیں کہیں اس پر شدید احساسات کا بھی اظہار کیا گیا لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا رہا وہ قدامت پسند خیالات کے لوگوں نے بھی شدت پسندی ترک کردی اور اب یہ صورتحال ہے کہ مسلم لڑکیوں کی تعلیم کی کوئی بھی مخالفت نہیں کرتا غرض کہ معاشرے میں کافی تبدیلی آچکی ہے۔ خواتین کے تئیں پائی جانے والی سوچ بھی بدل گئی ہے اور تو اور خواتین حصول روزگار کے لیے بھی باہر نکل چکی ہیں۔ تعلیم یافتہ خواتین نوکری کررہی ہیں، غیر تعلیم یافتہ خواتین بھی چھوٹے موٹے کام کررہی ہیں، وہیں غریب طبقات کی خواتین گھروں میں کام کاج کررہی ہیں۔ یہ وہ تبدیلی ہے جو کبھی بہت معیوب سمجھی جاتی تھی۔ علاوہ ازیں مسلم خواتین کو سیاسی سماجی سرگرمیوں میں بھی جلوہ گر دیکھا جاسکتا ہے بقول اکبر الہ بادی کہ
اب شمع محفل ہے پہلے چراغ خانہ تھی
غرض کہ سارا منظرنامہ ہی بدل گیا ہے ۔تبدیلیاں جہاں خوشگوار ہوتی ہیں، وہیں مضرت رساں بھی اور زیر تذکرہ تبدیلیوں کے بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے۔ اس تبدیلی دور نے اچھے کم اور برے اثرات زیادہ مرتب کیے ہیں کہ آج محفلوں میں بھی اس تبدیلی کے برے اثرات کے تذکرے ہورہے ہیں، حتی کہ خواتین جہد کار بھی برملا کہہ رہیں کہ آج ملت کو درپیش مسائل کا سبب خواتین کی ایک بڑی اکثریت ہے۔ معاملہ کوئی بھی کیوں نہ ہو خواتین کی دخل اندازی کے سامنے مرد بے دست و پا نظر آرہے ہیں۔ توہم پرستی ہو، مرشد و بابا کے چکر ہوں جو کہ ملت کے لیے سم قاتل سے کم نہیں کہ یہاں نہ صرف معاشی و معاشرتی نقصان اور عزت و عصمت کے لیے ہی نہیں عقاید کے لیے بھی قدم قدم پر خطرات ہیں، یہاں خواتن کی اکثریت موجود پائی جاتی ہے، جو ایسے مقامات پر جاکر نہ صرف خود کا بلکہ اپنے گھر والوں کا ایمان بھی خطرے میں ڈال رہی ہیں اور باوجود منانے سمجھائے جانے کے وہ اپنی اس روش کو چھوڑنے تیار نہیں۔ یہاں اگر ناخواندہ یا جاہل خواتین پائی جاتی ہیں تو تعلیم یافتہ خواتین بھی (گو کہ کم ہی سہی) مگر پائی جاتی ہیں۔
آج ملت کو درپیش نہایت سنگین مسئلہ ہے لڑکیوں کی بروقت شادیوں کا کہ اس میں تاخیر سماج میں کئی مسائل پیدا کررہی ہے۔ اس سنگین اور اہم مسئلہ کی جڑ میں بھی خواتین ہی پائی جاتی ہیں۔ چاہے جس طرف ہوں، اگر لڑکے کی ماں یا بہنیں ہوں تو ان کے کیا کہنے۔ ان کے لیے لڑکے کے لیے دلہن کی تلاش (مودی کے) کسی ایونٹ سے کم نہیں۔ ان کو مطلوبہ لڑکی میں وہ ساری خوبیاں چاہیے جو ان کی سات پشتوں میں بھی نہیں تھیں، پھر بات افسانوی خوب صورتی کی ہو یا مال ومنال کی، خوبصورت بلکہ بے حد خوبصورت لڑکی اور ساتھ میں بہت سارا مال بشکل جہیز اور اس کی تلاش کا سلسلہ شیطان کی آنت کی طرح لامتناہی ہوتا ہے اور اس دوران ہونے والی پرتکلف ضیافتوں اور میزبانوں کے منسکرانہ اور عاجزانہ رویے سے (جو کہ ان کی خبیث فطرت کی تسکین کا ذریعہ بنتی ہے) سے محظوظ ہوتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ یہ سلسلہ تادیر چلتا رہے اور اسی لیے لڑکے کی بہنیں ہر اچھی لڑکی میں کیڑے نکالتی ہیں، جس کے سبب بات بنتی نہیں بلکہ اب تو یہ کہا جارہا ہے کہ لڑکوں کی شادیوں میں تاخیر کے لیے لڑکوں کی مائیں اور بہنیں ہی ذمہ دار ہیں جو رشتوں کو اس خوف سے جمنے نہیں دے رہی ہیں کہ اگر ایک بار بات بن جائے تو یہ آئے دن کی ضیافتوں کے لذیذ کھانوں اور میزبانوں کی آوبھگت کا سلسلہ بند ہوجائے گا، اس لیے وہ نہیں چاہتیں کہ یہ مرحلہ شوق آسانی سے طئے ہوجائے بھلے اس چکر میں لڑکے بوڑھے ہی کیوں نہ ہوجائیں۔
اگر معاملہ لڑکی کی شادی کا ہو اور اگر خوش قسمتی سے لڑکے والے دیندار یعنی باضمیر ہوں اور شادی بغیر کسی لین دین کے سادگی سے کرنا چاہتے ہوں تو یہاں بھی گھر کی خواتین ہی ہوں گی جنھیں یہ فکر کھائے جارہی ہوگی کہ لوگ کیا کہیں گے (وہ لوگ جنھوں نے نہ تو کبھی ان کی لڑکی کارشتہ جمانے میں کوئی مدد کی نہ کبھی کسی پریشانی میں آگے آکر ان کو کوئی راحت پہنچائی ،وہ لوگ جن کے بارے میں یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ شادی میں شرکت کرکے شادی کی معمولی خامیوں پر نظر رکھیں گے اور باہر جانے کے بعد حسب توفیق انہیں وائرل کریں گے ) یہ وہی لوگ ہیں جن کی خاطر خواتین شادی کے اخرجات کو اپنی بساط سے زیادہ بڑھائیں گی، ان ساری ازکار رفتہ رسومات کی انجام دہی کے لیے ضد کریں گی جن کا کوئی حاصل نہیں اور جو سوائے اسراف کے اور کچھ بھی نہیں، لیکن یہ سب اس لیے کیا جاتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے اور دکھاوے کا یہ مرض اوسط درجے کے خاندانوں کی خواتین میں بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ انھیں اس بات سے کوئی لینا دینا نہیں کہ ان کے اس دکھاوے کے شوق کے کتنے نقصانات ہورہے ہیں۔
دوسری طرف یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ بہت سارے خاندانوں میں آپسی اختلافات اور جھگڑے کی وجہ بھی یہی خواتین ہیں، جن کے سبب بھائیوں میں نفاق اور دوری پیدا ہورہی ہے حالانکہ اپنے کرتوت کا خمیازہ ان کو بھگتنا پڑ رہا ہے لیکن یہ اپنی روش سے باز نہیں آتیں۔ اپنے لڑکوں کے لیے خوبصورت لڑکی کی تلاش والی خواتین کو بہت جلد ان کی اس خواہش کا انعام مل جاتا ہے۔ جب خوبصورت بہو تھوڑے ہی دنوں میں لڑکے کو ساتھ لے کر الگ نکل جاتی ہے یا اس بات پر خلفشار مچ جاتا ہے کہ اس خوبصورت لڑکی کا کوئی اور عاشق تھا جس سے اب بھی اس کے روابط ہیں اور اس کے نتیجہ میں دونوں خاندانوں میں تنازعہ پید اہوتا ہے، ایک دوسرے پر الزام تراشیاں ہوتی ہیں اور جلد معاملہ علحدگی پر ختم ہو جاتا ہے اور دل کے ارمان یوں آ نسووں میں بہہ جاتے ہیں۔
آج کل ایک تو شادیاں تاخیر سے ہورہی ہیں اور یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ بہت ساری شادیاں چند مہینوں ہی میں ٹوٹ جارہی ہیں اور اس کے لیے بھی لڑکی کی والدہ کو ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے جو اپنی لڑکی کو خود سری کی ترغیب دیتی اور سسرال والوں سے نہ دبنے کے نامناسب مشورے دیتی ہے جس کے سبب لڑکی چھوٹی چھوٹی باتیں میکے کو پہنچاتی اور اس کی ہر چھوٹی موٹی شکایت پر ماں کی جانب سے اس کی بے جا طرفداری کا نتیجہ ایسی شادیوں کے ٹوٹنے کی شکل میں سامنے آرہا ہے۔ لگتا ہے مسلم معاشرے نے شادی بیاہ کو اپنی خواہشات، انا اور لالچ کے لیے کھیل تماشا بناکر رکھ دیا ہے اور جو معاشرہ اس کے لیے ذمہ دار ہے، وہی اس کے خلاف واویلا بھی مچا رہاہے۔ معاملات گھروں سے پولیس اسٹیشن اور کورٹ کچہری پہنچ کر وہاں برسوں چل رہے ہیں۔ مسلمانوں کی برقعہ پوش نوجوان لڑکیاں ان مقامات کے چکر کاٹنے کے سبب غیر مسلموں کے ربط میں آرہی ہیں اور اس کے نہایت خراب نتایج سامنے آرہے ہیں۔ برداشت کا مادہ کہیں بھی نہیں پایا جاتا ہے۔ ہر کوئی شمشیر بکف ہے چاہے اس کا جو بھی بھگتان بھگتنا پڑے اور اس کی جڑ میں زیادہ تر خواتین ہی نظر آتی ہیں۔
آج کل بازاروں میں مردوں سے زیادہ مسلم برقعہ پوش خواتین نظر آتی ہیں۔ ہمارے بچپن میں خواتین دواخانہ یا کسی تقریب یا سفر کے لیے ہی باہر نکلتی تھیں اور اور ان کے باہر نکلنے کے اہتمام کو سن کر شاید نئی نسل ہنسنے لگ جائے کہ وہ جس رکشہ یا تانگہ سے سفر کررہی ہوتیں اس کو بھی پردہ لگا ہوتا۔ بہت ضرورت کے سبب ہی بازار سے کوئی چیز خریدتیں، وہ بھی رکشہ والے کے ذریعہ خود دکان پر نہ جاتیں، لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ غیر ملازمت پیشہ خواتین کا بھی گھر سے زیادہ وقت بازار میں ہی گزر رہا ہے۔ اس سارے منظر نامہ میں جو نظر نہیں آرہا ہے وہ ہے مرد۔ کہا جارہا ہے کہ اب مردوں نے پردہ کرلیا ہے۔ جب سے خواتین کمر کس کر میدان میں آگئی ہیں مردحضرات نے گوشہ عافیت پکڑ لیا ہے کہ ایک تو انھیں اس جھنجھٹ سے نجات مل گئی ہے وہیں اچھے برے کی ساری ذمہ داری خواتین کے سر تھوپ کر وہ بری الزمہ ہوجاتے ہیں حالانکہ سارے معاملات میں ان کی مجرمانہ خاموشی بشکل رضامندی شامل ہوتی ہے، لیکن جب ذمہ داری عاید کرنی ہوتی ہے تو وہ عورتوں کو بلی کا بکرا بناکر الگ ہوجاتے ہیں۔
ایسا نہیں کہ ساری کی ساری خواتین اسی قبیل کی ہوتی ہیں۔ بہت ساری خواتین جنھوں نے تعلیم و تربیت حاصل کی ہے، اپنے اپنے شعبوں میں بہترین صلاحیتوں کا مظاہر ہ کرتی ہیں، نہایت سمجھدار اور باشعور ہوتی ہیں، لیکن خواتین کی اکثریت ایسی ہے جن کے سبب معاشرے میں مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ ایسے وقت وہ پوسٹرس اور اشتہارات یاد آتے ہیں جو مختلف دینی مدارس کی جانب سے لگائے جاتے ہیں کہ ان کے ادارے کی جانب سے فلاں للبنات قائم ہے اور بہترین خدمات انجام دے رہا ہے جس کی مزید بہتر خدمات کی انجام دہی کے لیے معاشرے سے مالی مدد مطلوب ہے جو جتنی زیادہ ملے اور مطلوب ہی رہتی ہے۔ خیر ملت اس کار خیر میں دل کھول کر حصہ لیتی ہے اور اسے لینا بھی چاہیے، لیکن سوال یہ ہے کہ ان اداروں سے فارغین عالمات و مومنات کہاں ہیں؟ ایسے وقت جب کہ خواتین میں سماجی و معاشرتی بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے، ان عالمات کا میدان میں نظر نہ آنا ایک افسوسناک امر ہے۔ حد تو یہ ہے کہ خواتین کے ایسے اداروں کے وجود کے دعوؤں کے باوجود بچیوں کو قرآن کی تعلیم دینے کے لیے مرد مولویوں کے پاس بھجنا پڑتا ہے جو نہایت نامناسب بات ہے ۔
٭٭٭