دہلی

عتیق اور اشرف کی میڈیا کے سامنے پریڈ کیوں کرائی گئی:سپریم کورٹ

عدالت عظمیٰ نے جو احمد اور ان کے بھائی اشرف کی ہلاکت کی آزادانہ تحقیقات کے لئے ایڈوکیٹ وشال تیواری کی درخواست کی سماعت کررہی تھی جنہوں نے حکومت ِ اترپردیش سے یہ بھی سوال کیا کہ قاتلوں کو اس بات کا پتہ کس طرح چلا کہ ان دونوں کو ہاسپٹل لے جایا جارہا ہے۔

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعہ کے روز حکومت ِ اترپردیش سے سوال کیا کہ جرائم پیشہ سے سیاستداں بنے عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف کو پریاگ راج میں پولیس تحویل میں میڈیکل چیک اَپ کے لئے ہاسپٹل لے جائے جانے کے دوران میڈیا کے سامنے پریڈ کیوں کرائی گئی۔

متعلقہ خبریں
عتیق اور اشرف کے چالیسویں کی رسومات برسرعام انجام نہیں دی گئیں
یوگی نے عتیق احمد کی اراضی پر تعمیر کردہ فلیٹس کی چابیاں حوالے کیں
اروند پنگڑیا، 16ویں فینانس کمیشن کے سربراہ مقرر
سپریم کورٹ کا تلنگانہ ہائیکورٹ کے فیصلہ کو چالینج کردہ عرضی پر سماعت سے اتفاق
بی جے پی کے جھوٹ اور اگزٹ پولس سے چوکنا رہیں، زعفرانی جماعت دھاندلیاں کرسکتی ہے: اکھلیش

عدالت عظمیٰ نے جو احمد اور ان کے بھائی اشرف کی ہلاکت کی آزادانہ تحقیقات کے لئے ایڈوکیٹ وشال تیواری کی درخواست کی سماعت کررہی تھی جنہوں نے حکومت ِ اترپردیش سے یہ بھی سوال کیا کہ قاتلوں کو اس بات کا پتہ کس طرح چلا کہ ان دونوں کو ہاسپٹل لے جایا جارہا ہے۔

جسٹس ایس رویندر بھٹ اور جسٹس دیپانکر دتہ نے سینئر ایڈوکیٹ مکل روہتگی سے جو حکومت ِ اترپردیش کی طرف سے پیش ہوئے تھے‘ سوال کیا کہ آخر انہیں کس طرح اس بات کا پتہ چلا؟ ہم نے اسے ٹی وی پر دیکھا ہے۔ انہیں ہاسپٹل کے داخلہ گیٹ سے ہی ایمبولنس میں کیوں نہیں لے جایا گیا۔ ان کی پریڈ کیوں کرائی گئی۔

روہتگی نے بنچ کو بتایا کہ ریاستی حکومت اس واقعہ کی تحقیقات کررہی ہے اور اس نے اس ضمن میں ایک سہ رکنی کمیشن تشکیل دیا ہے۔ یوپی پولیس کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم بھی اس معاملہ کی تحقیقات کررہی ہے۔ روہتگی نے کہا کہ یہ شخص اور اس کا سارا خاندان گزشتہ 30 سال سے شرمناک کیسس میں ملوث ہیں۔ یہ واقعہ یقینا ایک ہولناک واقعہ ہے۔

 ہم نے قاتلوں کو گرفتار کرلیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اہمیت حاصل کرنے کے لئیہ یہ کام کیا ہے۔ روہتگی نے بنچ کو بتایا کہ قتل کا منظر سبھی نے ٹی وی پر دیکھا ہے۔ قاتل‘ نیوز فوٹوگرافرس کے بھیس میں آئے تھے۔ ان کے پاس ”پاسس“تھے۔

وہ کیمرے بھی لائے تھے اور ان کے پاس شناختی کارڈ بھی تھے جو بعد میں جعلی ثابت ہوئے۔وہاں 50  سے زائد افراد موجود تھے اس طرح انہوں نے قتل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ عدالت نے حکومت ِ اترپردیش کو ہدایت دی کہ وہ اس واقعہ کے بعد کئے گئے اقدامات پر موقف رپورٹ داخل کرے۔

 بنچ نے اپنے حکم میں کہا کہ ایک جامع حلف نامہ داخل کیا جائے جس میں اموات کی تحقیقات کے لئے کئے گئے اقدامات کے بارے میں بتایا جائے۔ اس معاملہ کی سماعت 3 ہفتے بعد مقرر کی جائے۔ یہاں یہ تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس چوہان نے 2020 میں ایک جرائم پیشہ وکاس دوبے کے انکاؤنٹر کی تحقیقات کے لئے ایک کمیشن کی صدارت کی تھی۔

a3w
a3w