سیاستمضامین

امریکہ کی اعصاب شکن انتخابی مہم

مسعود ابدالی

صدر جو بائیڈن نے دوسری مدت کے لیے انتخاب لڑنے کا اعلان کردیا۔ منگل 25 اپریل کو صبح جاری ہونے والے سمعی و بصری پیغام میں اُن کا کہنا تھا کہ چار سال پہلے امریکہ کی خوشی و خوشحالی اور جمہوریت و ملکی سالمیت کا جو منصوبہ انھوں نے پیش کیا تھا اس کی تکمیل کے لیے مزید چار سال درکار ہیں۔ صدر بائیڈن نے 20 جنوری 2021ء کو حلف اٹھایا تھا اور ان کی مدت جنوی 2025ء میں ختم ہورہی ہے۔ نئے صدر کے لیے 5 نومبر 2024ء کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔ یہاں انتخابات کی تاریخیں پہلے سے طے ہیں۔ صدارتی انتخابات ہر چار سال بعد نومبر کے پہلے پیر کے بعد والے منگل کو ہوتے ہیں۔ ابھی ان انتخابات کو ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصہ باقی ہے لیکن انتخابی مہم کا آغاز گزشتہ برس نومبر میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات سے ہوچکا ہے، بلکہ سابق صدر ٹرمپ نے تو اس سے بھی بہت پہلے اپنے امیدوار ہونے کا اعلان کردیا تھا۔
امریکہ میں ایک درجن سے زیادہ پارٹیاں انتخابات میں حصہ لیتی ہیں جن میں لبریٹیرین پارٹی، سوشلسٹ ورکرز پارٹی، کمیونسٹ پارٹی، گرین پارٹی، فلیٹ ارتھ پارٹی وغیرہ شامل ہیں، لیکن یہاں عملاً دو پارٹی نظام قائم ہے اور اِس بار بھی مقابلہ ڈیموکریٹک پارٹی اور ریپبلکن پارٹی کے درمیان رہے گا۔
امریکی صدر کی مدت چار سال ہے، جبکہ ایوانِ نمائندگان (قومی اسمبلی) کے ارکان 2 برس اور سینیٹر 6 سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔ 5 نومبر2024ء کو صدر و نائب صدر کے ساتھ ایوانِ نمائندگان کی جملہ 435 نشستوں کے لیے بھی ووٹ ڈالے جائیں گے۔ اسی روز سینیٹ کی 33 نشستوں پر اور 11 ریاستوں میں گورنروں کا معرکہ بھی سجے گا۔ دو امریکی کالونیوں سمووا (Samoa)اور پورتوریگو کے گورنروں کا چنائو بھی اسی روز ہوگا۔
آنے والے انتخابات 2020ء کی مردم شماری کے بعد ہورہے ہیں جس کی وجہ سے 13 ریاستوں میں ایوانِ نمائندگان کی کُل نشستوں میں فرق واقع ہوا ہے۔ کولوریڈو، فلوریڈا، مونٹانا، شمالی کیرولینا اور اوریگن ریاستوں کی ایک ایک نشست بڑھ گئی ہے، جبکہ ٹیکساس میں دو نشستوں کا اضافہ ہوا۔ دوسری جانب کیلی فورنیا، الی نوائے، مشی گن، نیویارک، اوہایو، پنسلوانیا اور مغربی ورجینیا کی ایک ایک نشست کم ہوگئی۔ ٹیکساس، مغربی ورجینیا اور فلوریڈا ریپبلکن پارٹی کے قلعے ہیں۔ اس کے مقابلے میں نیویارک، کیلی فورنیا اور الی نوائے ڈیموکریٹک پارٹی کے گڑھ۔
اس وقت 435 رکنی ایوانِ نمائندگان میں ریپبلکن پارٹی کے ارکان کی تعداد 222 ہے جبکہ 213 نشستوں پر ڈیموکریٹ ارکان براجمان ہیں۔ سینیٹ میں 48 ریپبلکن کے مقابلے میں ڈیموکریٹس کی تعداد 49 ہے۔ تین آزاد ارکان میں سے سینیٹر برنی سینڈرز اور سینیٹر اینگس کنگ (Angus King)نے خود کو ڈیموکریٹک پارٹی سے وابستہ کررکھا ہے۔ سینیٹر کرسٹن سنیما صاحبہ 2018ء میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئی تھیں لیکن انھوں نے 2020ء میں اپنی جماعت کو خیرباد کہہ کر آزاد حیثیت اختیار کرلی، ان کا نظریاتی جھکائو ریپبلکن پارٹی کی طرف ہے۔ گویا عملی طور پر اس وقت 100 رکنی سینیٹ میں ڈیموکریٹس کی تعداد 51 ہے۔
اگلے برس سینیٹ کی جن 33 نشستوں پر انتخابات ہوں گے، ان میں سے 20 نشستیں ڈیموکریٹک پارٹی اور ان کے 2 آزاد اتحادیوں کی مدت پوری ہونے پر خالی ہورہی ہیں۔ دوسری طرف ریپبلکن پارٹی اور ان کی ایک آزاد اتحادی سمیت 11 سینیٹروں کی مدت مکمل ہورہی ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ کے مقابلوں میں ریپبلکن کا پلڑا بھاری ہے۔
یہاں پارٹی نامزدگی کا پروانہ (ٹکٹ) نہ تو زمان پارک، رائے ونڈ یا بلاول ہائوس سے عطا ہوتا ہے اور نہ ہی پارٹیوں کے پارلیمانی بورڈ اپنے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرتے ہیں۔ بلکہ نامزدگی کے لیے پارٹیوں کے پرائمری انتخابات منعقد ہوتے ہیں جن کا اہتمام ریاستوں کی ذمہ داری ہے۔ سیاسی جماعت کی رکنیت کے لیے بھی مرکزی مجلسِ عاملہ یا قیادت کی منظوری کی کوئی ضرورت نہیں اور ووٹ رجسٹر کراتے وقت جماعتی وابستگی ظاہر کرنا کافی ہے۔ بعض ریاستوں میں تو یہ تکلف بھی غیر ضروری ہے۔ پرائمری کے روز پولنگ اسٹیشن جاکر آپ کسی بھی پارٹی کا بیلٹ حاصل کرسکتے ہیں۔
امریکی انتخاب کے اس تعارف کے بعد اب آتے ہیں پرائمری انتخابات کی طرف، کہ یہ اس معرکے کا سب سے اعصاب شکن مرحلہ ہے۔ دونوں پارٹیاں اپنے امیدوار کا انتخاب مرکزی اجتماع میں کرتی ہیں اور ریاستی یا پرائمری انتخابات میں سالانہ اجتماع کے لیے مندوبین کا چنائو ہوتا ہے۔ ہر ریاست سے مندوبین کی نشستیں آبادی کے مطابق ہیں، یعنی سالانہ اجتماع میں چھوٹی ریاستوں سے کم اور بڑی ریاستوں سے زیادہ مندوبین شریک ہوتے ہیں۔ پرائمری انتخابات میں امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹوں کے تناسب سے اُن کے مندوبین کو منتخب قرار دے دیا جاتا ہے۔ اِس بار ریپبلکن پارٹی کا انتخابی اجتماع 15 تا 18 جولائی ریاست وسکونسن کے شہر ملواکی میں منعقد ہوگا جہاں 2467 مندوبین اپنے صدارتی امیدوار کا چنائو کریں گے۔ ضابطے کے تحت جیتنے کے لیے کم ازکم پچاس فیصد یا 1234 مندوبین کی حمایت ضروری ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے کنونشن میں منتخب مندوبین کے علاوہ پارٹی کے ریاستی سربراہان، پارلیمان کے منتخب نمائندے، سابق صدور و نائب صدور بر بنائے عہدہ مندوب شمار ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کو مندوبین اشرافیہ (سوپر ڈیلیگیٹس )کہا جاتا ہے۔ یہ اشرافیہ ٹکٹ کے لیے امیدوار کے چنائو میں اپنی مرضی سے ووٹ ڈالتے ہیں۔ اس سال ڈیموکریٹک پارٹی کے مندوبین کی تعداد 744اشرافیہ کے ساتھ 4514 ہے۔ رائے شماری کے دوران پہلے مرحلے میں عام مندوبین کی رائے لی جائے گی، اور اگر کسی بھی امیدوار کو کم از کم 1886 کی حمایت حاصل نہ ہوسکی تو دوسرے مرحلے میں اشرافیہ بھی ووٹ ڈالیں گے، اور اس مرحلے میں کامیابی کے لیے کم از کم 2557 ووٹ درکار ہیں۔ امیدوار کے چنائو کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کی بیٹھک اِس بار 12 سے 19 اگست تک شکاگو میں سجے گی۔ پرائمری انتخابات کا مرحلہ اگلے برس فروری سے شروع ہوکر جولائی تک جاری رہے گا۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ کے لیے صدر بائیڈن، آنجہانی سینیٹر رابرٹ کینیڈی کے صاحبزادے اور سابق صدر جان ایف کینیڈی کے بھتیجے رابرٹ کینیڈی جونیئر اور ممتاز دانشور محترمہ میرین ولیمسن نے خود کو بطور امیدوار پیش کیا ہے۔
ریپبلکن پارٹی کی جانب سے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ، ریڈیو میزبان لیری ایلڈر، جنوبی کیرولینا کی سابق گورنر نمرتا سنگھ رندھاوا المعروف نکی ہیلی، ریاست آرکنساس کے سابق گورنر عسیٰ ہچنسن(Asa Hutchinson)، ممتاز کاروباری شخصیت وِوِک راماسوامی اپنی خواہش کا سرکاری اعلان کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ فلوریڈا کے گورنر ران ڈی سینٹس، سابق نائب صدر مائیک پینس اور جنوبی کیرولینا کے سینیٹر ٹم اسکاٹ بھی میدان میں اترنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔
ابھی انتخابات میں خاصا وقت باقی ہے لیکن رائے عامہ کے جائزوں سے ایسا لگ رہا ہے کہ صدر بائیڈن کو پارٹی کے ٹکٹ کے لیے کوئی خاص مشکل نہیں ہوگی، دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ ریپبلکن پارٹی میں بہت مقبول ہیں۔
اگر ایک بار پھرجناب بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ آمنے سامنے آئے تو امریکہ کی سیاسی روایات صدر بائیڈن کے حق میں ہیں، اب تک پہلی مدت کے بعد شکست کھا جانے والے 6 سابق صدور نے انتخابات میں حصہ لیا ہے جن میں سے صرف صدر گروور کلیولینڈ (Grover Cleveland)کو کامیابی نصیب ہوئی۔ صدر کلیولینڈ 1884ء میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ پر صدر منتخب ہوئے اور چار سال بعد 1888ء میں انھیں صدر بن یامین ہیریسن (Benjamin Harrison)نے ہرا دیا۔ 1892ء کے انتخابات میں وہ ایک بار پھر سامنے آئے اور صدر بن یامین ہیریسن کو ہراکر انھوں نے اپنی شکست کا بدلہ لے لیا۔
اگر 2024ء کا میدان صدربائیڈن اور سابق صدر ٹرمپ کے درمیان سجا تو یہ 1956ء کے بعد پہلا واقعہ ہوگا کہ دو امیدوار پے درپے دو بار ایک دوسرے کے سامنے آئیں گے۔ 1952ء میں ریپبلکن ڈویٹ آئزن ہاور(Dwight Eisenhower) نے ایڈلائی اسٹیونسن (Adlai Stevenson)کو شکست دی، چار سال بعد 1956ء میں یہ دونوں حضرات ایک بار پھر مدمقابل ہوئے اور جناب اسٹیونسن دوسری بار بھی ہار گئے۔
صدر بائیڈن امریکی تاریخ کے معمر ترین صدر ہیں جن کی عمر 80 برس ہے، اور ان کے ممکنہ حریف ڈونلڈ ٹرمپ 76 سال کے ہیں۔ گزشتہ ہفتے فاکس ٹیلی ویژن پر گفتگو کرتے ہوئے ریپبلکن پارٹی کے ٹکٹ کی خواہش مند محترمہ نکی ہیلی نے کہا کہ ”جو لوگ 2024ء میں صدر بائیڈن کو ووٹ دیں گے وہ حقیقت میں کملا دیوی ہیرس کو صدر بنارہے ہوں گے“۔ یعنی صدر بائیڈن دوبارہ صدر منتخب ہوگئے تو وہ مدت مکمل کرنے سے پہلے فوت ہوجائیں گے اور امریکی آئین کے تحت نائب صدر کملا دیوی ہیرس صدارت سنبھال لیں گی۔ ہمارے خیال میں نکی صاحبہ کا یہ تبصرہ انتہائی غیر شائستہ ہے۔ (سلسلہ صفحہ ۷)
انتخابات ڈیڑھ سال دور ہیں، اور پَر تولنے والے کئی امیدوار ابھی میدان میں نہیں اُترے، چنانچہ آج کے لیے یہ ابتدائی گفتگو کافی ہے۔ امیدواروں کی تقریبِ رونمائی یا منہ دکھائی مکمل ہوجانے کے بعد منشور اور انتخابی حکمتِ عملی پر تجزیہ پیش کیا جائے گا، اِن شااللہ۔ فی الحال تو عشاقانِ لیلےٰ اقتدار اور کلیدِ ایوانِ مرمریں کے خواہش مند اپنی مہم کے لیے عطیات جمع کرنے میں مصروف ہیں۔ گزشتہ صدارتی انتخابات میں صدر ٹرمپ کو ایک ارب 96 کروڑ ڈالر کے عطیات ملے، جبکہ جناب جوبائیڈن کے مداحوں نے ایک ارب 69 کروڑ ڈالر انتخابی چندہ دیا تھا۔
ابھی تک صدر بائیڈن کے انتخابی بٹوے میں کوئی بڑا عطیہ نہیں آیا۔ پارٹی ٹکٹ کے لیے ان کی حریف محترمہ میرین ولیمسن نے آٹھ لاکھ ڈالر جمع کیے ہیں۔ اس اعتبار سے ڈونلڈ ٹرمپ ایک کروڑ 44 لاکھ ڈالر کے ساتھ پہلے نمبر پر ہیں۔ اس میدان میں ان کے قریب ترین حریف ویوک راماسوامی ہیں، جنھوں نے ایک کروڑ 14 لاکھ ڈالر جمع کرلیے۔ نکی ہیلی صاحبہ نے اب تک 51 لاکھ ڈالر انتخابی چندہ وصول کیا ہے۔