سیاستمضامین

بی جے پی مکت بھارت :کے سی آر کا بحیثیت متحدہ اپوزیشن نعرہ

سلیم احمد

دو سال کے عرصہ میں ایک ترقی یافتہ ہندوستان کو دنیا کے سامنے پیش کیا جاسکتا ہے۔ یہ تھے چندرشیکھر راؤ کے الفاظ جنہوں نے اپنے دورہ بہار کے موقع پر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کے دوران کہے۔
کے سی آر نے اپنے دورہ بہار کے موقع پر بتایا کہ بی جے پی سے ملک کو خطرہ ہے۔ اس خطرہ سے ملک کو بچانے کی تی المقدور کوشش کی جائے گی۔
اپوزیشن جماعتوں پر انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ(ای۔ڈی) سی بی آئی کے علاوہ انکم ٹیکس عہدیداروں کی جانب سے حملوں کو تقریباً فرضی حملے قراردیتے ہوئے مرکزی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اندرون و بیرون ملک حکومت ہند کی شبیہ گراوٹ کا شکار ہے۔ مذکورہ تینوں ایجنسیوں کے عہدیدار شدید دباؤ کی حالت میں ہیں اور حکومت کے رویہ کی وجہ سے ایجنسیوں کی وقعت گھٹ کر رہ گئی ہے ۔ سی بی آئی۔ ای ڈی اور آئی ٹی کے دھاؤں کے خلاف کہا کہ لا اینڈ آرڈر کا شعبہ ریاستی حکومت کے تحت کام کرتا ہے۔ کسی مرکزی ایجنسی کو ریاست میں اس طرح کے دھاؤں کو ریاستوں کے معاملات میں مداخلت بیجا قراردیتے ہوئے اس کی انہوں نے مخالفت کی۔
چندرشیکھر راؤ نے بی جے پی مکت بھارت کا نعرہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ پارٹی ملک میں فرقہ وارانہ منافرت کو پھیلانے میں نمایاں طور پر آگے بڑھ رہی ہے ۔ بی جے پی کی پالیسی کی وجہ سے بیرونی ممالک میں ہمارے سفیروں کو معافی مانگنا پڑرہی ہے۔ ان کا ا شارہ نپور شرما کی جانب سے پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کے بعد سعودی عرب‘قطر‘ یمن ایران کے علاوہ کئی ایک سفیروں کو طلب کرتے ہوئے ان ملکوں کی جانب سے احتجاج درج کروایا گیا تھا۔
اس کے علاوہ انہوں نے بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈّا کے اس بیان کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا کہ انہوں نے ساری قومی و علاقائی جماعتوں کے خاتمہ کی بات کی تھی اور بتایا تھا کہ ملک میں سوائے بی جے پی کے کوئی سیاسی جماعت باقی نہیں رہے گی۔ بی جے پی جیسی قومی جماعت کی جانب سے دنگے فساد کروائے جارہے ہیں۔ کمزوروں کو ڈرایا دھمکایا جارہا ہے کیا یہی پارٹی کی پالیسی ہے اور کیا یہی ملک کے عوام کے ساتھ وفاداری ہے۔ بی جے پی پر تنقید کا سلسلہ جارتی رکھتے ہوئے کے سی آر نے کہا کہ ملک میں سب سے زیادہ چناؤ پر رقم بی جے پی کی جانب سے خرچ کی جاتی ہے ۔ اس حقیقت سے تمام ذرائع ابلاغ کے افراد واقف ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں سب سے زیادہ جمع پونجی بی جے پی ہی کے پاس ہے اور سب سے زیادہ گھٹالوں میں بی جے پی ملوث ہے۔ سری لنکا میں کنٹراکٹ کے حصول کی خاطر نریندر مودی بذات خود ملوث رہے اور سری لنکا کی عوام کی جانب سے احتجاج کے دوران ان کی اس حرکت کی وجہ سے ملک کوشرمندگی اٹھانی پڑی۔
اس کے علاوہ نریندر مودی بحیثیت وزیراعظم امریکہ میں انتخابات کے موقع پر دورہ کرتے ہوئے ٹرمپ کی تائید کی اور یہ نعرہ بھی لگایا کہ ’ اب کی بار ٹرمپ سرکار‘ مودی کی جانب سے یہ اقدام ڈپلومیسی کے عین خلاف تھا کہ انہوں نے ٹرمپ کی ایسے کھل کر تائید کی جیسا کہ احمد آباد میں انتخابات منعقد ہورہے ہوں اور آخر کار ان کی تائید کے بعد ٹرمپ ہار گئے اور نریندرمودی کو منہ کی کھانی پڑی اور دوسرے ملک کے ن ام کو بگاڑنے یں انہوں نے اہم کارنامہ انجام دیا۔
کے سی آر نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ آپ لوگ جمہوریت کا چوتھا ستون کہلاتے ہیں آپ تمام لوگوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آپ ملک میں رونما ہونے والے واقعات کو سچائی اور ایمانداری کے ساتھ عوام تک پہنچائیں اور مودی حکومت کی غلط پالیسیوں کو عوام کے سامنے رکھیں۔
کے سی آر نے سوال کیا کہ آخر نریندر مودی نے ملک کو کیا دیا ہے۔ بی جے پی حکومت نے ملک کو دیا تو کچھ نہیں ہے لیکن ملک کی املاک کو فروخت کرنا غلط قراردیتے ہوئے کہا کہ بی جے پی حکومت کا صرف ایک ہی نعرہ ہے اور وہ ہے ’’بیچو انڈیا‘‘۔
ملک میں ریلوے ‘ ایرفورس ‘ پورٹس کے علاوہ کئی ایک عوامی شعبوں کو فروخت کیا جارہا ہے۔ جب کہ ملک کی ترقی میں بی جے پی کوئی حصہ نہیں ہے لیکن وہ ملک کے تمام اثاثہ جات کو فروخت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔
مودی حکومت کی جانب سے کسان مخالف بل پاس کئے گئے۔ اس کے بعد ملک میں طویل احتجاج کیا گیا اور اس دو سالہ طویل المدتی احتجاج کے دوران سات سو کے قریب کسان طبقہ کے افراد کی جانیں احتجاج کے دوران چلی گئیں تب مودی حکومت کو اس بل کو واپس لینا پڑا تھا لیکن پھر کسان طبقہ سے کئے گئے وعدوں کے خلاف حکومت کسانوں کو پریشان کررہی ہے۔ کسانوں کو بجلی اور پانی کی قلت کا سامنا ہے اس پر حکومت بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہوئے کسانوں کو مزید پریشان کررہی ہے۔ مرکزی حکومت کی بجلی پالیسی کو کے سی آر نے انہتائی بے کار بجلی پالیسی قراردیتے ہوئے کہا کہ ریاست تلنگانہ میں تمام شعبہ جات خاص طور پر زرعی اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لئے مفت بجلی کی سربراہی انجام دی جاتی ہے۔ چوبیس گھنٹے بجلی کی سربراہی کے سبب ریاست تلنگانہ میں کسان طبقہ خوشحال ہے ۔ اس کے علاوہ حکومت تلنگانہ کی جانب سے کسانوں کو بیمہ کے علاوہ کسانوں کو فی ایکڑ آٹھ ہزار روپے مالی امداد فراہم کی جاتی ہے۔
چندرشیکھر راؤ انتہائی پرسکون انداز میں اور ایک سلجھے ہوئے ذہن کے ساتھ مرکزی حکومت کی خامیوں کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ تلنگانہ حکومت کی تعریف بھی کرتے جارہے تھے اور ذرائع ابلاغ پر یہ تاثر چھوڑنے کی کوشش کررہے تھے کہ مرکزی حکومت کی پالیسیاں بری طرح ناکام ہیں جبکہ ایک لحاظ سے تلنگانہ حکومت کی پالیسیوں کا تقابل مرکزی حکومت سے کرتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کررہے تھے کہ ارادے مضبوط ہوں اور عزم و ہمت اور حوصلہ اگر ہو تو کچھ بھی کیا جاسکتا ہے جیسا کہ انہوں نے بتایا کہ ہندوستان میں پائے جانے والے ندی ‘ تالابوں کے پانی کو زرعی اغراض و مقاصد کی تکمیل کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے برخلاف ملک میں زرعی مقصد کے لئے بائیس فیصد پانی ہی استعمال میں لایا جاتا ہے مابقی سمندر میں بہادیا جاتا ہے۔
ملک کی ترقی کا تقابل چین سے کرتے ہوئے بتایا کہ آج چین کی مجموعی آمدنی سولہ ٹریلین ڈالرز ہے جبکہ ہندوستان کی مجموعی آمدنی تین ٹریلین ڈالر ہے۔ آج ہمیں اپنے ملک کے اندر مصنوعات کو ترقی دینے کے بجائے ہر چیز چین سے درآمد کرنا پڑرہا ہے ۔ آخر ہندوستان کے اندر کس چیز کی پیداوار ہے۔ ان کا اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ زراعت کے علاوہ ہندوستان میں کوئی بھی بہتر چیز پیدا نہیں کی جاتی۔ ہم ہر چیز ملک چین سے برآمد کرتے ہیں یہاں تک کہ اب ہندوستان میں کھادی سے بنائے جانے والے ترنگے کو بھی پالیسٹر ترنگا ملک میں برآمد کیا گیا ۔ معمولی سے معمولی اشیاء کو بھی آج چین سے خریدا جارہا ہے۔ اس کی چندرشیکھر راؤ نے سختی کے ساتھ مذمت کرتے ہوئے مودی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔
قبل ازیں چندرشیکھر راؤ نے کارگل جنگ میں شہید ہونے والے ریاست بہار کے فوجیوں کے افرادِ خاندان کو فی کس دس لاکھ روپے اور حالیہ عرصہ میں تلنگانہ میں حیدرآباد میں ایک گودام میں آتشزدگی کی وجہ سے فوت ہونے والے ب ارہ افراد کے لواحقین کو فی کس پانچ لاکھ روپیوں کی امداد کی ۔
بعض گوشوں کی جانب سے ریاست بہار میں تلنگانہ کے عوام کے ٹیکس سے حاصل شدہ رقم کی تقسیم کی مخالفت بھی کی گئی اور بعض کی جانب سے شہیدوں کے افراد خاندان میں معاوضہ کی تقسیم کی ستائش بھی کی گئی لیکن یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ریاست تلنگانہ میں چیف سکریٹری سومیش کمار کے علاوہ تقریباً بارہ اعلیٰ سطحی عہدیداروں کا تعلق ریاست بہار سے ہے ۔ بہار سے کے سی آر کو ایک اور خصوصی لگاؤ بھی بتایا جارہا ہے کہ ان کے آباء و اجداد کا تعلق ریاست بہار سے ہے۔ اس بات کی تصدیق ایک انٹرویو کے دوران کے سی آر نے خود کی تھی اور موجودہ کانگریس کے صدر ریونت ریڈی کی جانب سے یہاں تک کہا گیا کہ چندرشیکھر راؤ خود ریاست بہار سے تعلق رکھتے ہیں اور خود کو تلنگانہ کا شہری بتاکر ڈھونگ رچارہے ہیں۔
میڈیا کے نمائندوں کے اجلاس کے اختتام کے بعد سوالات زیادہ تر اس بات پر پوچھے گئے کہ آیا نتیش کمار کو اگلے وزیراعظم کے امیدوار کے بطور اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کے ذریعہ پیش کیا جائے گا؟ چندرشیکھر راؤ سے بارہا اس سوال کے باوجود انہوں نے ابھی کچھ بھی بتانے سے قاصر ہونے کا ادعا پیش کیا اور بتایا کہ اگلے کچھ دنوں مںے اس کا جواب عوام کو مل جائے گا۔ نریندر مودی کے مقابل وزیراعظم کے عہدہ کے حامل امیدوار آیا راہول گاندھی ہوں گے؟ اس سوال پر بھی کچھ بتانے سے گریز کیا ۔
کے سی آر کے رویہ سے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ خود بھی وزیراعظم کے امیدوار کی دوڑ میں شامل ہیں تو کیوں کر کسی دوسرے شخص کا نام تجویز کریں گے۔ چندرشیکھر راؤ کے محتاط اور سلجھے ہوئے انداز اور اردو اورہندی زبان کے الفاظ کے استعمال سے ایسا تاثر پیش کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ وہ خود کو ایک اہل وزیراعظم کے امیدوار کے بطور پیش کررہے ہوں۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰