مولانا سید احمد ومیض ندوی
جس طرح خونخوار درندوں کو خون کا چسکہ لگتا ہے اور وہ اپنی خونی پیاس بجھانے کے لیے درندگی کی ساری حدیں پار کرتے ہیں اسی طرح <ہمارے ملک کی فرقہ پرست طاقتوں کو اقتدار کا چسکہ لگا ہے اور وہ حصولِ اقتدار کے لیے ہر طرح کی حدوں کو پار کرنے میں دن رات جٹی ہوئی ہیں۔ ظلم و زیاتی ماورائے عدالت قتل مسلمانوں کے خلاف ناپاک پروپیگنڈہ مہم‘ مآب لنچنگ‘ ہیٹ اسپیچ اور ہندو مسلم جذبات کو بھڑکانے والی فلمیں۔ یہ وہ حربے ہیں جنہیں برسراقتدار فرقہ پرست حکمران طاقتیں بڑی چابکدستی سے استعمال کررہی ہیں۔ حکمراں ٹولے کے پاس عوام سے ووٹ مانگنے کے لیے کوئی قابل ذکر کارنامہ نہیں ہے سوائے ہندو مسلم کرنے کے انہوں نے کچھ کیا ہی نہیں ایسے میں لامحالہ فرقہ وارانہ جذبات بھڑکاکر اکثر یتی طبقہ کو متحد کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
آر ایس ایس اور سنگھ پریوار عرصہ سے مسلم مخالف جذبات کو ہوا دینے کے لیے میڈیا اور بالخصوص الیکٹرانک میڈیا اور فلموں کا استعمال کرتا آیا ہے۔ اس وقت مین اسٹریم میڈیا کہلانے والے سب چینلز حکومت کی چاٹوکار اور گودی میڈیا بن چکے ہیں۔ جمہوریت میں حکمران طبقہ کو سوالات کے کٹہھرے میں کھڑا کیا جاتا ہے لیکن فرقہ پرستوں کے ہاتھوں کھلونا بنا گودی میڈیا اپوزیشن ہی کو مورد الزام ٹھراتا ہے سارے چینلس فرقہ پرستی کو ہوا دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ حکومتی ناکامی سی متعلق بڑی سے بڑی خبر نظر انداز کردی جاتی ہے لیکن مسلم مخالف پروپیگنڈہ کے حوالہ سے رائی کو پہاڑ بناکر پیش کیا جاتا ہے۔
الیکٹرانک میڈیا کے علاوہ سنگھ پریوار اپنے مذموم مقاصد کے لیے فلم انڈسٹری کا بھی بھر پور استعمال کررہا ہے۔ حقائق پر مبنی فلمیں جن میں فرقہ پرستوں کی درندگی اور مسلم مخالف فسادات کی ہولناک داستان پیش کی گئی ہو۔ جب ریلیزی کی جاتی ہیں تو یہی سنگھ پریوار آسمان سر پر اٹھالیتا ہے اور اس کی سخت مخالفت کی جاتی ہیگزشتہ دنوں بی بی سی کی جانب سے گجرات فسادات کے حقائق پر مبنی دستاویزی فلم منظر عام پر آئی تو فرقہ پرستوں کی جانب سے جم کر مخالفت کی گئی اور اس پر طرح طرح کی پھبتیاں کسی گئیں، عام آدمی سے لیکر وزیر اعظم تک اس کی مخالفت پر اتر آئے۔ لیکن گجرات فسادات پر مبنی فلم کی مخالفت کرنے والا یہی فرقہ پرست ٹولہ کشمیر فائلز جیسے مسلم مخالف اور یکطرفہ حقائق پر مشتمل فلم کی خوب پذیرائی کرتا نظر آیا۔ کشمیر فائلز جو محض مسلمانوں کے خلاف اکثریتی فرقے کے جذبات کو بھڑکانے کے لیے یکطرفہ حقائق کو پیش کرتی ہے واحد فلم ہے جسے ملک کے وزیر اعظم نے دیکھنے کی اپیل کی۔ مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ یا یوپی کے سی ایم یوگی جو اکثر فلموں یا گانوں سے جذبات کو ٹھیس پہونچانے کی شکایت کرتے ہیں سبھوں نے کشمیر فائلز آنے پر خوشی کا مظاہرہ کیا حتی کہ کئی ریاستوں میں اس فلم کو ٹیکسوں سے استثنی دیا گیا۔ یہ وہی فلم تھی جسے انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کی چیف جیوری نداو لپار نے پروپیگنڈا اور فحش قرار دیا اور بی بی سی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ایک پروپیگنڈا فلم ہمیشہ بری نہیں ہوتی لیکن کشمیر فائلز ایک بری پرپیگنڈا فلم ہے کیونکہ یہ معاشرے میں پابند عناصر کو مکمل طور پر نظر انداز کرتی ہے۔ فلم کمزروں پر حملہ آور ہوتی ہے۔ پروفیسر ویرا بھاسکر کا کہنا ہے کہ کشمیر فائلز نے نہ صرف فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ کیا ہے بلکہ کہانی کو یکطرفہ بھی دکھایا ہے میں جانتی ہوں کہ کشمیری پنڈتوں کا تجربہ کیا تھا لیکن مسلمانوں کے ساتھ بھی زیادتی تھی۔ ویرا بھاسکر کے مطابق کشمیر فائلز کے ٹکٹ مفت تقسیم کیے گئے تھے اور فرقہ پرست قائدین نے بھرپور مہم چلائی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلم کو حکومت کی حمایت حاصل ہے میں نے تاریخ میں نہیں دیکھا کہ ملک کا لیڈر ایسی فلم کی حمایت کرتا ہو۔
ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکانے میں شاید کشمیر فائلز نے کچھ کسر چھوڑی تھی اس لیے اس کی تلافی کے لیے اب ایک نئی فلم دی کیرالہ اسٹوری ریلیز کی جارہی ہے۔ حالیہ دنوں میں صرف اس کا ٹیزر جاری ہوا۔ یہ فلم 5مئی کو ریلیز ہوگئی ہے۔ ممکن ہے کہ اس تحریر کے قارئین تک پہونچنے سے قبل فلم ریلیز ہوجائے۔ اس فلم کی مرکزی کردار ادا شرما نامی فلمی اداکارہ ہیں جو ایک ہندو خاندان سے تعلق رکھنے والی شالنی اننی کرشنن کا کردار ادا کررہی ہیں جن کے بعد میں مسلمان بن کر فاطمہ بننے کا سفر دکھایا گیا ہے۔ فلم ٹریلر میں دکھایا گیا کہ ادا شرما جو شالنی اننی کرشنن ہے وہ ایک نرس بن کر لوگوں کی خدمت کرنا چاہتی تھی لیکن وہ ایک آئی ایس آئی کی دہشت گرد بن گئی ہے جو اس وقت افغانستان کی جیل میں بند ہے۔ فلم میں دعوی کیا گیا ہے کہ ریاست کیرالہ کی 32ہزار غیر مسلم لڑکیوں کا اغوا کرکے ان کا مذہب تبدیل کیا گیا،فلم میں دعوی کیا گیا ہے اتنی بڑی تعداد میں غیر مسلم لڑکیوں نے اسلام قبول کیا اور عسکریت پسند کا لعدم تنظیم دولتِ اسلامیہ میں شمولیت اختیار کی۔ فرقہ پرست جماعتیں اس قسم کی فلم کے ذریعہ ملک میں فرقہ وارانہ جذبات سلگاکر ایک بار پھر اکثریتی طبقہ کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کرکے تختِ اقتدار تک پہونچنا چاہتی ہیں۔ بغیر کسی ثبوت کے فلم سازوں کی جانب سے دعوی کیا گیا ہے کہ یہ فلم زندگی کے سچے واقعات پر مبنی ہے جن 32ہزار غیر مسلم لڑکیوں نے مذہب تبدیل کیا ہے وہ سب شام اور یمن کے صحراو?ں میں دفن ہوئیں۔
اس فلم کی ہدایت کاری سدیپستوسین کی اور پروڈیوسر وپل امرتل شاہ ہیں فلم کے ٹیزر میں اداکارہ ادا شرما کو نقاب پہنے دکھایا گیا ہے جس کے عقب میں خاردار تار ہیں اور برف پوش پہاڑ ہیں۔ اداکارہ اپنا تعارف شالنی کرشنن کے طور پر کرواتی ہیں اور وہ نرس بن کر انسانیت کی خدمت کرنا چاہتی تھیں لیکن اس نے اسلام قبول کرلیا اور اب افغانستان جیل میں قید آئی ایس آئی کی دہشت گرد ہیں اس کردار کا کہنا ہے کہ بالآخر وہ افغانستان کی جیل میں پہونچ گئیں انہوں نے مزید کہا کہ کیرالہ میں کھلے عام مذہب کی تبدیلی کا ایک خطرناک کھیل کھیلا جارہا ہے۔
اس فلم میں 32ہزار غیر مسلم خواتین کے تبدیلی مذہب کرنے کی جوبات کہی گئی ہے وہ سراسر جھوٹ اور پروپیگنڈہ ہے۔ یہ در اصل ملک میں اکثریتی طبقہ کو مسلمانوں کے خلاف مشتعل کرنے کی سازش ہے۔ جہاں تک حقائق کا تعلق ہے تو داعش کے دور آغاز میں کیرالہ کی چار خواتین اپنے شوہروں کے ساتھ خراسان صوبے (داعش کے)میں دولتِ اسلامیہ میں شامل ہونے کے لیے گئی تھیں لیکن اب وہ افغانستان کی ایک جیل میں قید ہیں۔ اطلاعات کے مطابق یہ خواتین 2016-18میں افغانستان کے شہر ننگر ہار گئی تھیں تاہم ایسی کوئی سرکاری یا مصدقہ رپورٹ سامنے نہیں آئی جس سے یہ ظاہر ہو کہ انڈین ریاست سے تعلق رکھنے والی 32ہزار خواتین نے اسلام قبول کیا ہو اور دہشت گرد تنظیم میں شمولیت اختیار کی ہو۔
جوں ہی اس فلم کا ٹریلر جاری ہوا ملک کیمختلف حلقوں کی جانب سے اس پر کڑی تنقید کی جارہی ہے۔ ملک کی فرقہ پرست طاقتیں اگر چہ اسے کیرالہ کی حقیقت بتارہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اس پر کھل کر اب تک بات نہیں ہوئی لیکن دوسری جانب ملک کے سیکولر و انصاف پسند حلقے اسے پروپیگنڈہ قرار دے رہے ہیں۔ گزشتہ اتوار کو کیرالہ کے وزیر اعلی پنارئی وجین نے دی کیرالہ اسٹوری بنانے والوں کو تنقید کا نشانہ بنایا خبرر ساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق انہوں نے کہا کہ فلم ساز لو جہاد کا مسئلہ اٹھاکر سنگھ پریوار کے پروپیگنڈہ کو آگے بڑھارہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ لو جہاد ایک ایسی اصطلاح ہے جسے عدالتوں تحقیقاتی ایجنسیوں اور یہاں تک کہ وزارتِ داخلہ نے بھی مسترد کردیا ہے۔ وزیر اعلی وجین نے کہا کہ فلم ٹریلر سے پہلی نظر میں ایسا لگتا ہے کہ اس کا مقصد ریاست کے خلاف پروپیگنڈہ اور فرقہ وارانہ تقسیم کرنا ہے لوجہاد کا مسئلہ ایسا ہے کہ اسے تحقیقاتی ایجنسیوں عدالتوں اور یہاں تک کہ وزارتِ داخلہ نے بھی مسترد کردیا ہے یہ مسئلہ اب کیرالہ کے بارے میں اٹھایا جارہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس کا مقصد ریاست کو دنیا کے سامنے بدنام کرنا ہے۔ ایک بیان میں وزیر اعلی کیرالہ نے کہا کہ ایسی پروپیگنڈہ فلم اور اس میں مسلمانوں کو جس طرح دکھایا گیا ہے اسے ریاست میں سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی سنگھ پریوار کی کوششوں سے جوڑا جانا چاہیے۔ انہوں نے سنگھ پریوار پر ریاست کی مذہبی ہم آہنگی کو بگاڑنے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا۔ اتنا ہی نہیں کیرالہ قانون ساز اسمبلی میں اپویشن لیڈرو وی ڈی ساتھیسین نے کہا کہ فلم دی کیرالہ اسٹوری کو نمائش کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ یہ فلم سنگھ پریوار کے سماج میں اقلیتوں کو الگ تھلگ کرنے کے ایجنڈے سے متا?ثر ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ فلم بین الاقوامی سطح پر کیرالہ کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ سی پی آئی (ایم)کے راجیہ سبھا کے رکن اے اے رحیم نے کہا کہ جھوٹ پر مبنی فلم آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کا ایجنڈا ہے جو انتخابی فائدہ اٹھانے کے لیے بے چین ہیں۔
(سلسلہ صفحہ ۷)
اس کے بر خلاف بی جے پی اس کی بھرپور حمایت کررہی ہے۔ بی جے پی آئی ٹی سیل کے سربراہ امیت مالویہ نے اس فلم کو حقیقی زندگی کی کہانیوں پر مبنی قرار دیتے ہوئے اسے ایک چونکا دینے والی اور پریشان کن فلم کہا۔ مالویہ نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ فلم میں کیرالہ میں تیزی سے اسلامائزیشن کو دکھایا گیا ہے کہ کس طرح معصوم لڑکیوں کو شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ کا رکن بننے کے لیے پھسلایا جارہا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ کرناٹک انتخابات سے عین قبل اس فلم کو ریلیز کرکے بی جے پی انتخابی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔
دوسری جانب تامل ناڈو سے تعلق رکھنے والے صحافی اروند کشن نے مرکزی وزارت داخلہ اور ملک کے فلم سرٹیفکیشن بورڈ کے سربراہ پرسون جوشی کو خط لکھ کر فلم پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ اس وقت تک فلم کی ریلیز کی اجازت نہ دی جائے جب تک فلم ساز اپنے دعوے کے حق میں ثبوت نہ دیں۔ اروند کشن نے کیرالہ کے وزیر اعلی وجین کو بھی درخواستیں بھجوائیں جنہوں نے ریاستی پولیس کے سربراہ سے مناسب کارروائی کرنے کی ہدایت کی ہے۔ صحافی نے وزیر اعلی کو لکھے گئے ایک خط میں کہا کہ فلم دی کیرالہ اسٹوری کو غلط معلومات کے ساتھ سنیما گھروں یا او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر ریلیز کیا گیا تو سماج پر اس کے برے نتائج مرتب ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ فلم انڈیا کے اتحاد اور خود مختاری کے خلاف اور انڈیا کی تمام خفیہ اجنسیوں کی ساکھ پر داغ ہے کیرالہ بورڈ کو چاہیے سدیسپتوسین کو بلائے اور تحقیقات کرے کہ یہ فلم کس بھارتی خفیہ ایجنسی کی رپورٹ پر مبنی ہے۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ کیرالہ پولیس نے فلم ساز اور دیگر ارکان کے خلاف بے بنیاد کہانی پر کیس درج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کیرالہ کے ڈائکرٹر جنرل آف پولیس انیل کانت نے ترواننت پورم کے پولیس کمشنر سپارجن کمار کو ہدایت کی کہ وہ فلم کے عملے کے خلاف ریاست کو دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ کے طور پر پیش کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کریں۔ کیرالہ حکومت کی کمیونسٹ پارٹی کے قانون ساز جان برٹامن نے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کو ایک خط لکھا جس میں ان سے فلم سازوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔