سیاستمضامین

زیر تعمیر رہائشی فلیٹس اور شاپس کی خریدی معاہدہ سے گریز کریںاس عمل میں شدید خطرات لاحق رہیں گےجب فلیٹس مکمل طور پر تعمیر ہوجائیں اور فوری قابلِ رہائش ہوں تو خرید کا معاہدہ کیا جاسکتا ہے

٭ جو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ رجسٹری نہ ہوسکے گی۔ ٭ کامپلکس کی تعمیر میں کئی سال کا عرصہ گزرسکتا ہے۔ ٭ بلڈراور مالکِ اراضی کے درمین تنازعات ہوسکتے ہیں۔ ٭ نقصان صرف خریدار کا ہوگا۔ ٭ اڈوانس میں ادا کی گئی نصف رقم ضائع ہوسکتی ہے۔

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد

کئی شکایتیں اس طرح کی آرہی ہیں کہ لوگ زیر تعمیر اپارٹمنٹ کی خریدی کا معاہدہ کرکے تقریباً75 فیصد رقم بلڈر کو دے چکے ہیں اور ان کے ہاتھ میں صرف معاہدۂ بیع ہی ہے۔ بعض صورتوں میں اپارٹمنٹ زیر تعمیر ہیں تو کہیں کہیں ابھی بنیاد کے پلرس بھی نہیں ڈالے گئے ۔ ان میں بعض ایسی صورتیں ہیں کہ تعمیری اجازت نامہ حاصل ہی نہیں کیا گیا اور تعمیر کو باقاعدہ بنانے کے وعدے پر تعمیر شروع ہوئی۔ تعمیر کے ابتدائی مرحلے پر ہی ٹاؤن پلاننگ ڈپارٹمنٹ میں غیر مجاز تعمیر کی شکایتیں پیش کی گئیں اور ٹاؤن پلاننگ عہدیداروں نے نوٹس جاری کرتے ہوئے مزید تعمیر پر پابندی لگادی اور بعض صورتیں ایسی بھی سامنے آئیں کہ ٹاؤن پلاننگ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے 24 گھنٹوں کے اندر تعمیر کو منہدم کرنے کو کہا گیا۔ کئی ایسی صورتیں بھی سامنے آئیں کہ زیر تعمیر عمارت کو منہدم کرنے کی غرض سے شکایت کنندہ ہائیکورٹ تک پہنچ گئے اور ہائیکورٹ نے ٹاؤن پلاننگ عہدیداروں کو ہدایت کی کہ اس ضمن میں قانونی اقدام کریں ۔
آج کل صورت حال یہ ہے کہ جب بھی کسی کامپلکس میں تعمیر فلیٹ یا دوکان کی رجسٹری کے دستاویز رجسٹرار آفس میں پیش کئے جاتے ہیں توسب سے پہلے تعمیری اجازت نامہ کو پیش کرنے پر اصرار کیا جاتا ہے ‘ اجازت نامہ نہ ہونے پر دستاویز واپس کردیئے جاتے ہیں ۔ یہ صورتحال بہت ہی الجھن کا باعث بن رہی ہے۔
ایسی صورت میں صرف یہی رائے دی جاسکتی ہے کہ جہاں تعمیری اجازت حاصل نہیں کی گئی ہے اور اپارٹمنٹ فروخت کے لئے پیش کئے جارہے ہیں تو سب سے پہلے تعمیری اجازت نامہ پیش کرنے کو کہا جاسکتا ہے اور اگر اجازت نامہ نہیں ہے یا یہ کہا جارہا ہے کہ درخواست پیش کی جاچکی ہے تو بھی بھروسہ نہ کریں اور معاہدہ بیع نہ کریں ورنہ بھاری نقصانات برداشت کرنا پڑے گا۔ اور اگر اڈاونس رقم ادا کی گئی ہے تو اس کی واپسی بہت مشکل ثابت ہوگی لہٰذا ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
ایک عجیب و غریب صورت سامنے آئی ۔ ایک صاحب جو سعودی عرب میں رہتے ہیں انہوں نے ایک نام نہاد بلڈر سے ایک انوکھا ’’ انوسٹمنٹ اگریمنٹ‘‘ کیا۔ بلڈر صاحب صاحبِ ریش ہیں اور مغربی گوداوری کے متوطن ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ وہ دوسروں کے پیسوں اور اراضی پر ڈیولپمنٹ کاکام کرتے ہیں۔ زمین کسی کی اور سرمایہ کسی اور کا سعودی عرب کے ساکن ایک صاحب نے بلڈر صاحب سے ایک سو روپیہ مالیتی اسٹامپ پیپر پر (Investment Agreement) کیا۔ انہوں نے بلڈر کے مطالبہ پر اسے 85لاکھ روپیہ نقد ادا کئے اور معاہدہ کرلیا۔ معاہدہ میں لکھا تھا کہ 90 دن بعد اس سرمایہ کاری کی رقم میں 15لاکھ روپے کا اضافہ کرکے جملہ ایک کروڑ روپیہ واپس کئے جائیں گے۔ سعودی عرب کے مقیم صاحب نے ماہانہ پانچ فیصد فائدہ کیلئے ایک بھاری رقم ادا کردی اور ضمانت کے طور پر وہی معاہدہ ان کے ہاتھ میں تھا۔ جب مدت ختم ہوئی تو انہوں نے رقم کی واپسی کا مطالبہ کیا جس پر بلڈر صاحب نے کہا کہ آپ کی رقم میرے دیگر وینچرس میں خرچ ہوگئی ہے اور اگر آپ چاہیں تو میں اپنی جائیداد کا ایک حصہ آپ کے نام پر رجسٹری کردوں گا۔ نہ رجسٹری ہونی تھی اور نہ ہوئی اور بلڈر صاحب مزے سے حیدرآباد میں ہیں۔ کسی ایڈوکیٹ صاحب نے سرمایہ کار صاحب کو رائے دی کہ آپ بلڈر صاحب کے خلاف دھوکہ دہی کا مقدمہ دائر کرسکتے ہیں۔ سرمایہ کار صاحب نے ہم سے رائے لی۔ ہماری رائے یہ تھی کہ آپ کو سود کی لالچ یا لعنت نے یہ دن دکھایا۔ آپ کی رقم واپس نہیں ہوگی۔ البتہ شکایت کرنے کے بعد 85لاکھ روپے نقد لین دین کی نوٹس آئے گی جس پر آپ کو 200 فیصد ٹیکس ادا کرنا پڑے گا ۔ ان سے دریافت کیا گیا کہ بلڈر سے سرمایہ کاری کا معاہدہ کرنے سے پہلے انہوں نے کوئی قانونی رائے حاصل کی تو ان کا جواب نفی میں تھا۔ افسوس سود خوری کی لعنت نے صاحبِ موصوف کے 85لاکھ روپیہ برباد کردیئے۔
اگر کوئی خریدار زیر تعمیر کامپلکس میں کوئی فلیٹ کی خریدی کے خواہشمند ہوں تو ان کو رائے دی جاتی ہے کہ جب تک عمارت مکمل طور پر تیار نہیں ہوجاتی معاہدہ بیع ہرگز نہ کیا جائے۔ بعض صورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ کھلی اراضی کے سامنے ایک بڑا لے آؤٹ بورڈ آویزاں کیا جاتا ہے جس پر کامپلکس کی تصویر بنی ہوئی ہوتی ہے اور (Flats For Sale) لکھا ہوا ہوتا ہے۔
آپ حضرات اس بات سے خبردار رہیں۔ ہوسکتا ہے کہ بلڈر اور اراضی کے مالک میں تنازعہ ہوسکتا ہے۔ معاملہ عدالت تک پہنچا ہوا ہوسکتا ہے۔ لہٰذا ہوشیار رہنے کی ضرورت ہوگی۔
بعض صورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ 350تا 500 مربع گز اراضی پر G+2 کا تعمیری اجازت نامہ حاصل کیا جاتا ہے اور اس کے بعد فی زائد فلور لاکھوں روپیہ رشوت ادا کرکے چھ منزلہ کامپلکس تعمیر کیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں صرف بلڈر صاحب یا مالک صاحب آپ سے کہیں گے کہ زائد فلورس کو باقاعدہ بنالیا جائے گا۔ آپ اس وعدہ پر کبھی بھی اعتبار نہ کریں۔ زائد فلورس کو باقاعدہ بنایا ہی نہیں جاسکتا کیوں کہ غیر مجاز تعمیرات کو باقاعدہ بنانے کی اسکیم کے خلاف ریاستی ہائیکورٹ نے اور سپریم کورٹ نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ لہٰذا ایسی عمارت کے اوپری فلورس پر فلیٹس نہ خریدے جائیں ورنہ زندگی بھر کا اثاثہ ضائع ہوجانے کا ا ندیشہ رہے گا۔ ایک مکان یا ایک فلیٹ کی قیمت جمع کرنے میں ایک عمر کافی نہیں ہورہی ہے۔ اگر خدانخواستہ نادانستگی میں ایسی کوئی ٹھوکر لگ جائے تو دوبارہ سنبھلنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوجائے گا۔
رہائشی مکانات کی خرید سے قبل دستاویزات کی تنقیح لازمی ہوگی
رہائشی مکانات کی بھی خریدی آسان نہیں ہوگی ۔ جائیداد کے Title میں کئی نقص ہوسکتے ہیں۔ مکان پر کسی رشتہ دار کا دعویٰ ہوسکتا ہے۔ مکان کو رہن رکھوایا جاسکتا ہے۔ مکان جس اراضی پر تعمیر ہوا ہے اس پر گورنمنٹ کا دعویٰ بھی ہوسکتا ہے۔ مکان کی تقسیم کا مقدمہ عدالت میں زیر دوران ہوسکتا ہے۔ مکان کے دستاویزات بینک میں رہن ہوسکتے ہیں۔ مکان یا دوکان سڑک کی توسیع کے زد میں آسکتا ہے۔
کھلی اراضی کے پلاٹس۔ جھگڑے کا گھر
کھلی اراضی کے پلاٹس کی خریدی میں بہت ہی مشکلات ہوں گی۔ حیدرآباد کے جنوبی علاقوں میں زیادہ تر اراضیات کی ملکیت نوٹری دستاویزات کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ بعض حضرات ایسی اراضیات کا گفٹ رجسٹریشن اپنے کسی عزیز کے نام کروادیتے ہیں اور اس بات کی طمانیت حاصل کرلیتے ہیں کہ رجسٹریشن ڈپارٹمنٹ کے ریکارڈ میں ہمارا نام توآرہا ہے۔
ایسی اراضیات پلاٹس بھی آج کل لاکھوں روپیوں میں فروخت کررہے ہیں۔ اگر آپ نے نوٹری دستاویز کی بنیاد پر کوئی اراضی کا ٹکڑا خریدا اور اس کے اطراف پتھر کی کڑیاں لگادیں تو آپ کی حیرت کی انتہا نہ رہے گی جب آپ دوبارہ اپنے پلاٹ پر پہنچیں گے تو آپ کی کڑیاں نظر نہیں آئیں گی اور آپ کی اراضی پر کسی دوسرے شخص کے نام کا بورڈ آویزاں ہوگا اور ساتھ ہی اس کا ٹیلی فون نمبر بھی ‘ جب آپ اس شخص سے رابطہ قائم کریں گے تو وہ کہے گا کہ یہ میری زمین ہے اور یہ زمین میں نے آپ سے تین سال پہلے خریدی تھی۔ دستاویزات کا تقابل کیا جائے گا تو پتہ چلے گا کہ اس کے دستاویزکی تاریخ آپ کے دستاویز سے بہت پرانی ہے۔ معاملہ پولیس اسٹیشن جائے گا۔ وہاں لینڈ گرابرس کا مقامی پولیس سے چولی دامن کا ساتھ رہتا ہے۔ پولیس افسر آپ سے کہے گا یہ سیول نوعیت کا معاملہ ہے۔ آپ سیول کورٹ سے رجوع ہوکر اپنا مقدمہ دائر کرسکتے ہیں۔ جب تک آپ اس زمین پر جوں کا توں موقف رکھیں گے یعنی غیر مجاز قابض کو بے دخل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ لیجئے ۔ ! آپ کے لاکھوں روپے برباد ہوگئے۔
جنوبی حیدرآباد میں پولیس ۔ لینڈ گرابرس (Nexus) بالکل عیاں ہے۔ اراضیات کی بلا وجہ معقول بڑھتی چڑھتی قیمتیں یہ دن دکھارہی ہیں ۔ نقصانات پر نقصانات ہورہے ہیں پھر بھی لوگوں کی زمین کی بھوک کم ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہے۔ جوع الارض ایک پرانا مرض ہے۔ پتہ نہیں کیوں انسان کو زمین کی بھوک لگی رہتی ہے جبکہ یہ واضح اور ناقابل اٹل حقیقت ہے کہ انسان ہی زمین کا نوالہ بننے والا ہے۔ کسی کی زمین کی بھوک ملکوں کی حد تک ہی نہیں اقلیموں تک ہوتی ہے اور آخرِ کار انسان دو گززمین سے زیادہ حاصل نہیں کرسکتا اور زمین کا نوالہ بن جاتا ہے۔ چنگیز خان کی مثال آپ کے سامنے ہے جس کے ایک وسیع و عریض زمین حاصل کی جو دو اقلیموں پر مشتمل تھی اور آخر کار زمین ہی کا لقمہ بنا اور اس بات کا پتہ آج تک نہ چل سکا کہ وہ دو گزچپۂ ارض کہاں ہے جس نے چنگیز خاں جیسے فاتح زماں کو نگل لیا۔
زمین کی تجارت کے رجحانات
آپ شہر حیدرآباد میں رہ کر شہر سے 80 تا 100 کلو میٹر دور نصف ایکر کا پلاٹ ایک کروڑ روپیہ میں خرید کر اپنا فارم ہاؤز بناتے ہیں اور یہ امید کرتے ہیں کہ چار پانچ سال بعد یہی پلاٹ تین چار کروڑ روپیوں میں فروخت ہوجائے گا۔ آپ کو اندازہ نہیں کہ آپ شہر سے کتنے دور ہیں ۔ کچھ ماہ یا ایک سال بعد آپ کو پتہ چل سکتا ہے کہ ایک مقامی پٹہ دار آپ کی اراضی پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کررہا ہے اور کہتا ہے کہ آپ نے جو قطعہ اراضی خریدا وہ میری اراضی کے سروے نمبر کا حصہ ہے۔ وہ آپ پر سیول عدالت میں دعویٰ کرے گا ۔ سرویئر کو بلوایا جائے گا اور رپورٹ پیش ہوگی کہ آپ کی مقبوضہ اراضی اسی سروے نمبر کا حصہ ہے ۔ آپ مقدمہ ہار جائیں گے۔
مقامی لوگوں کو آپ پر (Advantage) ہوگا کیوں کہ وہیں رہتے ہیں اور ان کے تعلقات پولیس سے لے کر محکمہ ریوینیو سے ہیں۔ مقامی ایڈوکیٹس بھی اسی کا ساتھ دیں گے۔ تو بتائیے ایسی صورت میں آپ کیا کریں گے۔
کیوں اپنا محنت و مشقت کا کمایا ہوا پیسہ ضائع کررہے ہیں۔ کوئی متبادل تجارت کا ذریعہ تلاش کیجئے۔ نادان لوگوں کی تقلید میں خود کو اور اپنے لواحقین کو نقصان میں نہ ڈالیں۔ یاد رکھیئے گر کر سنبھلنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ کبھی کبھی ساری عمر برباد ہوجاتی ہے۔
وراثت ٹیکس اور یکساں سیول کوڈ کے نفاذ سے قبل ورثاء میں جائیداد کی تقسیم ناگزیر ہورہی ہے
اب وہ چیز جو مسلمانان ہند کے لئے ناگزیر ہوچکی ہے کہ اپنی جائیدادیں اپنے اعزہ و اقرباء میں ان کے شرعی حق کے مطابق تقسیم کردیں کیوں کہ حالات جس تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں ان سے بالکل صحیح اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یونیفارم سیول کوڈ اور وراثت ٹیکس قانون کے لاگو ہونے میں اب کچھ زیادہ دیر نہیں لگے گی کیوں کہ 2019ء انتخابی وعدوں کی تکمیل ہوگی۔ مسلمانان ہند کو کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کیوں کہ آپ نے دیکھا موجودہ زعفرانی حکومتی ٹولے نے آرٹیکل 370 اور 35(A) دستورِ ہند کو کالعدم بذریعۂ قانون سازی قراردیا اور اپنی مرضی کے مطابق سپریم کورٹ سے بابری مسجد مقدمہ کا فیصلہ بھی لکھوادیا۔
اب (CAA) پر بھی عمل آوری کی تیاریاں شروع ہونے جارہی ہیں
سب سے پہلے اپنی آبائی یا زرخرید مکانات‘ اراضیات اور مکانات کی خیر کی فکر کیجئے۔ اگر وراثت ٹیکس لاگو ہوتو جائیداد کا ایک بھاری حصہ حکومت کے ہتھے چڑھ جائے گا اور مسلمانانِ ہند ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
جیسا کہ نظر آرہا ہے یونیفارم سیول کوڈ کی تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں اور 7نومبر2022ء کی تاریخ سے لاء کمیشن نے اپنا کام شروع کردیا ہے۔ اگر خدانخواستہ ایسی صورت پیدا ہوتو جائیدادیں خطرے میں پڑجائیں گے کیوں کہ گھر کے چراغ سے گھر کو آگ لگنے کے امکانات ہیں۔ داماد کی ورغلاہٹ میں آکر بیٹی اپنا حصۂ وراثت اپنے بھائی کے برابر طلب کرے گی۔ عورتوں کو ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے طلاق دینا ہو تو عدالت سے رجوع ہونا پڑے گا۔ اور اس طرح سے طلاق کا عمل نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہوجائے گا۔
اب وقت آگیا ہے کہ پہلی فرصت میں ا پنی جائیداد کو اپنے ورثاء میں ان کے شرعی حق کے مطابق تقسیم کردینا ہے ۔ ورنہ بعد میں یہ آزادی نہیں رہے گی۔ اس عمل میں رجسٹریشن میں لاکھوں روپیہ صرف کرنے کی ضرورت نہیں۔ صرف میمورنڈم آف گفٹ تیار کرواکر یہ کام سرانجام دیا جاسکتا ہے تاکہ آئندہ پچھتاوا نہ ہو۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰