سرکاری زمین پر قبضہ
سرکاری اراضی چاہے وہ تالاب کی شکل میں ہو یا پارک یا عوامی مفاد کی کسی اور شکل میں، یہ حکومت کی اور حکومت کے واسطے سے عوام کی ملکیت ہے، اس کی پلاٹنگ کرنا زمین کو غصب کرنا ہے،
سوال:آج کل سب سے نفع بخش تجارت زمینوں کی تجارت سمجھی جاتی ہے، افسوس کہ اس تجارت میں بے ایمانی بھی شاید سب سے زیادہ ہوتی ہے،
لینڈ گرابرس لوگوں کی زمین پر تو ناجائز قبضہ کرتے ہی ہیں، سرکاری تالابوں کو بھی بھر کر اس پر پلاٹنگ کر دیتے ہیں، اس کا نتیجہ ہے کہ زیر زمین پانی کی سطح کم ہوتی جاتی ہے اور بارش کے موسم میں سیلاب ایک مصیبت بن کر آبادیوں پر نازل ہوتا ہے،
بیچنے والے کہتے ہیں کہ یہ سرکاری زمین ہے، کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہے، کیا سرکاری زمین کا بیچنا اور دوسرے لوگوں کا اس کو خریدنا جائز ہوگا؟(شیخ شرف الدین، کاچی گوڑہ)
جواب: سرکاری اراضی چاہے وہ تالاب کی شکل میں ہو یا پارک یا عوامی مفاد کی کسی اور شکل میں، یہ حکومت کی اور حکومت کے واسطے سے عوام کی ملکیت ہے، اس کی پلاٹنگ کرنا زمین کو غصب کرنا ہے،
ایسا کرنے والے کو غصب کرنے کا گناہ ہوگا اور اس پر واجب ہے کہ زمین حکومت کو واپس کر دے ؛ تاکہ مفاد عامہ کے لئے اس کا استعمال ہو، اگر ایک شخص کی زمین غصب کرتا تو ایک شخص پر ظلم کا گناہ ہوتا اور جب ایسی چیز غصب کی جو پوری عوام کی ہے تو اس نے تمام لوگوں پر ظلم کیا، اسی لحاظ سے اس کو گناہ بھی ہوگا ،
چاہے اس نے پلاٹنگ کی ہو اور رہائشی کالونی کے لئے مطلوب ضرورتیں جیسے سڑک، ڈرینج کی ضرورتیں پوری کی ہوں، مگر اس کی وجہ سے وہ اس کا مالک نہیں بنے گا، اور جب مالک نہیں ہے تو اس کے لئے اس کو بیچنا بھی جائز نہیں ہوگا:
منھا أن یکون مملوکا لأن البیع تملیک ، فلا ینعقد فیما لیس بمملوک(بدائع الصنائع: ۴؍ ۳۳۹)
اور جس شخص کو معلوم ہو کہ اس زمین پر ناجائز طریقہ سے قبضہ کیا گیا ہے، تو اس کے لئے اس کو خریدکرنا بھی جائز نہیں ہوگا:
إن کان المغصوب أرضا وھو قائم بید الغاصب، فلا یجوز للآخر أن یشتریہ منہ (ردالمحتار: ۹؍۲۶۶)
اور اگر کسی شخص نے ایسی غصب کی ہوئی چیز خرید ہی کر لی تو حکومت کو یا اگر وہ کسی شخص کی ملکیت ہو تو اس شخص کو حق ہوگا کہ وہ اس کو واپس لے لے، اور لینے والے شخص کو یہ حق ہوگا کہ وہ اس ظالم سے رجوع کرے اور پیسے وصول کر لے، جس نے یہ زمین اس کو بیچی تھی:
لو باع السارق المسروق من انسان أو ملک منہ بوجہ من الوجوہ، فان کان قائما فلصاحبہ أن یأخذہ ؛ لأنہ عین ملکہ، وللمأخوذ منہ أن یرجع علی السارق (بدائع الصنائع: ۷؍۸۵)