حمید عادل
ہمارے ایک دوست ہیں مرزا… آدمی کیا ہیں ایک چلتی پھرتی لذیذ ڈش ہیں … ماشاء اللہ عمر کی 34بہاریں دیکھ چکے ہیں مگر کنوارے ہیں اورکنوارے بھی ایسے کہ بوڑھا بھی اپنے آپ کو ان کے آگے جوان محسوس کرے… انتہائی سست اورکاہل قسم کے انسان ہیں …خودپر ذرا سے بوجھ بھی گوارا نہیں کرتے ہیں:
تساہل ایک مشکل لفظ ہے اس لفظ کے معنی
کتابوں میں کہاں ڈھونڈوں کسی سے پوچھ لوں گا میں
انور شعور
معروف مزاحیہ شاعر احمق پھپھوندی کا کاہلی سے متعلق نظریہ دوسروں سے ہٹ کر ہے ، چنانچہ کہتے ہیں :
نکما کر دیا ہے کاہلی نے گو ہمیں لیکن
رگوں میں ہے ہماری خون ابھی تک دوڑتا پھرتا
مرزا کی رگوں میں بھی خون دوڑتا پھرتا ہے لیکن مرزا،ناک پر بیٹھی مکھی تک نہیں اڑاتے بلکہ انتظار کرتے ہیں کہ خودمکھی بیزار ہوکر اڑجائے ۔ ان کی اسی کاہلی اور سست روی کو دیکھ کر ہم نے انہیں ’’ سلوموشن‘‘ یا ’خرامِ ناز‘کا خطاب دیا ہے …تقریباً سارے بال کھوپڑی کو خدا حافظ کہہ چکے ہیں چنانچہ ان کے نیم گنجے سر کو دیکھ کر چودھویں کے چاند کا گمان ہوتا ہے ۔جو بال رہ گئے ہیں وہ بھی بڑی تیزی سے اپنا رنگ بدل رہے ہیں یعنی سفید ہورہے ہیں ۔ اس پر ستم یہ کہ ان کی توند بھی مہنگائی کی طرح روز بروز بڑھتی ہی جارہی ہے۔ انہیں دور سے آتا دیکھ کرمحسوس ہوتا ہے گویا کوئی مست ہاتھی سر جھکائے جھومتا ہوا سیدھے جنگل سے چلاآرہا ہے ۔
مرزاہر گرما میں اس قدر واویلا اور ہڑبونگ مچاتے ہیں کہ لگتا ہے سورج ان ہی کے سر پر آگ اگل رہا ہے…کبھی کبھی تو کھڑے کھڑے ہی موسم گرما کو موٹی موٹی گالیوں سے نوازنا شروع کردیتے ہیں اورجب انہیں کچھ اور نہیں سوجھتا تو اپنے آپ کو ہی کوسنے لگتے ہیں کہ ’’ کم بخت …کیا قسمت ہے میری بھی ‘ ایک ایر کنڈیشنڈ بنگلہ تک نہیں ہے!‘‘ اکثر اپنی سست روی اور کاہلی کی بدولت کئی ملازمتوں سے بے دخل کیے جاچکے ہیں ، دراصل وہ کہیں بھی مسلسل ملازمت کے قائل نہیں ۔ وہ تو بس چاہتے ہیں کہ کام کم ہو اور آمدنی زیادہ بلکہ کام ہو ہی نہیں اور آمدنی ہی آمدنی ہو۔ ان کا دل تو چاہتا ہے کہ وہ دفتر میں جاکر روز سوتے رہیں اور جب جاگیں تو نوٹوں کا ڈھیر ان کے ارد گرد جمع ہو،جسے وہ سمیٹ کر بآسانی گھر لے آئیں ۔یہاں اس بات کا تذکرہ بیجا نہ ہوگا کہ وہ امیر بننے کے خواب بڑی پابندی اور بے شرمی سے دیکھا کرتے ہیں …
محکمہ ٔآرٹی سی کو مرزا کا بے حد ممنو ن ہونا چاہیے کہ ان کی کمائی کا بیشتر حصہ اسی محکمے کی نذر ہوجاتا ہے ۔ کیونکہ وہ تو بس کے بنا بے بس ہوکر رہ جاتے ہیں ۔ پیدل چلنے یا سائیکل چلانے کے کٹر مخالف ہیں ۔ بس میں بھی سفر کے دوران وہ ایسی گہری نیند میں ہوتے ہیں کہ کنڈکٹر اور پاس بیٹھے لوگوں کو یہ خدشہ ہونے لگتاہے کہ شاید یہ اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں ۔ چنانچہ جب وہ محو خواب ہوتے ہیں، پاس بیٹھے دوسرے مسافرین ان سے ایسے دور بھاگتے ہیں جیسے کوئی لاش کو دیکھ کر بھاگتا ہے ۔کیوںکہ مرزا کو تو سوتے وقت یہ ہوش ہی نہیں رہتا کہ وہ کس کی گود میں سورہے ہیں ‘ نشست پر سورہے ہیں یا لڑھک کر نیچے گر چکے ہیں … دوران سفر بازو بیٹھے ہوئے مسافر کو اپنے فولادی سر سے کتنی دفعہ زک پہنچا چکے ہیں اور اس اذیت سے تلملا کر بیچارہ ان کا پڑوسی نشست پر بیٹھا ہوا بھی ہے یا بھاگ کھڑا ہوا ہے !
ایک دفعہ بس میںپہلوان قسم کا آدمی مرزا کی بغل والی نشست پر بیٹھا تھا۔ حسب معمول مرزا تھوڑی ہی دیر میں نیند کے گھاٹ اتر گئے، خراٹے بھرتے ہوئے بس کے ہر جھٹکے پر اپنا بھاری بھرکم سر اس کی کھوپڑی سے ٹکراتے … پہلوان کو گمان گزرا کہ منزل کو پہنچتے پہنچتے کہیں مرزا اس کا سر نہ پھوڑ دیں،اسی خوف کے تحت اس نے مرزا کو بری طرح سے جھنجھوڑ کر جگا دیا اور کہا ’’سیدھا بیٹھو نا… کیا بوکوڑ کے جیسا ڈچے ماررے‘ میںبھی ایک کان بھیری ایسی ماروں گا چڑی( چڑیا) کے جیسا پھڑپھڑا کے مرجانا!‘‘ پہلوان کی خوفناک دھمکی سن کر مرزا کی نیند ایک لمحے میں غائب ہوگئی!
مرزا کو قبل از وقت بوڑھا نظرآنے کے جہاں بے شمار نقصانات ہورہے ہیں وہیں خاطر خواہ فوائد بھی ہورہے ہیں۔ چنانچہ کسی بھی بس میں زنانہ نشستیں پر ہوجائیں تو ان کی بغل والی خالی نشست پر کوئی بھی خاتون ان کی ضعیفی کو ملحوظ رکھتے ہوئے بلا تکلف بیٹھ جاتی ہے۔
ایک دفعہ ایک پری پیکر حسینہ مرزا کے قریب آبیٹھی ،وہ اتنی حسین و جمیل تھی کہ بس کے سارے نادیدہ اور بد نظر مسافروں کے منہ سے رال ٹپکنے لگی ۔خود مرزا کو بھی لگ رہا تھا جیسے قسمت بلٓاخر ان پر مہربان ہو ہی گئی۔ مگران کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے جس سے لڑکی ان پر فدا ہوجائے ۔چنانچہ وہ کبھی لڑکی کو جھک کر بڑے غور سے دیکھتے تو کبھی اپنی بچی ہوئی جائیداد (زلفوں)کو سنوارنے لگتے۔ کبھی آگے ہوتے تو کبھی پیچھے ہوتے اور کبھی کبھی تو اپنی بھونڈی اور بے سری آواز میں کوئی فلمی گیت گنگنانے کی حماقت بھی کرتے‘ جیسے کہ :
کتنا پیارا تجھے رب نے بنایا ‘جی کرتا ہے تجھے دیکھتا رہوں۔‘‘ یا پھر یہ گیت گاتے:
’’ یہ کیسا نشہ ہے محبت کا یارو‘ نہ سمجھا ہے کوئی نہ سمجھے گا یارو!‘‘
مرزا کی ان چھچھوری حرکتوں کو لڑکی بھانپ گئی اورتنک کر بولی:’’ آپ کو شرم آنی چاہئیے انکل!! میں آپ کی بیٹی جیسی ہوں‘ کچھ تو عمر کا خیال کیجئے ‘ یہ تو وہی بات ہوئی بوڑھی گھوڑی لال لگام!‘‘ لڑکی کے ان برجستہ گرجدارمکالموں پرسارے مسافرین ہنس پڑے اور مرزا اپناسا منہ لے کر رہ گئے ۔اب بیچارے مرزا اس لڑکی کو کیسے سمجھاتے کہ وہ وقت اور حالات کے ستائے ہوئے نوجوان نہیں تو کم سے کم جوان ضرور ہیں ۔
اکثرہمارے بچے مرزا کو آتا دیکھ کر خوشی سے چیخ پڑتے ہیں ’’ بڈھا آیا…بڈھا آیا‘‘ اور جب ہم بچوںکو ڈانٹتے ہیں تو پھول بانو ہمیں ٹوکتی ہیں ’’ کیوں بچوں کو ڈانٹ رہے ہیں آپ؟ بچے بوڑھے کو بوڑھا نہیں تو کیا جوان کہیں گے؟‘‘اور ہم لاجواب ہوجاتے ہیں…
مرزا بعض وقت ہمیں بڑی حسرت بھری نگاہوں سے گھورتے ہوئے سرد آہ بھر کر کہتے ہیں ’’ یار…ہم دونوں کی عمریں ایک ہونے کے باوجود ایسا کیوں لگتاہے کہ تو میرا بیٹا ہے اور میںتیرا باپ ہوں !‘‘
ان کے اس بے لاگ تبصرے پرہم مسکرا کر صرف اتنا ہی کہتے ہیں ’’ ڈیڈی ‘ یہ تو اپنے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے !‘‘
بچپن میں ہماری شرارتوں کے قصے دور دور تک مشہور تھے‘ جب ہم نویں جماعت کے طالب علم تھے‘ین سی سی کیمپ کے سلسلے میں وشاکھا پٹنم جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ ہماری خوش نصیبی تھی کہ ہمارے ساتھ مرزابھی تھے ۔ انہوںنے اپنے ساتھ ترکاری کااچار لایا تھا ، جو کہ ہر دور میں ہماری کمزوری رہا ہے ۔ ہرروز ہم یہی سوچتے کہ آج مرزا ہمیں اچار ضرور کھلائیں گے ‘ مگر انہیںنہ جانے کیا ہوگیا تھا کہ انہوںنے ہمیں بالکل گھاس( اچار) نہیں ڈالی بلکہ وہ ہماری نظروں کے سامنے بڑی احتیاط اور دیدہ دلیری کے ساتھ اچار کا شیشہ نکالتے اورخود ہی چٹخارے لے لے کرکھاتے اور دوبارہ اسی احتیاط کے ساتھ شیشہ بیاگ میں رکھ کر اسے باقاعدہ مقفل کردیتے ۔ بڑے غور وخوض کے بعد ہمارے ذہن میں ایک خیال مینڈک کی طرح کودا اور ہم خوشی سے مور کی طرح ناچنے لگے اوروہ نیک خیال تھا چوری کا! چنانچہ موقع پاکر ہم نے مرزا کا وہ اچارکا شیشہ ہی اڑالیا اور پھر ہم سب دوست آپس میں ملکر ایک ہی نشست میں سارا اچار چٹ کرگئے ۔ مرزا کے نازک دل کو تکلیف نہ ہو ہم نے اس بوتل کو اچھی طرح دھو کر جوں کا توں رکھ دیا۔
جب مرزا کو اس درد ناک چوری کا پتہ چلا تو وہ تلملا کر رہ گئے … لگ رہا تھا جیسے وہ بنا شادی کے ہی رنڈوے ہوگئے ہوں۔ ہم نے ضروری سمجھا کہ انہیں پرسہ دیں…لہٰذاہم اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے انجان بن کر پوچھ بیٹھے ’’ کیا ہوامرزا؟ بڑے اداس لگ رہے ہو ؟‘‘
ہمارے ان سوالات پر وہ سرد آہ بھرکر بولے ’’ کیا کہوں یار! کل رات کوئی میرا سارا اچار چٹ کرگیا۔‘‘
ہم نے نہایت اداس لہجے میں کہا ’’ کون کرسکتا ہے یہ ذلیل حرکت ؟ کیا تمہیںکسی پر شک ہے مرزا؟‘‘ تو وہ تقریباً روتے ہوئے بولے ’’ کس پرشک کروں یار؟ ذرا چور کی ہمت تو دیکھو جس صفائی سے اس نے اچار اڑایا ہے‘ اسی صفائی کے ساتھ بوتل کو دھوکر بھی رکھ گیا۔‘‘
ہم نے لقمہ دیا ’’ بڑا صفائی پسند چور معلوم ہوتاہے ۔‘‘ اور پھر انہیں دلاسہ دیتے ہوئے کہا ’’ فکر نہ کرو مرزا‘ ہمارے پاس آم کا اچار ہے ‘ہم ہر روز تمہیںکچھ نہ کچھ دے دیا کریں گے۔‘‘
ہماری بات سن کر ان کے چہرے کی رونق لوٹ آئی اوروہ مسکرا کر بولے ’’ سچ !‘‘ تو ہم نے کہا ’’ بالکل سچ!!ارے اگر تم ہمیں اپنا اچار کھلاتے تو کبھی اس طرح سے نہ لٹتے جس طرح سے آج لٹے ہو‘ مگر فکر نہ کرو مرزا جس کسی نے بھی تمہارا اچار کھانا تو دور کی بات ہے چکھا بھی ہے وہ چین سے نہیں بیٹھے گا۔‘‘
مرزا ہم سے بے ساختہ لپٹ گئے اورنہایت جذباتی ہوکر کہنے لگے ’’ یار ! تم میرے کتنے ہمدرد ہو یہ آج پتا چلا‘ یقینا اگر تم نہ ہوتے تو میں اچار کی چوری ہوجانے کے غم میں نجانے کیا کر بیٹھتا ۔ ‘ ‘
ہمارے دوست ہیں تو ’’ سلوموشن‘‘ ! مگر ان میں دوسروں کے لیے ہمدردی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے جوفی زمانہ انسان میں ’’اوٹ آف اسٹاک‘‘ ہے ۔ مرزا ان تیز رفتار دوڑتے بھاگتے انسان نما بے حس انسانوں سے بہترہیںجو صرف اپنے لیے جیتے ہیں اور اپنے لیے مرتے ہیں… اور مرزا اپنوں کے لیے جیتے ہیں اور اپنوں کے لیے مرتے ہیں… ہمیں اپنے دوست ’’ سلوموشن‘‘ سے پیار ہے ‘ بے حد پیار!
۰۰۰٭٭٭۰۰۰