مضامین

سیاسی انتقام کی کارروائیاں جمہوری نظام کے لیے خطرہ

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

مرکز کی بی جے پی حکومت اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف جس انداز میں انتقامی کارروائیاں کرتی جارہی ہے، اس سے ملک کی جمہوریت کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔حالیہ عرصہ میں عام آدمی پارٹی کے اہم رہنماء اور دہلی حکومت کے وزیر تعلیم منیش سسودیا کو بیجا الزامات لگا کر تہاڑ جیل میں بند کردیاگیا اور تلنگانہ کے چیف منسٹر اور بی آر ایس کے سربراہ کے۔چندر شیکھر راو کی بیٹی کے۔ کوتیا کو ای ڈی کی جانب سے ہراساں کرنے کی مسلسل کوشش سے یہ بات پائے ثبوت کو پہنچتی ہے کہ مودی حکومت اپنے سے اختلاف رکھنے والوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔حکومت کا جارحانہ انداز ملک کے سارے قوانین کی نفی کرتا ہے۔اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو اسے کڑی سزا ملنی چاہیے، لیکن محض الزامات لگا کر کسی کے سیاسی کردار کو داغدار کرنے کی کوشش ملک میں ایک سیاسی ہلچل پیدا کردے گی۔سوال یہ ہے کہ آیا بی جے پی کے قائدین دودھ کے دھلے ہوئے ہیں۔کیا ان کے کرتا دھرتا بدعنوانیوں میں مبتلا نہیں ہیں۔وزیراعظم کے دست راست اڈانی نے ملک کی معیشت کا جو دیوالیہ نکال دیا ہے، اس پر کوئی گرفت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ساری اپوزیشن پارٹیاں پارلیمنٹ میں اڈانی گروپ کی دھاندلیوں پر بحث کرنا چاہتی ہیں، لیکن برسر اقتدار پارٹی کے ارکان راہول گاندھی کے برطانیہ میں دیے ہوئے ایک بیان پر آگ بگولہ ہوکر پارلیمنٹ کی کارروائی کو چلنے نہیں دے رہے ہیں۔گزشتہ دس دن سے ہر روز حکمراں پارٹی کے ارکان کی ہنگامہ آرائی کے نتیجہ میں پارلیمنٹ کے اجلاسوں کو ملتوی کرنا پڑ رہا ہے۔راہول گاندھی نے اگر آکسفورڈ یونیورسٹی میں لکچر دیتے ہوئے اگر یہ تبصرہ کیا کہ ہندوستان میں جمہوریت خطرہ میں ہے تو اس سے کون سا آسمان پھٹ گیا کہ سارے ایوان میں ہر روز حکمران پارٹی کے ارکان شور و غل مچائے ہوئے ہیں۔یہ دراصل مودی حکومت کی بوکھلاہٹ ہے کہ وہ حقیقت بیانی کو سننے کے لیے تیار نہیں ہے۔راہول گاندھی نے صرف آئینہ بتایا ہے کہ ہندوستان کس رخ پر جارہا ہے۔کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ملک میں جمہوریت کمزور ہوتی جارہی ہے۔جمہوری اور قانونی اداروں کو آزادی سے کام کرنے نہیں دیا جارہا ہے۔حکومت کا دباو¿ سرکاری افسروں پر اس قدر بڑھ گیا ہے کہ کوئی افسر حکومت کی مرضی کے بغیر کوئی کام نہیں کرسکتا۔الیکشن کمیشن سے لے کر عدلیہ کو کنٹرول کرنے کی مسلسل کوشش جاری ہے۔ایسے میں حکومت اپوزیشن پارٹی کے قائدین کی آواز کو خاموش کرنے کے لیے ان پر قانونی شکنجہ کس رہی ہے تو یہ سیاسی انتقام کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ بہار کے قد آور قائد اور آر جے ڈی کے بانی لالو پرساد یادو کو گزشتہ کئی برسوں سے بیجا قانونی حربے استعمال کرتے ہوئے ہراساں کیا جارہا ہے۔اب ان کے بیٹے اور ریاست بہار کے ڈپٹی چیف منسٹر تیجسوی یادو کے خلاف سازش رچائی جارہی ہے۔کمال یہ ہے کہ جو نیتا بی جے ہی کی چھتر چھایا میں آجاتا ہے اس کی ساری غیر قانونی سرگرمیوں پر کوئی پوچھ نہیں ہوتی ہے۔چناچہ بڑی بڑی بدعنوانیوں میں مبتلا کئی سیاسی لیڈر اس وقت بی جے پی میں اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔انتہا یہ ہے کہ قاتلوں اور زانیوں کو بھی وزارت سونپی جارہی ہے۔سیاسی اختلاف رکھنا یا حکومت کی پالیسیوں پر اعتراض کرنا جمہوریت میں کوئی غلط بات نہیں ہے۔اسی سے جمہوری نظام مضبوط ہوتا ہے۔یہ جمہوریت کا حسن ہے کہ یہاں ہر ایک کو اپنی رائے رکھنے کا حق حاصل ہے۔حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اختلاف رکھنے والوں کی رائے کا بھی احترام کرے۔آزادی کے کچھ دہوں تک یہ روایت ملک میں رہی کہ حکمران جماعت حزب اختلاف سے مشاورت کے بعد ہی پالیسی بناتی تھی۔پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کا بھی حکومت تسلی بخش جواب دیتی تھی۔ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو، جو خود ایک مدبر سیاست دان تھے اور عالمی سطح پر جن کا بڑا احترام کیا جاتا تھا لیکن انہوں اپنے طویل دور حکمرانی میں اپوزیشن کی آواز کو دبانے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ملک کے بہت سارے لیڈر ان کی پالیسیوں پر تنقید بھی کرتے تھے۔لیکن نہرو نے ان سے سیاسی اختلاف کے باوجود سیاسی انتقام نہیں لیا، لیکن موجودہ حکومت کا رویہ بالکل اس کے برعکس ہے۔برسر اقتدار جماعت کے قائدین اپنے متعلق کسی تنقید کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔اسی لیے سماجی جہدکاروں سے لے کر سیاسی جماعتوں کے قائدین کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ملک کے سارے تفتیشی ادارے بس اسی کام میں لگے ہوئے ہیں کہ کس طرح حکومت سے سوال کرنے والوں سے نمٹا جائے۔
انتہا یہ کہ راہول گاندھی نے برطانیہ میں جو بیان دیا ہے اس پر کارروائی کرنے کے لیے دہلی پولیس ان کے گھر جاتی ہے۔ راہول گاندھی کو پارلیمنٹ میں اپنے بیان کے تعلق سے وضاحت کرنے کا موقع نہیں دیا جارہا ہے۔وہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے اپنے ملک کے تعلق سے کوئی غلط بات برطانیہ میں نہیں کہی ہے۔راہول گاندھی، رکن پارلیمنٹ ہیں۔ان کا یہ دستوری حق ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں اپنا دفاع کریں،لیکن وہاں ان کو موقع نہ دے کر ایوان میں ہنگامہ آرائی کرنا اور پھر انہیں پریشان کرنے کے مقصد سے پولیس کے ذریعہ کارروائی کرنا یہ محض سیاسی عداوت کی بدترین مثال ہے۔اس وقت ملک میں یہی دیکھا جارہا ہے کہ جو کوئی حکومت کے خلاف لب کشائی کرتا ہے، اس کے خلاف ای ڈی اور سی بی آئی حرکت میں آجاتے ہیں۔ملک میں اگر سیاسی اختلاف رکھنے والوں کے ساتھ انتقامی کارروائی کو ہی اہمیت دی جائے تو پھر ہر الیکشن کے بعد کامیاب ہونے والی پارٹی اپنے مخالفین کا پیچھا کرنے میں لگ جائے گی۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک کا سیاسی ماحول کافی حد تک پراگندگی کا شکار ہوگیا ہے۔کوئی سیاسی پارٹی یہ دعوی نہیں کرسکتی کہ اس کے قائدین بدعنوانیوں میں ملوث نہیں رہے ہیں۔ایک ایسے دور میں جہاں سیاست پوری طرح آلودہ ہوچکی ہے وہاں شفافیت اور خدمت خلق کے دعوے کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔بی جے پی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اس پارٹی کے کئی لیڈروں پر مختلف وقتوں پر یہ الزامات لگتے رہے کہ انہوں نے کئی معاملات میں بدعنوانیاں کی ہیں۔ کرناٹک میں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے باضابطہ رشوت خوری کا بازار گرم ہے۔چیف منسٹر سے لے کے کارپوریٹر ہر ایک بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہا ہے۔ عوام کی توجہ اصل مسائل پر سے ہٹانے کے لیے متنازعہ موضوعات چھیڑے جاتے ہیں۔ گزشتہ ایک سال سے ریاست میں حجاب کا مسئلہ چھیڑ دیا گیا۔ اب حلال گوشت پر پابندی لگانے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ماحول کو گرمانے کے لیے اشتعال انگیز دھمکیاں دینے سے بھی بی جے پی کے قائدین نہیں کتراتے ہیں۔ابھی ایک بی جے پی لیڈر نے کہا کہ ہندوستان آزادی کے ساتھ ہی ہندو راشٹر بن گیا۔اب یہاں دوسروں کے لیے رہنے کہ جگہ نہیں ہے۔ان سارے دہشت گردی پر مبنی بیانات سے مودی حکومت صرف نظر کرتی آرہی ہے،لیکن ملک کو نقصان پہنچا نے والی پالیسیوں پر اعتراض کیا جاتا ہے تو مودی حکومت کے چشم آبرو پر شکن آجاتی ہے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے میں دیر نہیں کی جاتی۔
حکومت کا یہ دہرا پن جمہوری قوتوں کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ آیا حکومت کے اس معاندانہ اقدام کو برداشت کرلیا جائے یا پھر اس کے خلاف کوئی مضبوط پلیٹ فارم تیار ہو۔ اختلاف رائے رکھنے والوں کو مودی حکومت اسی طرح ہراساں کرتی رہی اور کوئی اس کے خلاف آواز نہ اٹھائے تو مستقبل میں ملک میں جمہوریت کے کمزور پڑنے کے پورے امکانات ہیں۔راہول گاندھی نے برطانیہ میں جس بات کی طرف اشارہ کیا ہے وہ ایک حقیقت بن کر ملک کے عوام کے سامنے آئے گا۔آئندہ سال ہونے والے لوک سبھا الیکشن میں تیسری مرتبہ کامیاب ہونے کے لیے یہ سارے حربے استعمال کیے جارہے ہیں۔مودی حکومت کی اس سیاسی انتقام کی پالیسی پر بھی اپوزیشن پارٹیاں خاموش رہیں گی اور یہ تصور کریں کہ ہمارے ساتھ تو یہ معاملہ پیش نہیں آیا تو پھر وہ بھی ایک نہ ایک دن مودی حکومت کے عتاب کا شکار ہوجائیں گی۔سیاسی انتقام کا معاملہ کسی ایک سیاسی پارٹی تک محدود نہیں ہے۔حکومت یکے بعد دیگرے پارٹیوں کو نشانہ بنا سکتی ہے۔اس لیے ساری غیر بی جے پی پارٹیوں کو اس بارے میں سنجیدگی سے غور کرکے متحدہ اقدام کرنا ہوگا۔ یہی ایک راستہ ہے جس کے ذریعہ ملک میں جمہوریت کو لاحق خطرات سے نمٹا جاسکتا ہے اور قانون کی حکمرانی کے خواب کو پورا کیا جاسکتا ہے۔
٭٭٭