طنز و مزاحمضامین

راجہ اور غلام

زکریا سلطان۔ ریاض

دونوں کے چرچے ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ نام کی تاثیر ہوتی ہے تاہم یہ ضروری نہیں کہ ہر نام کی اور ہر شخص کی کیفیت اور اس کے نام کی تاثیر مثبت اور بھلی مانس ہو۔بات الٹی بھی ہوسکتی ہے جیسا کہ دیکھا جارہا ہے۔ نام کے برخلاف راجہ نقلی اورنام کے مطابق غلام اصلی نکلا ۔غلام اگر واقعی نبی کا غلام ہوتا تو بات کچھ اور ہوتی، مگر وہ تونبی ﷺ کی غلامی سے آزاد ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ نبیﷺ کے دشمنوں سے گلے مل گیاہے ۔راجہ کے معنی بادشاہ اور حکمران کے ہیں۔ بادشاہ کو خوش اخلاق با وقار عادل و فراخدل ہونا چاہئے جو اپنی پرجا کا بیحد خیال رکھے ان سے اچھی بات کرے، زبان اس کی شیریں ہو اور راجہ پرجا کے درمیان محبت و بھائی چارگی کی فضاءپیدا ہو، اچھے اخلاق و عادات کے سبب عوام راجہ سے محبت کریں اسکی تعظیم کریں مگر یہاں تو معاملہ الٹا ہے راجہ نے تو جرائم میں پولیس اور سرکاری ریکارڈ کے مطابق سنچری مکمل کرلی ہے ، غیر سرکاری اعداد و شمار خدا جانے کتنے ہیں!!! یہ تو وہ اعداد و شمار ہیں جن کے کیس رپورٹ اور رجسٹر کئے گئے ہیں۔جب ایسے مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے نفرتوں کے سوداگر راجہ ہوں گے تو ظاہر ہے امن و امان تتر بتر ہوگا اور عوام راجہ کا کان پکڑ کر اسے محل ( ایوان) سے نکال باہر کرنے کا مطالبہ کریں گے، اس کی کیا خاک عزت لوگوں کے دلوں میں ہوگی جو دوسروں کی عزت نہ کرے اور جب بھی منہ کھولے امّا مرو باوا مرو کرتا پھرے۔ ایسے نا لائق اور بیہودہ قسم کے راجہ پر جب قانون کا شکنجہ کسا گیا تولوگوں نے کہا راجا کا بج گیا باجا۔ ظاہر ہے کب تک راجہ دوسروں کا باجا بجاتا رہے گا۔ ایک نہ ایک دن راجہ کا باجا بھی تو بجنا چاہیے۔جب امریکہ میں دنیا کے اعلیٰ ترین روڈی شیٹرکا باجا بج سکتا ہے تو پھر یہ راجہ واجہ کس کھیت کی مولی ہے، اس نے جو حرکت کی ہے اس کے مقابلہ میںاس کی حیثیت تو ایک جلے ہوئے سگریٹ کے فلٹر جیسی ہے اور کچھ نہیں!!! اگر یہ بھی ہندوستان کے قانون اور دستور کا پاس و لحاظ کرنے والا ایک شریف النفس انسان ہوتا اور پیار محبت کی بات کرتا، اچھی بات کرتا لوگوں کے دل آپس میں جوڑنے کا کام کرتا معاشرہ کو ماحول کو اگرپاک صاف رکھنے میں مدد کرتا تو لوگ اسے بھی سر آنکھوں پر بِٹھاتے مگر اس کے نصیب میں نیک نامی ہے نہ عزت و توقیر بس چند ایک اسی کی قماش کے بددماغ فسادی اور شر پسند ہیں جو اس کی حمایت میں زندہ باد مردہ باد کرتے رہتے ہیں جو صرف نفرت کا پرچار کرنا جانتے ہیں، ادب اخلاق سے امن اور بھائی چارے سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں اور نہ وہ ملک و ریاست کی ترقی و خوشحالی چاہتے ہیں، تُف ہے ان پر اور ان کی بیمار مجرمانہ ذہنیت پر۔
اب آئیے ہمارے غلام صاحب کی طرف۔ بے چارے چالیس برس سے زائد تک اقتدار اور اعلیٰ عہدوں کے مزے لوٹے، کسی کا نمک کھایا اور پھر عادت کے مطابق نمک حرامی شروع کردی۔اپنی غلامانہ ذہنیت کو وہ چھپا نہ سکے ۔اپناسیاسی خاتمہ بالخیر کرنہ سکے اور خود اپنے ہی پیر پر کلہاڑی مارلی یا یوں کہئے کہ جس شاخ پہ بیٹھے تھے، اسی پہ آری چلادی ۔ لوگ ان کی اس نا معقول حرکت پر افسوس کا اظہار کررہے ہیں اور ہر طرف سے ان کی بے وفائی ، موقع پرستی اور دغا بازی پر جم کر نکتہ چینی ہورہی ہے، انہوں نے اخلاق و کردار کی ساری حدیں پار کرکے بالکل نچلی سطح اپنالی اور غیر ضروری بے بنیاد قسم کے الزامات کی بوچھاڑ کرکے خود اپنی رسوائی اور ذلت کا سامان مہیا کر لیا۔ بقول عوام اور تجزیہ نگاروں کے انہوں نے اچھے وقت میں تو خوب ملائی کھائی ہے اور کٹھن آزمائش کے وقت اپنے محسنوں اور آقاﺅں کو چھوڑ کر کسی اور کی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیا جسے عوام خوب سمجھ رہے ہیں۔ لوگ اپنے کامنٹس میں ان پر خوب برس رہے ہیں اور بہت کچھ ان کی شخصیت کے بارے میں کہہ رہے ہیں سوائے سرکاری اور درباری میڈیا کے۔ کسی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی پارٹی سے نہیں بلکہ ملک سے بغاوت کی ہے، وہ انتہائی درجہ کے مفاد پرست اورایک احمق آدمی نکلے جبکہ عوام انہیں ایک بڑا لیڈر اور دانشمند انسان سمجھا کرتے تھے۔ موصوف کو ایک ایسے اعلیٰ خاندانی شخص سے خصومت ہوگئی ہے جس کے والد اُنہیںغلام کہہ کر بلاتے تھے، تو یہ صاحب یس سر اور جی سر کہہ کر ان کے پیچھے دوڑا کرتے تھے۔یہ وہ جیوٹ شخص ہے جو اس وقت ملک میں ہونے والی بدعنوانیوں، نا انصافیوں ، بے روزگاری، غربت و افلاس اور کرپشن جیسے سنگین مسائل پر سینہ تان کرشب و روز آواز اٹھا رہا ہے، ظالم و جابر فرقہ پرست عناصر، ان کی تنظیموں اورسرمایہ کارسرپرستوں کے خلاف بھی سخت جدوجہد کر رہا ہے مگر غلام کو یہ سب کچھ نظر نہیں آرہا ہے یا یوں کہئے کہ پسند نہیں آرہا ہے۔ یاد ہے تو بس کسی کے وہ آنسو جو ایوان میں بہائے گئے تھے جسے لوگ مگر مچھ کے آنسو کہتے ہیں جو دراصل ایک بڑے فنکار کی بڑی اداکاری تھی۔ کسی نے کہا ہے کہ موصوف ان ہی آنسوﺅں کی قیمت ادا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ کسی اور کا کہنا ہے کہ ایک اور بی ٹیم کی تیاری میںحضرت اپنا کلیدی کردار ادا کرنے والے ہیں، اسی سمت ان کا یہ قدم اٹھا ہے جو بے شمار ہندوستانیوں کی نظر میں بہت برا قدم ہے ۔ اچھا بھلا نام تھا، عزت تھی دولت تھی ،شہرت تھی، سب کچھ تھا مگر لگتا ہے وہ انہیں راس نہیں آیا۔ اپنا اعلیٰ مقام و مرتبہ کھوکر اب وہ صرف ایک غلام رہ گئے ہیں۔