دہلی

فیکٹ چیکر محمد زبیر کی ضمانت کے باوجود نہیں ہوگی رہائی

زبیر اتر پردیش میں درج دیگر دو مقدمات میں ہنوز جیل میں ہی رہیں گے۔ فیکٹ چیک ویب سائٹ آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر نے سپریم کورٹ سے درخواست کررکھی ہے کہ وہ اتر پردیش پولیس کے ذریعہ ان کے خلاف درج چھ مقدمات کو منسوخ کردے۔

نئی دہلی: فیکٹ چیکر محمد زبیر، گزشتہ چند ہفتوں کے دوران مختلف ایف آئی آر کے اندراج پر ہنوز جیل میں ہیں، کو آج ایک اور کیس میں ضمانت مل گئی لیکن وہ مزید دو مقدمات کے باعث رہا نہیں ہوسکیں گے۔

محمد زبیر کو دہلی پولیس کی جانب سے 2018 کے ٹویٹ پر دائر کیس میں دہلی ہائی کورٹ نے آج ضمانت دے دی گئی۔ انہیں گزشتہ ماہ گرفتار کیا گیا تھا۔

وہ اتر پردیش میں درج دیگر دو مقدمات میں ہنوز جیل میں ہی رہیں گے۔

فیکٹ چیک ویب سائٹ آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر نے سپریم کورٹ سے درخواست کررکھی ہے کہ وہ اتر پردیش پولیس کے ذریعہ ان کے خلاف درج چھ مقدمات کو منسوخ کردے۔

انہوں نے مقدمات کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی خصوصی تحقیقاتی ٹیم کو بھی برخواست کرنے کی درخواست کی ہے۔

محمد زبیر کو 27 جون کو دہلی پولیس نے ایک مشہور ہندی فلم کا اسکرین شاٹ شیئر کرنے کے چار سال پرانے ٹویٹ پر گرفتار کیا تھا۔

بی جے پی کی معطل ترجمان نپور شرما کے ایک ٹی وی مباحثے کے دوران پیغمبر اسلام کے بارے میں اشتعال انگیز تبصروں کی ویڈیو کو عام کرنے کے زبیر پر مختلف الزامات عائد کئے گئے اور ان کے خلاف مقدمات کی بوچھار ہوگئی تھی۔

جب انہیں ضمانت ملنے والی تھی تو اترپردیش میں ان کے خلاف کئی مقدمات درج کردیئے گئے۔

لکھیم پور کھیری، ہاتھ رس اور سیتا پور میں تین مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ ان کے خلاف یہ مقدمات اس لئے درج کئے گئے کیونکہ انہوں نے نفرت پھیلانے والوں کو ’’نفرت پھیلانے والےلوگ ‘‘ کہا تھا۔

لکھیم پور میں، سدرشن نیوز کے ایک ملازم نے زبیر پر الزام لگایا کہ وہ سدرشن چینل پر ان کے اسرائیل-فلسطین تنازعہ کی کوریج پر لوگوں کو گمراہ کر رہے تھے۔

منگل کو ہوئی سماعت میں، زبیر نے سپریم کورٹ سے ضمانت کی درخواست کی تھی اور الزام لگایا تھا کہ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور اے ایس بوپنا نے یوپی حکومت کو زبیر کی عرضی کا جواب دینے کے لیے چار ہفتوں کا وقت دیا ہے۔ 

اسی دن، اتر پردیش پولیس نے زبیر کے خلاف متعدد مقدمات کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی تفتیشی ٹیم تشکیل دی تھی گویا زبیر ایک صحافی نہیں بلکہ دہشت گرد ہے۔