لازمی شریک حیات

ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
خدا نے دنیا میں مرد عورت پیداکیے، ان کی شادی کا نظام رکھا تاکہ دونوں ایک دوسرے سے سکون پاسکیں ۔ شادی کے بارے میں انسان کافی عرصے پہلے سے سوچتا رہتا ہے کہ اس کی شریک حیات کیسی ہوگی یا کیسا ہوگا۔ شریف لوگ اپنی بیوی کو نصف بہتر بھی کہتے ہیں۔ شریک حیات کے مفہوم میں شامل ہے کہ زندگی کے اچھے برے دنوں میں دونوں ایک دوسرے کا بھر پور ساتھ دیں۔ شریک حیات کا معاملہ تو اس وقت درپیش ہوتا ہے جب انسان شادی کی عمر کو پہنچتا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی وہ غلطی کر جاتا ہے جس کا پچھتاوا زندگی بھر اس کے ساتھ رہتا ہے، لیکن جن لوگوں کی شادی نہیں ہوئی ہے اور خاص طور پر ہمارا آج کا نوجوان طبقہ جس کے لیے بھی ایک لازمی شریک حیات ضروری ہے، آج ہم اس لازمی شریک حیات سے آپ کو متعارف کرواتے ہیں، جی ہاں ہم سب کی لازمی شریک حیات ان دنوں ہمارا اسمارٹ فون بنا ہوا ہے۔ انسان رات کا کھانا کھایا یا نہیں اس کی فکر نہیں، ملازمت کرے یا نہ کرے، امتحان کی تیاری کرے یا نہ کرے اس کی فکر نہیں، لیکن سب کے لیے اسمارٹ فون مع انٹرنیٹ کنکشن لازمی ہے۔ اب فون ہماری زندگی میں اس قدر دخیل ہوگیا ہے کہ یہ خلوت اور جلوت ہر جگہ ہمارا وقت لے رہا ہے۔ایک نوجوان سے پوچھا گیا کہ وائف چاہیے یا وائی فائی تو اس نے کہا کہ وائف کا جھنجھٹ ابھی نہیں بس وائی فائی کا پاس ورڈ دے دیجئے ورنہ میرا دل نہیں لگے گا۔ کسی گھر میں جاتے ہی لوگ سامنے والے کی خیریت بعد میں پوچھتے ہیں پہلے اس گھر کا وائی فائی پاس ورڈ پوچھتے ہیں۔انسانی رشتوں سے زیادہ فون اہم ہوگیا ہے۔ جو لوگ پچاس سال کے آس پاس زندگی گزار رہے ہیں اور جو ۷۰۔۸۰ کی دہائی میں شعور کو پہنچے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ خاندان کے کسی دولت مند فرد کے گھر میں فون ہوا کرتا تھا، بیرون ملک یا دوسرے شہر میں ٹرنک کال بک کرنی پڑتی تھی اور کافی انتظار کے بعد کال لگتی تھی۔ فون تعیشات میں سے تھا۔ لوگ خط لکھا کرتے تھے، ڈاکیہ گھر آیا کرتا تھا، کبھی کوئی اہم خبر پہنچانا ہوتو ٹیلی گرام کیا جاتا تھا جیسے ہی گھر کے دروازے پر ٹیلی گرام کی آواز آتی تھی، لوگوں کے اوسان خطا ہوجاتے تھے کہ اللہ رحم کرے کون مرگیا کیا حادثہ ہوگیا۔ فون کا ایک دور وہ بھی تھا جب ایس ٹی ڈی کال پر کم قیمت کی کال کے لیے لوگ رات میں ایس ٹی ڈی بوتھ پر جاکر اپنی باری کا انتظار کرتے تھے اور مفت میں سبھی کال کرنے والوں کی کہانیاں سن لیتے تھے۔ فون کی اس تیز رفتار ترقی کے بعد آج عالم یہ ہے کہ فون اب چوبیس گھنٹے مفت بات کرنے کے لیے دستیاب ہے لیکن لوگ بات کرنے تیار نہیں۔ شریک حیات کا عالم یہ ہے کہ تھوڑی دیر ہم سے فون جدا ہوجائے تو ہماری کیفیت غیر ہوتی ہے کہ کس کا کال آیا ہوگا ۔ کبھی فون چوری ہوجائے تو فوری سم بلاک کرکے ہم دوسرے فون کا انتظام کرنے لگتے ہیں۔ دفتر جانا ہے گھر پر فون بھول گئے تو دن بھر ملال رہتا ہے کہ کس کس کا فون آیا ہوگا ۔ ہاتھ سے فون چھوٹ گیا تو ہائے اللہ کی چیخ نکل جاتی ہے کہ میرے بھاری فون کو کچھ نقصان تو نہیں ہوا۔ اگر کچھ دیر کے لیے نماز کے لیے فون بند رکھیں اور بعد میں کھولیں تو کئی مس کال ہوتے ہیں اور لوگ شکایت کرنے لگتے ہیں کہ آپ نے فون بند رکھا تھا۔ پہلے فون بات کرنے کے لیے ہوا کرتا تھا لیکن اب یہ ہماری ہر قسم کی تفریح اور دل لگی کا سامان فراہم کرنے کا ذریعہ بن گیا ہے۔ اور لازمی شریک حیات کے زمرے میں داخل ہوگیا ہے۔ نوجوانوں کو کمائی کی فکر نہیں لیکن بار بار نئے ماڈل کا فون خریدنے کی فکر لگی رہتی ہے۔ پہلے کوئی دو چار ہزار کا فون خریدنے کے لیے کافی منصوبہ بندی کرنی پڑتی تھی اب ہر بچے کی پسند آئی فون ہوگئی ہے۔ آئی فون ایک اسٹیٹس سمبل بن گیا ہے۔ شادی کی سالگرہ ہے اور بیوی کی فرمائیش سونا دلانے کی نہیں بلکہ تازہ ماڈل کا آئی فون خریدنے کی ہوگئی ہے۔شوہر بے چارہ اپنی بیوی کی پسند کا لحاظ کرنے کے لیے اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ لیتا ہے۔
فون اب ہر مرض کی دوا زندہ طلسمات ہوگیا ہے۔ اس میں اب ہم کرکٹ میچ دیکھ سکتے ہیں۔ من پسند کے سیرئیل ڈرامے فلمیں دیکھ سکتے ہیں۔ نوجوان بچے ایک سے ایک گیم کھیل سکتے ہیں۔ کمپیوٹر کی جگہ یہ فون ہر قسم کے اپلی کیشن سے لیس ہے ہماری کوئی بھی علمی ضرورت اب فون سے پوری ہورہی ہے۔ گوگل کا دعویٰ ہے کہ یہاں سب کچھ ملتا ہے تو جب بھی ہمیں کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے،ہم فون سے رجوع ہوتے ہیں۔ رات کا وقت لائٹ چلی گئی گھر میں لیمپ نہیں ہے، فون ٹارچ کا کام دیتا ہے۔کسی کو ورزش کرنے کی ضرورت ہے فون اطلاع دیتا ہے کہ آپ نے آج کتنے قدم چلے ہیں کتنے کیلوریز برن کی ہے۔ مسلمان نماز کے پابند ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ہر نماز سے پہلے اذان کے ذریعے انہیں اطلاع ملے تو فون کے ایپ اور الارم سے ہم اذان سن سکتے ہیں۔ واٹس اپ تو اب ایک بیماری اور ایک یونیورسٹی ہوگیا ہے ،صبح کوئی منچلا کوئی پوسٹ واٹس ایپ گروپ میں ڈال دیتا ہے اور وہ پوسٹ جس کی نظر سے گزرے وہ اس بات کو ضروری سمجھتا ہے کہ دوسرے کو شیئر کرے، اس طرح شیئر ہوتے ہوتے وہ پوسٹ ساری واٹس ایپ برادری میں گشت کرتا رہتا ہے۔ واٹس ایپ میں اپنی طرف سے خود کچھ لکھنے کے بجائے دوسرے کو شیئر کرنا ایک بیماری سے کم نہیں۔
فون بات کرنے کا آلہ تھا، لیکن اب یہ فوٹو لینے اور ویڈیو لینے کا آلہ بن گیا ہے۔ کچھ دن پہلے کی بات تھی گھر میں کچھ تقریب ہوتو ہم فوٹو گرافر کر بلایا کرتے تھے، فوٹو گرافر اپنے کیمرے میں رنگین یا بلیک اینڈ وائٹ ریل ڈال کر فوٹو لیا کرتا تھا، کچھ اہم مواقع کے فوٹو جل جایا کرتے تھے ،اب نہ کیمرے کی ضرورت ہے نہ ریل کی اب تو ایک سے ایک پکسل کے کیمرے فون میں دستیاب ہیں جن سے موقع بہ موقع تصاویر لی جارہی ہیں، ویڈیو بنائے جارہے ہیں اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے جارہے ہیں۔ بازار میں صرف اچھے کیمرے کے فون ہی زیادہ تعداد میں فروخت ہورہے ہیں۔ فون کے استعمال کا یہ عالم ہے کہ وقفے وقفے سے ہم فون کھولتے ہیں کہ اب کس کا مسیج آیا اب کس کا۔ ماہ رمضان میں تراویح کے دوران چار رکعت کے بعد ترویحہ کے نام سے کچھ دیر بیٹھ کر ذکر کرنے کا حکم ہے لیکن تمام صفوں میں نوجوان چار رکعت ہوتے ہی فون کھول لیتے ہیں کہ دیکھیں کس نے کیا پیغام بھیجا اور ہر صف میں فون کی بتیاں جلتی نظر آتی ہیں۔ گھروں میں چار کمرے ہیں چاروں کمروں میں بچے بڑے الگ الگ بیٹھے ہیں وہ ایک جگہ بیٹھ کر بات نہیں کریں گے جب کہ چاروں فیس بک پر واٹس اپ پر آن لائن نظر آئیں گے ۔ پاس کے کمرے میں ماں بیمار ہے پڑوس میں یا شہر میں رشتے دار بیمار ہے نہ ہم عیادت کریں گے نہ خیریت پوچھیں گے بلکہ فون پر ہی رہیں گے۔ ایک دانشور نے کیا خوب کہا ہے کہ موجودہ زمانے میں ہماری حالت یہ ہے کہwe are the most connected people with most disconnected society.یعنی ہم سماج سے کٹے ہوئے ہیں لیکن فون پر جڑے ہوئے ہیں۔ اب لوگ رقعے بھی فون پر بھیج رہے ہیں تو جواب میں مبارکبادی بھی فون پر دی جارہی ہے۔ کسی کا انتقال ہوا واٹس ایپ پر انا للہ کہہ دیا جارہا ہے۔ فون کو لوگ کاروبار کا ذریعہ بنا رہے ہیں۔ وی لاگنگ اب نوجوانوں کا مقبول پیشہ ہوگیا ہے جس کو بات کرنے کی صلاحیت ہو تو وہ پکوان کے طریقے روز مرہ گھر کی مصروفیات کے ویڈیا بنا کر پیسے کما رہا ہے ۔ اب تو چاٹ جی پی ٹی کا زمانہ آگیا ہے، ہمارے ہر سوال کا مختصر اور تفصیلی جواب چاٹ جی پی ٹی دے رہا ہے۔ فون ہمارا بنک بھی ہے اب نہ نوٹ کی ضرورت ہے نہ بنک کو جانے کی بس ہمارے اکاﺅنٹ میں پیسے ہونے چاہیے اور فون پے گوگل پے سے ہم ہر چھوٹی بڑی ضرورت کی ادائیگی فون سے کرسکتے ہیں اب برقی کا بل یا کسی قسم کا بل بھرنے کے لیے کہیں جانے یا لائن میں ٹہرنے کی ضرورت نہیں بس فون سے ادائیگی ہوجائے گی، ریزرویشن فون سے ٹرین کہاں تک پہنچی دیکھنے کے لیے فون اور اولا گاڑی یا سوئیگی والا کہاں تک پہنچا دیکھنے کے لیے فون ضروری ہے۔ اس لازمی شریک حیات یعنی فون کی کارگزاریاںاور بھی بہت ہیں۔سوشل میڈیا سے بعض لعنتیں بھی وجود میں آگئیں ایک ہی گھر سے ہر کمرے سے کچھ لوگ آن لائن سوشل میڈیا سے جڑے تھے۔ لڑکی نے اپنا نام پاپا کی پری رکھا، لڑکے نے کچھ اور رکھا، دونوں کی شناخت چھپی ہوئی تھی، لڑکی اور لڑکے میں محبت ہوئی دونوں نے ایک انٹرنیٹ کیفے میں ملنے کا پروگرام بنایا لڑکی پہلے پہنچی لڑکاتیار ہوکر ہاتھ میں گلدستہ لیے جیسے ہی انٹرنیٹ کے کیبن میں داخل ہوا وہ بے ہوش ہوتے ہوتے رہ گیا کیوں کہ اس نے جس لڑکی کو محبوبہ سمجھ کر دوستی کی تھی وہ کوئی اور نہیں اس کی بہن تھی۔فون سے ریل کے نام پر چھوٹے چھوٹے مزاحیہ ویڈیو بنانے کا خطرناک رجحان بھی بڑھتا جارہا ہے اور لوگ گھنٹوں ان ریلز کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ ریلز کچھ اور نہیں مختصر دورانیے کے چورن ہیں جو آج نسلوں کے اخلاق بگاڑ رہے ہیں اور وقت کا زیاں ہورہا ہے۔ اس فون نے بھکاریوں کی ایک نئی قسم تیار کی ہے، آج ہر ویڈیو بنانے والا لائک سبسکرائب اور شیئر کی بھیک مانگتا نظرآتا ہے۔ اور جب ہم کسی کا ویڈیو لاکھوں کی تعداد میں دیکھتے ہیں تو ویڈیو بنانے والے کو اچھی خاصی رقم بھی مل رہی ہے۔ ایک مرتبہ شدید گرمیوں میں ماں نے دیکھا کہ اس کی بیٹی بلینکٹ اوڑھے لیٹی ہے اور اس بلینکٹ میں سے نور چھلک رہا ہے ماں نے آواز دے کر پوچھا کہ کیا معاملہ ہے تو پتہ چلتاہے کہ اس کی بیٹی فون پر کسی سے چیاٹنگ کر رہی ہے۔فون کے ہم اس قدر عادی ہوگئے ہیں کہ کسی تقریب میں جائیں وہاں کچھ بزرگ کچھ نئے مہمان سامنے ہوتے ہیں ان سے ہم روبرو بات کرنے کے بجائے فون کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ایک مرتبہ ماں نے سبھی بچوں سے کہا کہ دسترخوان لگ گیا ہے سب مل کر کھانا کھائیں لیکن کوئی دستر خوان پر ایک ساتھ بیٹھ کر کھانے کور اضی نہیں تھا۔ ماں نے کسی ماہر نفسیات سے اس مسئلہ کا حل پوچھا تو ماہر نفسیات نے کہا کہ جس وقت آپ کو سب کو دسترخوان پر بلانا ہے اس وقت گھر کے وائی فائی کا بٹن بند کردیں دیکھئے کیسے سب لوگ فون رکھ کر ایک جگہ جمع ہوتے ہیں۔ فون سے تصویریں لینے اور انہیں سوشل میڈیا پر ڈالنے کی بیماری بڑھتی ہی جارہی ہے اور کچھ بھی کر فیس بک پر ڈال کے مصداق ہم دنیا بھر کی تقاریب اور گھریلو حالات کی تصاویر نہ چاہتے ہوئے بھی دیکھ لیتے ہیں۔ اس لازمی شریک حیات کی عادت کو کچھ لوگوں نے کم کرنے کا ارادہ کیا ۔ماہ رمضان میں کچھ لوگ سوشل میڈیا سے لاگ آﺅٹ ہوجاتے ہیں ایک مہینہ رمضان کے اہتمام میں سوشل میڈیا بند رکھتے ہیں تو انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ جس طرح سگریٹ بیڑی پان سے رمضان میں پرہیز ممکن ہے ویسے ہی اس لازمی شریک حیات سے دوری بھی ممکن ہے۔ اعتکاف میں بھی کچھ لوگوں نے اس کا تجربہ کیا اور کامیاب رہے۔غرض فون نے انسان کو اس قدر مصروف کردیا ہے کہ اب نوجوان بغیر شریک حیات کے ہی اپنی لازمی شریک حیات یعنی فون میں مست ہے۔ پتہ نہیں آگے اور کیا کیا دیکھنے کو ملے گا۔