سیاستمضامین

مدارسِ اسلامیہ نشانے پرابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

ندوستان میں آسام کشمیر کے بعد سب سے زیادہ مسلم آبادی والی ریاست ہے لیکن آج وہاں کے مسلمانوں کی اہمیت کچھ بھی نہیں رہی اور و جھاگ کی مانند ہوگئے جن کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے اور کوئی بھی اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ان کا استعمال کرتا ہے اور انہیں نقصان پہنچا سکتا ہے کسی طرف سے بھی ان کے حق میں نہیں کھڑا ہوتا۔ غیر بی جے پی تقریباً سیاسی جماعتیں انصاف پر ڈٹے رہنے کے بجائے مسلمانوں کے مسئلہ پر چپ کا روزہ رکھنے کو مناسب سمجھ رکھا ہے اور انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ وہ ہم کو نہیں تو اور کس کو ووٹ دیں گے چاہے ہم انہیں گلے سے لگائیں یا جوتے کی نوک پر رکھیں وہ ہم کو ہی ووٹ دیں گے۔ سیاسی بے وزنی شائد آزاد ہند میں ایسی کبھی نہیں دیکھی گئی۔

محمد صمیم (نظام آباد)

گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ملک عزیز کے شمالی و مشرقی ریاستوں کی برسراقتدار بی جے پی حکومت کی جانب سے مسلم مخالف اقدامات کا سلسلہ دراز کیا جارہا ہے۔ ملک کی بہت بڑی سیکولر جماعت کہلانے والی کانگریس پارٹی سے بی جے پی میں چھلانگ لگانے والے آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما (ملک کی سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ سیاسی قائدین کے لئے یہاں کرسی بڑی ہے کرسی ہے تو سب کچھ ہے۔ کرسی جو نہیں تو کچھ بھی نہیں۔سیکولرزم، ہندتوا سب کرسی حاصل کرنے کے ذریعے ہیں) اب بی جے پی کے سرکردہ قائد بننے کے لئے مسلم مخالفت گراف بڑھارہے ہیں۔ بی جے پی کے نقطہ نظر میں NRC کا مسئلہ آسام میں ناکام ہوگیا۔ اس مسئلہ پر آسام میں اب ووٹ ملنے والے نہیں ہے۔ 2024 ء کے لئے اب ریاست میں کسی ایک ایسے ایجنڈہ کی ضرورت تھی جو ملک کی دوسری ریاستوں میں ابھی شروع نہ کی گئی ہو۔ کیونکہ نقالی کرنے سے سیاسی گراف بڑھ نہیں سکتا اس لئے ریاستی وزیر اعلیٰ آسام نے مدارس اسلامیہ کو نشانہ پر لیا۔القاعدہ اور بنگلہ دیش کی ممنوعہ تنظیم انصار اللہ بنگلہ سے تعلق رکھنے کا الزام بعض مدارس کے اساتذہ پر ڈال کر ہیمنت بسوا سرما نے ابھی تک چار مدارسِ اسلامیہ کو منہدم کردیا۔ اور بہت ہی ڈِھیٹ اور بے شرم انداز میں کہا کہ یہ مدارس آسام میں القاعدہ کے اڈے ہیں۔
یہاں دانشور حضرات کا کہنا ہے کہ کیا آسام میں قانون نام کی کوئی چیز ہے یا نہیں۔ کیا کسی پر الزام لگا دیا جانا ہی اس کے گناہگار ہونے کے لئے کافی ہے۔ قانون کی کتابوں میں کیا لکھا ہے اس کو کتابوں میں ہی بند رہنے دیں عملی طور پر کیا ہورہا ہے وہی دیکھ لیں۔ چار مدارس اسلامیہ کو ڈھادیا گیا۔ امت ابھی بھی سو رہی ہے کچھ زیادہ نہ ہی شور مچا اور نہ ہی احتجاج۔ مسلمانوں کی اس بے حسی کو دیکھتے ہوئے آسام کی ہیمنت بسواس سرما کی بی جے پی حکومت وہاں کے مسلمانوں پر اور دباؤ کو بڑھا دیا اور آسام کے مسلمانوں کے نمائندہ وفد کے ساتھ ایک اجلاس وزیر اعلیٰ کی صدارت میں منعقد ہوئی جس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ آسام کے تمام مدارس مخصوص جماعتوں یا تنظیموں سے الحاق ہوں جن میں جمعیت علماء، جماعت اسلامی، سنت والجماعت اور اہل حدیث شامل ہیںوہیں دینی مدارس کی بعض تنظیمیں بھی شامل ہیں ساتھ ہی اس بات کا بھی پابند بنایا گیا کہ آسام کے باہر کا کوئی فرد اگر وہ کسی مسجد کا امام ہو یا دینی مدرسہ کا استاد اس کی جنم کنڈلی پولیس کو فراہم کی جائے۔ مسلمانوں کے وفد نے مدارس کے منہدم کرنے کے خلاف گفتگو کی اور کسی فرد پر الزام لگا تب اس کے خلاف کاروائی کرے مدارس کو منہدم نہ کرنے کی استدعا کی۔ حکومت نے 6 ماہ کا وقت دیا کہ وہ اس وقت مدارس کا الحاق و پولیس کو غیر آسامی اماموں کی مکمل جانکاری فراہم کردے۔ ایک ایسی ریاست جہاں کے قابل لحاظ تعداد ملازمت کے لئے دیگر ریاستوں کو نقل مکانی کرتے ہیں اس ریاست کے وزیر اعلٰی کی جانب سے دیگر ریاست کے افراد آسام روز گار کے لئے آنے پر پولیس کو جانکاری فراہم کرنے کا حکم دیتے کچھ تو شرم انی چاہئے تھی لیکن چونکہ معاملہ ایک دبی کچلی ملت کا ہے اس لئے اس پر تمام ملک خاموش ورنہ اگر یہ معاملہ دیگر طبقوں سے تعلق رکھتا اب تک آسام کا وزیر اعلیٰ اس فرمان کو واپس لے لیتا اور ملک سے معافی مانگتا۔
اب آسام میں شائد حکومت اور مسلمانوں دونوں کو بھی قرار اگیا ہوگا۔ آسام کی بی جے پی حکومت کے وزیر اعلیٰ و سابقہ کانگریسی قائد ہیمنت بسواس سرما بھی شائد اپنا مقصد حاصل کرلئے اور انہیں بھی اب بی جے پی پارٹی میں صرف ریاستی قائد نہیں بلکہ ملکی قائدین کی صف میں کھڑا کر لیا گیا ہے اسی لئے تو حیدرآباد کی گنیش اتسو سمیتی کی جانب سے انہیں گنیش وسرجن جلوس کو خطاب کرنے کی دعوت ملی۔ یعنی بی جے پی کا ایک نیا چہرہ۔ جو مسلم مخالفت میں ائین و قانون کی دھجیاں اڑاسکتا ہے۔ آسام کے مسلمانوں کو چھ ماہ کی مہلت مل گئی۔ اس مہلت میں وہ مدارس اسلامیہ کے قانونی کاروائی مکمل کر نے کی سعی کریں گے۔ہندوستان میں آسام کشمیر کے بعد سب سے زیادہ مسلم آبادی والی ریاست ہے لیکن آج وہاں کے مسلمانوں کی اہمیت کچھ بھی نہیں رہی اور و جھاگ کی مانند ہوگئے جن کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے اور کوئی بھی اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ان کا استعمال کرتا ہے اور انہیں نقصان پہنچا سکتا ہے کسی طرف سے بھی ان کے حق میں نہیں کھڑا ہوتا۔ غیر بی جے پی تقریباً سیاسی جماعتیں انصاف پر ڈٹے رہنے کے بجائے مسلمانوں کے مسئلہ پر چپ کا روزہ رکھنے کو مناسب سمجھ رکھا ہے اور انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ وہ ہم کو نہیں تو اور کس کو ووٹ دیں گے چاہے ہم انہیں گلے سے لگائیں یا جوتے کی نوک پر رکھیں وہ ہم کو ہی ووٹ دیں گے۔ سیاسی بے وزنی شائد آزاد ہند میں ایسی کبھی نہیں دیکھی گئی۔
آسام میں مدارس اسلامیہ پر بلڈوزر چالانے کی خبروں کی اشاعت پر بلڈوزر بابا کب خاموش بیٹھے رہتے شائد وہ پریشان بھی ہوگئے ہوں گے کہ مسلم مخالف میری چھبی سخت متاثر ہورہی ہے اور بی جے پی میں میرا قد کم ہورہا ہے تب یوگی نے ان مدارس اسلامیہ کا سروے کروانے کا اعلان کیا جو حکومت سے امداد نہیں لیتے یعنی مدارس اسلامیہ کا سروے۔ ساتھ ہی اپنی چھبی برقرار رکھنے کے لئے غیر قانونی تعمیر کا الزام لگاتے ہوئے یوپی میں ایک مدرسہ کو منہدم کردیا۔ اب شائد بابا کو چین کی نیند آئی ہوگی کہ اب نا کوئی ان کی چھبی پر ڈاکہ ڈال سکتا اور نا ہی کوئی شب خون مار سکتا ہے۔ آسام کے وزیر اعلیٰ نے بغیر کسی احکام کے اجرائی کے ہی سروئے کا کام مسلمانوں سے ہی غیر محسوس طریقہ سے کروالیا۔ چھ ماہ میں کسی نا کسی اسلامی جماعتوں یا مدرس اسلامیہ کی تنظیم سے الحاق ہونا ہے اس طرح مدارس کی مکمل تفصیلات دینی جماعتوں یا مدارس کی تنظیموں کے پاس پہنچ جاتا ہے اور حکومت وہاں سے حاصل کرلئے گی۔ جبکہ اپنے مدارس چلانے کی دستور اجازت دیتا ہے اور کسی جماعت یا تنظیم سے مدارس اسلامیہ کو الحاق کرنا سرے سے دستور کی جانب سے دئے گئے حق کی نفی ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مدارس اسلامیہ کی حقیقی تعداد نا حکومت کے پاس ہے نہ ہی دینی جماعتوں کے پاس ہے اور نا ہی تنظیم المدارس کے پاس ہے۔ البتہ دیوبند مکتبہ فکر کے مدارسِ اسلامیہ کا ملک میں ایک جال ہے اور محتاط اندازہ کے لحاظ سے موجودہ مدارسِ اسلامیہ میں سے، قریب70 سے زائد فیصد مدارسِ اسلامیہ کا تعلق دیوبند مکتبہ فکر سے ہے۔ 20 فیصد اس سے کچھ کم یا زیادہ اہل سنت والجماعت کے مدارس جماعت اسلامی اور اہل حدیث مدراس کی تعداد تین یا پانچ فیصد ہوسکتی ہے۔ متحدہ نظام آبادضلع یعنی موجودہ نظام آباد اور کاماریڈی ضلع کے مدراسِ اسلامیہ کی تعداد کے تعلق سے مختلف علماء سے گفتگو ہوئی۔متحدہ ضلع نظام آباد میں قریب 70 دینی مدارس ہیں 50 کے قریب موجودہ نظام آباد ضلع اور 18 یا 19 مدارس کاماریڈی ضلع میں واقع ہے۔ آسام اور یوپی کی حکومتوں کی جانب سے مدارسِ اسلامیہ کے خلاف کاروائی و سروے کروانے کے علان کے، بعد ملک کے دینی جماعتوں اور مدارسِ اسلامیہ کی تنظیموں کی جانب سے مدارسِ اسلامیہ کے زمہ داران کو ہدایت دی جارہی ہے کہ وہ مدارسِ کے تمام دستاویزات کو قانونی طور پر مکمل کر لیں اگر کسی مقام پر عمارت کی تعمیر غیر قانونی ہے تو جرمانہ بھر کر قانونی بنالیں اگر کسی مدرسہ کی سوسائٹی یا ٹرسٹ نہیں ہے تو وہ بنالیں وغیرہ ذالک۔
دستاویزات کو قانونی طور پر درست کرنے سے کسی کو کوئی انکار نہیں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا دستاویزات کے قانونی طور پر درست ہونے پر حکومتوں کی جانب سے کوئی کاروائی نہیں ہوگی؟ حکومتوں کا طرز عمل ہم کو کچھ اور ہی بتارہا ہے۔ ایسے میں ہم کو کیا کرنا چاہئے۔دیکھئے کیا عدالتیں ہم کو انصاف دے رہی ہے؟ فیصلہ بابری مسجد کا ہو یا تین طلاق کا۔ عدالت عظمی کا فیصلہ کیاہے سب جانتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نےCAA کے خلاف شاہین باغ احتجاج پر کیا فیصلہ دیا اور پھر یہی عدالت عظمیٰ نے کسانوں کے احتجاج پر کیا فیصلہ دیا۔ دونوں کو یکجا کریں پھر سوچیں کہ کیا عدالت پر ہمارا مکمل بھروسہ صحیح ہوگا۔ وسیم بریلوی کا یہ شعر عدالتوں کی ترجمانی کر رہا ہے ۔
فیصلہ لکھا ہوا رکھا ہے پہلے سے خلاف
آپ کیا خاک عدالت میں صفائی دیں گے
کسی بھی جمہوری ملک میں عوام اپنا حق لینے کے لئے ہمیشہ جدوجہد کرتی ہے اور ساتھ ہی اپنے دستوری حق کی حفاظت کے لئے چوکس رہتی ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ تا ہے کہ گزشتہ کم و بیش 20 سال سے ملت کو اپنے حق کے لئے جدوجہد کرنے کے لئے کسی بھی دینی جماعت یا تنظیموں سیاسی جماعتوں نے اواز نہیں دی بلکہ ہر ظلم و زیادتی پر ملت کو یہ بتا کر یا خوف دلا کر خاموش کروایا جاتا رہا ہے کہ اپ کا احتجاج بی جے پی کو یا ہندو احیاء پرست کو مضبوط کرسکتا ہے اس لئے خاموش رہیں اور اللہ سے مدد مانگیں اور کبھی استغفار کرنے کی دہائی دی گئی۔ لیکن اسی دوران ان تمام دینی مذہبی سیاسی جماعتوں کے جلسے ہوتے رہے۔ صرف CAA اور NRC کے مسئلہ پر احتجاج کے علاوہ کسی دوسرے مسئلہ پر ملت نے احتجاج نہیں کی۔ اگر ملت اپنے حق کے لئے جدوجہد شروع کردے اور اپنے حق کو حاصل کرنے کے لئے پر امن احتجاج کے اپنے حق کو استعمال کرے تو یقین جانئے حکومت اپ کے سامنے جھک جائے گی لیکن اپنے حق کے کو حاصل کرنے کے لئے بھی قربانی دینی پڑتی ہے یہ قربانی وقت کی صلاحیت کی مال و منال کی ہوسکتی ہے تو کبھی پابند سلاسل بھی ہو ہونا پڑ تا ہے۔ ملک میں ملت کی قیادت کو بھی سوچنا چاہئے اور انہیں اب اپنی اپنی خواب گاہوں سے نکنا چاہئے اور ملت کو جدوجہد کی ڈگر پر لیجاناچاہئے یاد رکھیں حق کے لئے جو قوم قربانی نہیں دیتی و قوم اپنی ازادی کو بھی برقرار نہیں رکھ سکتی اور انہیں ملک میں آئے دن کوئی نا کوئی مصیبت پریشانی میں مبتلاء رہنا پڑے گا۔ بقول عامر عثمانی ؎
یا رنج و بلا کا خوف نہ کر یا نام نہ لے آزادی کا
جب ولولہ پرواز نہیں الزام نہ لے آزادی کا
۰۰۰٭٭٭۰۰۰