کیرالہ کے صحافی صدیق کپن کو سپریم کورٹ نے ضمانت دے دی
چیف جسٹس، جسٹس یو یو للت کی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی بنچ نے کہا کہ ہر شخص کو اظہار خیال کی آزادی کا حق ہے۔ بنچ نے کہا کہ صدیق کپن یہ ظاہر کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ متاثرہ کو انصاف کی ضرورت ہے۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعہ کے روز کیرالہ کے صحافی صدیق کپن کو ضمانت دے دی جنہیں 5 اکتوبر 2020 کو اترپردیش پولیس نے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے سخت قانون (یو اے پی اے) کے تحت گرفتار کیا تھا۔
کپن اور دیگر افراد ایک دلت لڑکی کی عصمت دری اور قتل کے واقعہ کی نیوز کوریج کے لئے ہاتھرس جا رہے تھے۔ سپریم کورٹ نے صدیق کپن کو ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں چھ ہفتوں تک دہلی میں رہنے کی ہدایت دی اور کہا کہ اس کے بعد وہ کیرالہ شفٹ ہو سکتے ہیں۔
چیف جسٹس، جسٹس یو یو للت کی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی بنچ نے کہا کہ ہر شخص کو اظہار خیال کی آزادی کا حق ہے۔ بنچ نے کہا کہ صدیق کپن یہ ظاہر کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ متاثرہ کو انصاف کی ضرورت ہے… سپریم کورٹ نے پوچھا کہ کیا یہ قانون کی نظر میں جرم ہے؟
یوپی حکومت کی پیروی کرنے والے سینئر وکیل مہیش جیٹھ ملانی نے کہا کہ 5 اکتوبر کو صدیق کپن نے فساد بھڑکانے کے لئے ہاتھرس جانے کا فیصلہ کیا تھا۔
بنچ نے مزید کہا کہ 2011 میں بھی نربھیا کے لیے انڈیا گیٹ پر احتجاج ہوا تھا۔ بنچ جس میں جسٹس ایس رویندر بھٹ اور جسٹس پی ایس بھی شامل ہیں، کہا کہ بعض اوقات تبدیلی لانے کے لیے احتجاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ اس کے بعد قوانین میں تبدیلی آئی۔
اترپردیش حکومت نے ایک تحریری جواب میں کہا کہ تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ عرضی گزار (کپن) شریک ملزمان (بشمول پی ایف آئی لیڈر رؤف شریف) کے ساتھ مل کر مذہبی اختلافات کو ہوا دینے اور انہیں پھیلانے کی بڑی سازش کا حصہ ہیں۔
مزید دعویٰ کیا گیا کہ کپن کے لیپ ٹاپ اور دہلی میں اس کے کرائے کے مکان سے برآمد ہونے والے دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح پی ایف آئی کی موجودہ قیادت بنیادی طور پر سابق سیمی کے ارکان پر مشتمل ہے۔
واضح رہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے قبل ازیں کپن کی ضمانت کی عرضی کو مسترد کر دیا تھا جس کے بعد کپن نے ہائی کورٹ کے حکم کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا رخ کیا۔