ہندو اور مسلمان بزرگوں کے یہاں ایک دوسرے کی مقدسات کا احترام
دنیا کے نقشہ میں ہندوستان ایک ایسا ملک ہے، جو صدیوں سے مذاہب کا گہوارہ رہا ہے، آج اگر امریکہ ویورپ میں مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ رہتے اور بستے ہیں تو یہ قابل تعجب نہیں؛
دنیا کے نقشہ میں ہندوستان ایک ایسا ملک ہے، جو صدیوں سے مذاہب کا گہوارہ رہا ہے، آج اگر امریکہ ویورپ میں مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ رہتے اور بستے ہیں تو یہ قابل تعجب نہیں؛ اس لئے کہ یہ مختلف ملکوں سے تعلیم اورکسب معاش کے لئے مغربی دنیا میں پہنچے ہیں، یہ تارکین وطن وہ ہیں، جن کو مغرب نے زبردستی اپنا غلام بے دام بنا لیا تھا، اہل مغرب نہ صرف نو آبادیاں قائم کرتے تھے اور وہاں کے مقامی لوگوں کو اپنا غلام بنا کر رکھتے اور ان کے معاشی وسائل سے فائدہ اٹھاتے تھے؛ بلکہ چوں کہ خود اُن کے یہاں زرعی ماہرین کی کمی تھی اور جفا کش مزدور دستیاب نہیں تھے؛ اس لئے وہ مشرقی ملکوں سے لوگوں کے ایک انبوہ کو پکڑتے اور اپنے ملکوں کو لے جاتے اور ان سے مفت مزدوری کا کام لیتے، پھر ان مزدوروں کو آزادی اور عزت ووقار سے محروم رکھتے ، جن کی حالت جانوروں سے بھی بدتر ہوتی۔
ان مظلوم مزدوروں کی کئی نسلیں گزر گئیں، اور آنے والی نسلیں ان ہی ملکوں کے باشندہ قرار پائے، آباء واجداد کی پیشانی پر غلامی کا جو داغ لگایا گیا تھا، وہ آہستہ آہستہ مدھم ہوتا گیا، پھر ان کے ہم نسل لوگوں کا بھی ایشیا اور افریقہ کے ملکوں کی طرف سفر ہوا، ایک تو اس لئے کہ ان کے نسل کے لوگ وہاں موجود تھے، دوسرے اس لئے کہ مغربی استعماریت پسندوں نے ان ملکوں کو معاشی اعتبار سے کنگال کر دیا تھا اور انہیں مغرب میں ملازمت کے مواقع حاصل ہوئے، یہ مجبوری تھی جس نے آج کے ترقی یافتہ ملکوں میں مختلف مذہبی گروہوں کو جمع کر دیا ہے اور اب لادینی ریاست کے تصور نے ان کو آزادی سے ہمکنار کر دیا ہے۔ لیکن ہندوستان میں مختلف مذاہب کے ماننے والے شیروشکر ہو کر ایک قوم کی طرح رہے، انھوں نے اپنی مرضی سے اپنے پسندیدہ مذہب کو قبول کیا اور اس پر عمل بھی کرتے رہے، وہ ایک آزاد قوم کی طرح اس سرزمین میں رہے؛ اس لئے وہ ایک دوسرے کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے؛ بلکہ بھائیوں کی طرح زندگی گزارتے تھے، ایک قوم کی دوسری قوم پر حکومت نہیں ہوتی تھی؛ بلکہ ایک بادشاہ، مہاراجہ کی اس زمانہ کے دستور کے مطابق حکومت ہوتی تھی اور بحیثیت رعایا تمام قوموں کے افراد برابر ہوتے تھے اور اپنے مذہب پر عمل کرنے میں آزاد ہوتے تھے، دیکھا جائے تو ہندوستان میں محمد بن قاسم کی آمد سے 1857 تک مختلف بادشاہ گزرے، وہ الگ الگ خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے؛ لیکن ایک پوری قوم اور ایک پورا خاندان حکمراں نہیں ہوتا تھا؛ بلکہ ایک فرد کی حکمرانی ہوتی تھی اور بحیثیت رعایا سب لوگ برابر ہوتے تھے، انصاف کا پیمانہ ایک ہی ہوتا تھا، فوج اور نظمِ حکومت میں سبھوں کی شمولیت ہوتی تھی، تعلیم کا دروازہ سب پر کھلا ہوا تھا۔
یہ آزادی اور مساوات کا نتیجہ تھا کہ مختلف مذاہب کے ماننے والے اس ملک میں بستے اور رہتے تھے، اگر ایک خاندان کے باشاہ پر دوسرے خاندان کے حکمراں حملہ آور ہوتے تو پوری قوم مل کر ا ن کا مقابلہ کرتی، اگر ہندو مہاراجہ کی رعایا مسلمان ہوتی تو وہ اپنے راجہ کی حمایت میں مسلمانوں سے بھی لڑتے تھے، اور اگر مسلمان بادشاہ کی کسی سے جنگ ہوتی، چاہے وہ غیر مسلم راجا ہی کیوں نہ ہو، تو ان کی رعایا کے ہندو بھی پوری قوت کے ساتھ اپنے بادشاہ کا دفاع کرتے تھے، کہیں یہ تصور نہیں تھا کہ ایک قوم دوسری قوم کی غلام ہے، افسوس کہ موجودہ دور میں کچھ نفرت کے سوداگر شہر سے دیہات تک نفرت کا زہر پھیلا رہے ہیں، اس سرزمین میں محبت وبھائی چارے کا جو رنگ تھا، اس کو انھوں نے بھلا دیا، ان کو محبت کی مٹھاس کے بجائے نفرت کی کڑواہٹ میں زیادہ لذت محسوس ہوتی ہے؛ اس لئے ضرورت ہے کہ ملک کے ہندو اور مسلمان بزرگوں نے ایک دوسرے کی مذہبی کتابوں اور شخصیتوں کے بارے مین جو محبت واحترام کا رویہ اختیار کیا ہے، اس کو نئی نسل کے سامنے پیش کیا جائے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی میں ہندو بزرگوں نے اسلامی علوم بالخصوص پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر بہت فراخ دلی کے ساتھ قلم اٹھایا ہے، اور مسلم مصنفین وشاعروں نے بھی ہندو مقدس شخصیتوں کے بارے میں بہت احترام کے ساتھ اپنی باتیں کہی ہیں، مسلم حکمرانوں میں اکبر نے متعدد ہندو مذہبی مآخذ کو فارسی میں منتقل کرایا، اس نے ’’رزم نامہ‘‘ کے نام سے مہا بھارت کا ترجمہ کرایا، جو کوروں اور پانڈوؤں کی داستان جنگ ہے، اس نے بھگوت گیتا کا ترجمہ کرایا جو شری کشن جی کے مواعظ ونصائح کا مقبول مجموعہ ہے، اس نے رامائن ، اپنیشداور اتھروید کا ترجمہ کرایا (رود کوثر: ۱۶۴) علامہ شبلی نعمانیؒ نے اپنے مضمون میں متعدد مسلم حکمرانوں کا ذکرکیا ہے، جنھوں نے ہندوؤں کے مختلف علوم وفنون کی کتابوں کا سنسکرت سے عربی وفارسی میں ترجمہ کرایا، مسلمانوں کے معتبر علماء نے کبھی ہندو بھائیوں کی مقدس شخصیتوں کے بارے میں کوئی بری بات نہیں کہی؛ بلکہ ان کا نام احترام کے ساتھ لیا، علماء نے یہ تصور بھی دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں اپنے پیغمبر بھیجے ہیں، یہ اور بات ہے کہ اکثر قوموں نے اپنے پیغمبروں کی تعلیمات کو مسخ کر دیا اور پس پشت رکھ دیا، ہو سکتا ہے کہ ہمارے ہندو بھائی جن شخصیتوں کو خدا کا اوتار مانتے ہیں، وہ اصل میں خدا کے پیغمبر رہے ہوں، یہ ایسا تصور ہے کہ جو مسلمانوں کو اسلامی نقطۂ نظر سے اس بات کا پابند بناتا ہے کہ وہ جائز حدود میں ان شخصیتوں کے احترام کو ملحوظ رکھیں،اور ان کی بے احترامی سے اپنی زبان وقلم کو بچائیں، اب یہی دیکھئے کہ علامہ اقبال جیسے بلند پایہ اسلامی شاعر نے شری رام جی کو ’’امام الہند ‘‘ کا لقب دیا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں صدیوں حکومت کرنے کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ بے شمار قدیم ترین مندر یہاں اپنی شان وشوکت کے ساتھ موجود ہیں، جن کو کسی حکمراں نے چھوا تک نہیں، ظاہر ہے کہ یہ مذہبی رواداری کی واضح مثال ہے!
اسی طرح ہندو مصنّفین نے بھی اسلامی علوم کی بہت ہی نمایاں خدمات انجام دی ہیں؛ چنانچہ پریم سرن پرنت نے قرآن مجید کا ترجمہ دیوناگری میں کیا جو ۱۹۴۰ء میں آگرہ سے شائع ہوا، یہ سورہ انعام تک کا ترجمہ ہے، ۱۹۳۸ء میں چلو کوری نرائن راؤ کا ترجمۂ قرآن اشاعت پذیر ہوا، جو آندھرا پردیش میں لسانیات کے استاذ تھے، ان کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ قرآن مجید امن کا داعی ہے، ۱۹۷۴ء میں رمیش لوکیش راؤ نے تلگو زبان میں قرآن مجید کی ۱۰۶۵ ؍ آیات کا ترجمہ کیا، جس کی حیدرآباد ہی سے اشاعت ہوئی، سیتا دیو ورما کا ترجمہ قرآن ۱۹۹۰ء میں شائع ہوا، یہ سنسکرت زبان میں ہے اور اس کا نام ’’ سنسکرتم قرآنم‘‘ ہے، سیتا دیوجی نے سورۂ فاتحہ اور سورۂ بقرہ کے کچھ حصہ کا ترجمہ کیا ہے، جو ۱۹۱۴ء میں شائع ہوا، بنگالی زبان میں گریش چندر نے تین جلدوں میں قرآن مجید کا ترجمہ کیا ہے، جس کی اشاعت ۱۸۸۶ء میں ہوئی ہے، قرآن مجید کا ایک محتاط ہندی ترجمہ ونے کمار اوستھی نے کیا ہے، جو ۱۹۸۳ء میں شائع ہوا ہے، یہ مولانا عبد الماجد دریابادی کے ترجمہ سے مستفاد ہے، اور حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ نے اس پر مقدمہ لکھا ہے، اس موقع پر مشہور ومقبول ہندو مذہبی رہنما ونوبا بھاوے کی ’’روح القرآن‘‘ کا تذکرہ نہ کیا جائے تو بات ادھوری رہ جائے گی، منتخب آیات کا ترجمہ ہے۔
قرآن مجید کے بعد اسلامی علوم میں سب سے زیادہ اہمیت سیرت نبوی کو حاصل ہے، سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ہندو اہل علم نے بہت فراخ دلی کے ساتھ اپنی نگارشات پیش کی ہیں، ہندوستان کے ادباء میں پریم چندر (۱۸۸۵- ۱۹۳۶ء) کا نام کون نہیں جانتا، وہ ایک کامیاب افسانہ نگار اور ناول نگار تھے، انھوں نے اسلامی تہذیب پر اپنے مضمون میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش کئے ہوئے تصور مساوات کو پوری قوت وانصاف کے ساتھ پیش کیا ہے، پروفیسر راما کرشن راؤ نے Mohammad The Prophet Of Islam کے عنوان سے سیرت پر مختصر رسالہ لکھا ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خراج عقیدت پیش کرنے کے علاوہ اسلام اور پیغمبر اسلام پر بہت سے اعتراضات کے جواب بھی دئیے ہیں، ڈاکٹر این کے سنگھ ڈائریکٹر انٹرنیشنل سنٹر فار ریلیجیس اسٹڈیز دہلی نے اپنی کتاب Prophet Mohammad and his companions میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کی سیرت پر پورے انصاف وعظمت کے ساتھ گفتگو کی ہے، جناب راجندر نارائن لال نے ’’اسلام، ایک خدائی نظام‘‘ کے عنوان سے ہندی میں ایک کتاب لکھی ہے، اور بہت سیر چشمی کے ساتھ اسلام اور پیغمبر اسلام کی عظمت کو خراج تحسین پیش کیا ہے، اور تعجب کے ساتھ اس بات کا ذکر کیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں فتح مکہ کے وقت ایک شخص کی بھی جان نہیں گئی، جب کہ دیگر دھارمک پُرانوں کے قصوں میں اوتاروں اور دیوتاؤں کے ذریعہ سے مخالفین کے خوف ناک قتل عام کا تذکرہ مذکور ہے، سوامی لکشمی آچاریہ (مولود: ۱۹۵۳) ابھی باحیات ہیں، انھوں نے ہندی میں ’’اسلام آتنک واد یا آدرش ؟ ‘‘ لکھی ہے، جس میں اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں بہت ہی انصاف اور خوبی کے ساتھ روشنی ڈالی ہے، ہندوستان میں اسلام کے بارے میں پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کا پردہ بھی چاک کیا ہے، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ذکر کو ان الفاظ پر ختم کیا ہے:
پیغمبر حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کا مقصد ِاصلی دنیا میں سچائی اور امن کا قیام اور دہشت گردی کی مخالفت ہے؛ لہٰذا اسلام کو تشدد اور دہشت گردی سے جوڑنا سب سے بڑا جھوٹ ہے، اگر کوئی (تشدد) کا واقعہ ہوتا ہے تو اس کو اسلام سے یا پوری مسلم امت سے جوڑا نہیں جا سکتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر ہندوستان کے غیر مسلم بھائیوں نے بڑی اہم کتابیں اور رسائل لکھے ہیں، جن کا مختصر تذکرہ درج ذیل ہے:
سوانح عمری حضرت محمد صاحب بانی اسلام: شردھے پرکاش دیوجی، (طبع اول لاہور:۱۹۰۷ء)
رسول عربی: گرودت سنگھ دارا، (طبیع اول اعظم گڑھ، ۱۹۲۴ء)
حیات محمد: گووند دایا جنڈہوک بیکانیری (طبع چمن لال ساہنی اینڈ برادرز لاہور:۱۹۳۲ء)
پیغمبر اسلام: پنڈت سندر لال، سیلمی پریس الٰہ آباد، (۱۹۳۳ء)
آفتاب حقانیت یعنی عرب کا چاند، سوامی لکشمن پرشاد، روڈی پنجاب، (۱۹۳۴ء)
حضرت محمد اور اسلام: ڈاکٹر پنڈت سندر لال، (طبع اول الٰہ آباد، ۱۹۴۲ء)
حضرت محمداور اسلام: بابو کنج لال ایم اے، (جیدبرقی پریس دہلی)
پیغمبر اسلام: رگھوناتھ سہائے (یہ دراصل میلاد نامہ ہے)
گوبند رام سیٹھی پرشاد: اتحاد پریس لاہور (۱۹۴۳)
حضرت محمد صاحب کی سوانح عمری : پروفیسر لاجپت رائے
پیغمبر صحرا، کے ایل گابا، (دہلی ۲۰۰۴)انگریزی سے ترجمہ پروفیسر احمد الدین مارہروی، یہ The Prophet of the desert کا اردو ترجمہ ہے، یہ کتاب مصنف نے اسلام میں داخل ہو جانے کے بعد لکھی ہے، مصنف نے اس کو اپنے مسلم نام خالد لطیف گابا (K.L. Gauba) کے نام سے شائع کیا ہے؛ لہٰذا اس کو غیر مسلم مصنّفین کی کتب میں شمار نہیں کرنا چاہئے۔
اگر شعروسخن کی طرف آئیں تو ہندو شعراء نے جس محبت وفراخ دلی کے ساتھ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نعتیہ اشعار کہے ہیں، وہ اپنی مثال آپ ہیں، یہاں چند ناموں کا ذکر مناسب ہوگا:
مہاران کلیان سنگھ (۱۷۴۹ — ۱۸۲۲ء) دہلی کے رہنے والے تھے، اور عاشق تخلص اختیار کرتے تھے، وہ اپنی نعت میں کہتے ہیں:
محمد ہیں محبوبِ پروردگار
محمد ہیں، مطلوب پروردگار
مرزا غالب کے فیض یافتہ شنکر لال (۱۸۶۰ — ۱۸۹۰ء) جو ساقی تخلص کرتے تھے، اپنے ایک شعر میں کہتے ہیں:
صفات ذات احمد لکھ سکوں کیا میری طاقت ہے
خیال اہل دانش جب یہاں مکڑی کا جالا ہے
پنڈت امرناتھ مون ساحر (۱۸۶۳– ۱۹۴۲ء) کی نعت کا ایک شعر ہے:
ہے سایۂ نور باعثِ ایجاد ومغفرت
جس کے وجود جود سے رحمت نہال ہے
سلطنت آصفیہ کے وزیر اعظم مہاراجہ کشن پرشاد شاد (۱۸۶۴–۱۹۴۰ء) کی نعتوں کا مجموعہ ’’ ہدیۂ شاد‘‘ طبع ہو چکا ہے، انھوں نے مدحت نبوی میں بڑے خوبصورت اشعار کہے ہیں، وہ اپنی نعت گوئی پر جذبۂ شکر کے ساتھ کہتے ہیں:
مشغلہ نعت ِنبی کا ہے مجھے شکرِ خدا
بعد مدت کے یہ ہاتھ آیا ہے مقدر مجھ کو
نعتیہ ادب کی دنیا میں چودھری دِلُّو رام کوثری (۱۸۸۲– ۱۹۳۳ء) کا نام بھی ایک حرف روشن کی طرح ہے، انھوں نے ایسے عقیدت مندانہ اشعار کہے ہیں کہ ان سے جو شخص واقف نہ ہو، اس کو شبہ بھی نہ ہوگا کہ یہ کسی ہندو کا شعر ہے، ایک نعت کے مقطع میں خود اپنے بارے میں کس خوبصورتی کے ساتھ کہہ گئے ہیں:
لے کے دِلُّو رام کو حضرت گئے جنت میں جب
غل ہو ا ،ہندو بھی محبوب خدا کے ساتھ ہے
ہندو شعراء نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بڑے خوبصورت سلام بھی کہے ہیں، اس سلسلہ میں جگن ناتھ آزاد کا سلام دنیائے نعت میں ستاروں کے درمیان چاند کی طرح ہے، جس کا اختتام اس بامعنیٰ شعر پر ہوتا ہے:
سلام اس ذات اقدس پر حیات جاودانی کا
سلام آزاد کا، آزاد کی رنگیں بیانی کا
بارگاہ نبوت میں ہندو شعراء کا خراج عقیدت ایسا عنوان ہے، جس کے لئے ایک مضمون یا ایک خطبہ کافی نہیں، کتاب یا کتاب کی کئی جلدیں مطلوب ہیں، بہر حال اس سے اندازہ کیا جا سکتاہے کہ ہمارے بزرگوں میں ایک دوسرے کے مذہبی مقدسات کا کس درجہ احترام تھا۔
اسلامی علوم کی خدمت کا ایک اہم پہلو نشرواشاعت ہے؛ چنانچہ بہت سے غیر مسلم ناشرین اور مطابع نے اسلامی کتابوں کی اشاعت کی گراں قدر خدمت انجام دی ہے، اس سلسلہ میں منشی نول کشور کا نام سب سے اوپر ہے، وہ ۱۸۳۶ء میں پیدا ہوئے، اور ۱۸۵۸ء میں انھوں نے نول کشور پریس اور بکڈپو قائم کیا، کہا جاتا ہے کہ انھوں نے ۱۸۵۸ء سے ۱۹۵۰ء تک چھ ہزار کتابیں شائع کیں، ان کی نشریات میں تفسیر، حدیث، فقہ، اصول فقہ، علم کلام اور تصوف ہر فن کی اعلیٰ کتابیں شامل ہیں، تفسیر میں جلالین اور تبیان فی اعراب القرآن ، حدیث میں سنن ابو داؤد، سنن ابن ماجہ، مشکوٰۃ شریف، تیسیر الاصول الی جامع احادیث الرسول اور بخاری پر قسطلانی کی شرح ارشاد الساری ان ہی کے ذریعہ منظر عام پر آئی، اصول فقہ میں توضیح تلویح، حسامی، شرح مسلم الثبوت اور اصول الشاشی جیسی اہم کتابوں کو انھوں نے اہل علم کی بارگاہ تک پہنچایا، فقہ میں فتاویٰ عالمگیری، درمختار، شرح وقایہ، جامع الرموز ، ہدایہ، فتح القدیر، فتاویٰ قاضی خان، قدوری، الاشباہ والنظائر جیسی کتابیں جن سے آج کوئی مفتی اور فقہ کا مدرس بے نیاز نہیں ہو سکتا، منشی نول کشور ہی کے ذریعہ قلمی نسخوں سے مطبوعہ نسخوں کی شکل میں جلوہ گر ہوئیں، اسی طرح علم کلام میں شرح عقائد نسفی، شرح خیالی اور شرح مواقف، نیز تصوف میں احیاء العلوم، مثنوی مولانا روم، مکتوبات امام ربانی اور تاریخ میں فتوح الشام اور تاریخ طبری جیسی اہم کتابوں کی سوغات بر صغیر کے اہل علم تک اسی مکتبہ کے ذریعہ پہنچ پائیں، یہ ان کا اتنا بڑا احسان ہے کہ اسلامی دنیا اس سے کبھی سبک بار نہیں ہو سکتی۔
غرض کہ ہندوستان میں ایک دوسرے کے مذہب کی مقدس کتابوں اور شخصیتوں کے احترام اور اُن کی قدردانی کا ماحول بنا رہا، یہی اس دھرتی کا مزاج ہے اور اسی میں ملک کا مفاد ہے، کاش ابنائے وطن اپنی اس روایت کی طرف لوٹ آئیں!!!
٭٭٭