شمال مشرق

آسام میں مزید 299 بنگالی مسلم خاندان بے گھر

ایک شخص نے جس نے اپنا گھر ڈھیر ہوتے دیکھا‘ کہا کہ وہ گزشتہ 18 برس سے اس علاقہ کا مکیں رہا ہے۔ اس نے کہا کہ اس سال فصل اچھی آئی تھی۔ میں نے بیگن‘ پتہ گوبھی اور پھول گوبھی اگائے تھے اور تھوڑی پیداوار بازار میں بیچی تھی تاہم 70فیصد فصل اس مہم میں برباد ہوگئی۔

نارتھ لکھم پور(آسام): آسام کے ضلع لکھم پور میں محکمہ جنگلات کی اراضی سے ناجائز قابضین کو بے دخل کرنے کی مہم کا آج دوسرا دن تھا۔ 250 ہیکٹر اراضی میں آباد 299 کنبوں میں بیشتر بنگالی زبان بولنے والے مسلمان ہیں۔ انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ وہ اپنا سارا سامان اکٹھا نہ کرسکے۔

متعلقہ خبریں
آسام کے اسمبلی حلقہ سماگوڑی میں بی جے پی اور کانگریس ورکرس میں ٹکراؤ
کجریوال کے خلاف بی جے پی کی ”جھوٹا کہیں کا“ مہم کا آغاز
مسلم تحفظات کے30 سال کی تکمیل، محمد علی شبیر کو تہنیت پیش کی جائے گی:سمیر ولی اللہ
روہت-یشسوی کی ڈبل سنچری، ہندوستان کو 162 رن کی برتری
مسلمانوں کی جان، املاک، عبادت گاہوں اور تجارت پر جان لیوا خطرات منڈلارہے ہیں۔ مفکرین کی رائے

ان کی تیار فصلوں کو اجاڑدیا گیا۔ پاوا ریزرو فارسٹ میں تقریباً 450 ہیکٹر اراضی کو قبضوں سے آزاد کرانے کی مہم منگل کی صبح شروع ہوئی تھی۔ پہلے دن موضع مغلی میں 200ہیکٹر اراضی مسطح کردی گئی۔ یہاں 201 کنبے بے گھر ہوگئے۔

 ضلع نظم ونسق کے ایک سینئر عہدیدار نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ مہم آج صبح 7:30 بجے شروع ہوئی اور ہمیں مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ موضع آدھاسونا میں قبضے برخاست کرنے کی مہم کے لئے 70 بلڈوزر ایکسکیویٹرس اور ٹریکٹرس منگوائے گئے جبکہ 200 سیول عہدیداروں کے علاوہ پولیس اور سی آر پی ایف کے 600 جوان پہرہ دے رہے تھے۔

حشمت عالم (نام تبدیل) نے جس نے اپنا گھر ڈھیر ہوتے دیکھا‘ کہا کہ وہ گزشتہ 18 برس سے اس علاقہ کا مکیں رہا ہے۔ اس نے کہا کہ اس سال فصل اچھی آئی تھی۔ میں نے بیگن‘ پتہ گوبھی اور پھول گوبھی اگائے تھے اور تھوڑی پیداوار بازار میں بیچی تھی تاہم 70فیصد فصل اس مہم میں برباد ہوگئی۔

حکام‘ ٹریکٹرس اور بلڈوزروں سے فصلوں کو اجاڑرہے تھے۔ مچھلی پالن کے لئے بنے تالابوں میں ایکسکیویٹرس سے مٹی ڈالی جارہی تھی۔ آل آسام مائناریٹی اسٹوڈنٹس یونین (آمسو) نے بے دخلی کی اس مہم کو ”غیرانسانی اور یکطرفہ“قراردیا۔

اس نے ضلع لکھم پور کے سوناپور علاقہ میں کچھ دیر احتجاج کیا۔ متاثرین میں ایک رحیمہ خاتون نے کہا کہ کھیتی باڑی روزی روٹی کا ہمارا واحد ذریعہ تھی۔ جس علاقہ میں بے دخلی کی مہم چلائی جارہی ہے وہاں کوئی اسکول یا مسجد نہیں ہے۔ یہ اراضی زرعی مقاصد کے لئے استعمال ہوتی تھی۔ ہماری روزی روٹی داؤ پر لگ گئی ہے۔

 بعض متاثرین کا دعویٰ ہے کہ تقریباً 500 ہندو کنبوں کو چھوڑدیا گیا۔ ان کے خلاف کوئی مہم نہیں چلائی گئی۔ اگر حکومت انکروچمنٹ کے تعلق سے واقعی سنجیدہ ہے تو اسے ہندو کنبوں کو بھی ہٹادینا چاہئے۔