کرناٹک

88سالہ شخص کی والد کے بقایاجات کیلئے1979 سے قانونی لڑائی

کرناٹک ہائی کورٹ نے ایک 88سالہ شخص کو بے حس سرخ فیتہ شاہی کا ایک اور بدقسمت شکار قرار دیتے ہوئے حکام کو گاؤں کے عہدیدار کے1979 تا 1990 بقایہ جات جاری کرنے کی ہدایت دی۔

بنگلورو: کرناٹک ہائی کورٹ نے ایک 88سالہ شخص کو بے حس سرخ فیتہ شاہی کا ایک اور بدقسمت شکار قرار دیتے ہوئے حکام کو گاؤں کے عہدیدار کے1979 تا 1990 بقایہ جات جاری کرنے کی ہدایت دی۔

متعلقہ خبریں
بچپن کی شادی کا شکار دو نابالغ لڑکیوں کو معاوضہ دینے کا حکم
نرملا سیتارمن کے خلاف تحقیقات پر کرناٹک ہائی کورٹ کی روک
شیوکمار کو راحت، سی بی آئی کی عرضی خارج
فرقہ وارانہ ہلاکتوں کے شکار افراد کے ورثاء کو25 لاکھ روپئے معاوضہ
پریتی کے خاندان کو10لاکھ روپے ایکس گریشیاء

گاؤں کے عہدیدار کا 88سالہ بیٹا‘37 ہزار روپئے کے بقایہ جات حاصل کرنے دہائیوں سے قانونی جنگ لڑرہا ہے۔ جسٹس پی ایس دنیش کمار اور جسٹس ٹی جی شیواشنکرے گوڑا کی ڈیویژن بنچ نے اپنے حالیہ فیصلے میں کہا کہ یہ افسوسناک ہے کہ ولیج آفیسر بے حس سرخ فیتہ شاہی کا ایک اور شکار بنا اور معاوضہ حاصل کیے بغیر اس کی موت ہوگئی۔

ان کا بیٹا اپنے والد کے حق کے لیے ہنوز لڑرہا ہے۔ یہ بھی تعجب خیز ہے کہ ریاست نے کمزور موقف اختیار کیا کہ درخواست گزار کے والد معاوضہ کے حقدار اس لیے تھے کہ انہیں ایڈ ہاک معاوضہ منظور نہیں ہوا تھا۔“

بنگلورو کے راجہ جی نگر کے ساکن آنجہانی ٹی کے شیشادری اینگر کے بیٹے ٹی ایس راجن 2021ء میں رٹ پٹیشن کے ساتھ ہائی کورٹ سے رجوع ہوئے۔ ان کے والد چکمگلورو ضلع کے کدور تعلقہ کے تھنگالی موضع میں ”پٹیل“ تھے۔

ہائی کورٹ کے احکام اور 1997ء میں اپیل برقرار رہنے کے بعد کرناٹک ریاست کے پٹیل سنگھا کی درخواست قبول کی گئی اور راجن کے والد بھی ایک استفادہ کنندہ تھے۔ احکام میں اگست 1979 تا جون1990 ماہانہ 100روپئے کے ہمدردی بھتہ کا ذکر کیا۔

راجن کے والد نے بھتہ کے لیے درخواستیں داخل کیں اور نمائندگیاں کیں مگر بھتہ ارسال نہیں ہوا۔ باپ کی موت کے بعد راجن نے کدور کے تحصیلدار سے نمائندگی کرتے ہوئے ان سے ادائیگی کی درخواست کی۔

2017ء میں یہ مسترد ہوگئی۔ اس کے بعد راجن کرناٹک ریاستی اڈمنسٹریٹیو ٹریبونل سے رجوع ہوئے اور اس نے بھی درخواست مسترد کردی جس کے بعد انہوں نے ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔

تحصیلدار نے درخواست گزار کی درخواست اس بنیاد پر مسترد کردی کہ ان کے والد کو ایڈہاک الاؤنس منظور نہیں ہوا تھا۔ راجن کے وکیل نے ہائی کورٹ میں دلیل دی کہ ریاستی حکومت کا یہ موقف قانون کے مطابق نہیں ہے۔

کیوں کہ حکومت کو ہی ایڈ ہاک الاؤنس منظور اور جاری کرنا تھا۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں ریاست کے دلائل مسترد کردیے او رکہا کہ ریاستی حکومت کی جانب سے یہ دلیل کہ چوں کہ درخواست گزار کو ایڈ ہاک معاوضہ منظور نہیں کیا گیا اسی لیے وہ بقایہ جات کے دعوے کا حقدار نہیں، حیرت انگیز ہے۔

ہم ریکارڈ کرسکتے ہیں کہ حکومت کو اس سے اختلاف نہیں کہ درخواست گزار کے والد تھنگالی گاؤں کے پٹیل تھے۔ہائی کورٹ نے تحصیلدار کی دلیل کو مسترد کردیا اور کہا کہ اگر اس بات پر کوئی تنازعہ نہیں کہ درخواست گزار کے والد تھنگالی موضع کے ولیج آفیسر تھے تو ریاست کو بقایہ جات کے دعوے پر غور کرنا چاہیے تھا۔

اس کے مدنظر تحصیلدار کی پیش کردہ وجہ کہ درخواست گزار بقایہ جات کا حقدار نہیں کیوں کہ اس کے والد کو ایڈ ہاک الاؤنس نہیں ملا، پوری طرح ناقابل قبول ہے۔“

ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ ریاست کو 1979 سے 1990 تک 100روپئے ماہانہ ایڈ ہاک الاؤنس کے طور پر بقایہ جات ادا کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ 1990 سے 1994 تک الاؤنس اور بقایہ جات ماہانہ500 روپئے کی شرح سے ادا کیا جانا چاہیے۔ اس نے دعوے کی تاریخ سے رقم پر 10فیصد سادہ سود ادا کرنے کا حکم دیا۔ یہ ادائیگی اندرون تین ماہ کرنی ہوگی۔