بھارت

سی اے اے پر دو نوڈل ایڈوکیٹس کا تقرر، 6 دسمبر کو آئندہ سماعت

بنچ نے نوڈل ایڈووکیٹس سے کہا کہ وہ درخواستوں میں تنازعہ کے اہم نکات کو شامل کرتے ہوئے جغرافیائی اور مذہبی درجہ بندی کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیجیٹل طریقے سے ایک یا دو اہم دستاویز تیار کرکے متعلقہ عرضیوں کے وکلاء کے ساتھ شیئر کریں۔

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) 2019 کے جواز کو چیلنج کرنے والی عرضیوں سے متعلقہ دستاویزات مرتب کرنے کے لئے پیر کو دو نوڈل ایڈوکیٹس کا تقرر کیا ہے۔

چیف جسٹس یو اتم للت اور جسٹس ایس رویندر بھٹ اور جسٹس بیلا ایم ترویدی کی بنچ نے درخواست گزاروں میں شامل انڈین یونین مسلم لیگ (آئی یو ایم ایل) کی وکیل پلوی پرتاپ اور مرکزی حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے وکیلوں میں سے ایک کانو اگروال کو نوڈل وکیل کے طور پر مقرر کیا اور اس معاملے کی اگلی سماعت کے لئے 6 دسمبر کی تاریخ مقرر کی ہے۔

بنچ نے نوڈل ایڈووکیٹس سے کہا کہ وہ درخواستوں میں تنازعہ کے اہم نکات کو شامل کرتے ہوئے جغرافیائی اور مذہبی درجہ بندی کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیجیٹل طریقے سے ایک یا دو اہم دستاویز تیار کرکے متعلقہ عرضیوں کے وکلاء کے ساتھ شیئر کریں۔

بنچ نے نوڈل وکلاء سے کہا کہ وہ تنازعہ کے اہم نکات کو مرتب کرتے وقت جغرافیائی اور مذہبی درجہ بندی کو ذہن میں رکھیں۔

سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے عدالت میں کہا کہ اس معاملے میں 232 درخواستیں داخل کی گئی ہیں۔ اس میں آسام سے 50 اور تریپورہ سے تین کو چھوڑ کر دیگر کے معاملے میں مرکزی حکومت نے اپنا جواب داخل کیا ہے۔ سالیسٹر جنرل نے آسام اور تریپورہ کے جغرافیائی محل وقوع کا حوالہ دیتے ہوئے اس معاملے میں جواب داخل کرنے مزید وقت کی درخواست کی۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ صرف چند دن کا وقت دیا جاسکتا ہے۔

سپریم کورٹ نے 12 ستمبر کو مرکزی حکومت سے کہا تھا کہ وہ 31 اکتوبر کو ہونے والی اگلی سماعت سے پہلے درخواستوں پر اپنا جواب داخل کرے۔

مرکزی حکومت نے ایک حلف نامہ داخل کرکے جواب داخل کیا، جس میں سی اے اے کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کی مخالفت کی گئی ہے۔

مرکزی حکومت نے اپنے 150 صفحات کے حلف نامے میں کہا ہے کہ سال 2019 میں پیش کئے گئے سی اے اے کا کسی بھی ہندوستانی شہری کے قانونی، جمہوری یا سیکولر حقوق پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ سی اے اے صرف ایک محدود قانون سازی کا اقدام ہے، جو اس کے دائرہ میں محدود ہے اور شہریت سے متعلق موجودہ قانونی حقوق یا حکمرانی کو کسی بھی طرح متاثر نہیں کرتا ہے۔

سی اے اے 2019 پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں منظور ہونے کے بعد 12 دسمبر 2019 کو صدر کی بھی منظوری مل گئی۔

عدالت عظمیٰ نے 18 دسمبر 2019 کو سی اے اے 2019 پر روک لگانے کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا، لیکن اس کے جواز کی جانچ کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد ملک بھر میں زبردست احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔