روزنامہ منصف کو اشتہارات کی مسدودی حکومت کی تعصب پسندی عیاں، کانگریس کی شبیہ داغدار:مفتی سید صغیر احمد نقشبندی
قارئین وعوام الناس میں غلط تاثر جاتا ہے اور حکومت کی اہمیت گھٹنے لگتی ہے اور اس کی ساکھ متاثر ہوتی ہے بالخصوص اردو داں حضرات مشکوک وشبہات کا شکار ہوجاتے ہیں۔

حیدرآباد: کثیر الاشاعت روزنامہ اخبار منصف سے جو سرکاری اشتہارات شائع کئے جاتے تھے محض غلط باور کرائے جانے کی وجہ سے ان کی اشاعت روک دی گئی۔ حکومت تلنگانہ کی اس نامناسبت روش پر قارئین کو بہت تعجب وافسوس ہوا۔مولانا حافظ وقاری سید صغیر احمد نقشبندی مجددی قادری شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ نے کہاکہ اس عمل سے تعصب پسندی وناکامی ونااہلی ظاہر ہوتی ہے۔
قارئین وعوام الناس میں غلط تاثر جاتا ہے اور حکومت کی اہمیت گھٹنے لگتی ہے اور اس کی ساکھ متاثر ہوتی ہے بالخصوص اردو داں حضرات مشکوک وشبہات کا شکار ہوجاتے ہیں۔
یہ غلط فیصلہ موجودہ حکومت کی زوال وبدنامی کا سبب بن سکتا ہے جبکہ سرکاری اشتہارات کی کثیر اشاعت ہر اخبار سے اس کی شہرت ومقبولیت کی ضامن ہے اور اخبارات حکومت کی کارکردگی کی تشہیر کے بہترین ذرائع ہیں حالانکہ اخبار ”منصف“ ریونت ریڈی حکومت کے کارناموں کو نہایت عمدہ ونمایاں طورپر پیش کرتا آرہا ہے۔
اس کی ستائش وتعریف میں کبھی کوئی کمی نہیں کی۔ یہ سچ ہے کہ بعض اوقات حد سے زیادہ مدح سرائی نقصان کا باعث بنتی ہے۔ اور اخبارات حق گوئی وآزادی رائے کے ترجمان ہوتے ہیں اس کی وضاحت کانگریس حکومت کے اہم قائد راہول گاندھی اکثر کہتے آرہے ہیں کہ میڈیا واخبارات حق گوئی سے کام نہیں لے رہے ہیں جس کی وجہ سے ملک کو بہت بڑا خطرہ لاحق ہورہا ہے۔
موجودہ حکومت کے سیاسی بصیرت رکھنے والے ہمدردان کو چاہئے کہ چیف منسٹر کی توجہ اس طرف مبذول کروائیں اور ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سابق کی طرح اخبار منصف سے سرکاری اشتہارات کی اشاعت کی اجازت کا حکم جلد از جلد جاری کرے تاکہ تمام اخبارات کے ساتھ حکومت کے مساویانہ سلوک اور منصفانہ رویہ کا اظہار ہو اور منصف کی اشاعت میں سہولت ہوجائے۔
ہندوستان کامشہور ومعروف کثیر الاشاعت روزنامہ منصف، انصاف پر مبنی غیر جانبدار صحافتی ذمہ داری بخوبی ادا کر تے ہوے ملک و عوام کے مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے حکومت کو متوجہ کرتے ہوے عوامی خدمت کر رہاہے۔
انہوں نے کہا کہ منصف کی یہ خصوصیت رہی ہیکہ اس نے حکومتوں کے اچھے کام کو سراہا اور عوام تک پہنچا تا رہا اورمخالف عوام پالیسی پر بے باک تنقید بھی کی جو ایک ایمان دار صحافت کا یہ طرہ امتیاز ہے اور جمہوری ریاست واقتدار کیلئے ضروری ہے اور ملک و حکومت کے استحکام کے لیے روح کا کام کر تی ہے۔
افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس سازش کے پیچھے حکومت کے کچھ اقلیتی ملازمین کا ہاتھ نظر آتا ہے، جو اپنے ذاتی مفادات اور عہدوں کی حفاظت کے لئے حکومت کو خوش کرنے میں مصروف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ایک عوامی منتخب حکومت چند اقلیتی ملازمین کی خوشنودی میں اس قدر اندھی ہو چکی ہے کہ وہ ایک آزاد میڈیااداروں کی زبان دبانے پر اتر آئی ہے۔ جمہوریت میں صحافت کا بنیادی مقصد حکومت کی کارکردگی کا محاسبہ کرنا اور عوام کے مسائل کو اجاگر کرنا ہوتا ہے لیکن یہاں معاملہ الٹا نظر آ رہا ہے، جہاں حکومت اپنے ہی اداروں کے غیر ذمہ دار ملازمین کے دباؤ میں آ کر ایک غیر جانبدار اخبار کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
اُنہوں نے مزید کہاکہ ادارہ نے حکومت کی مثبت پالیسیوں کو سراہا، مگر جب حکومت کی خامیوں، اقلیتوں سے کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی، اوقافی جائیدادوں پر قبضوں، اقلیتی اداروں کی ناکامی اور عوامی مسائل کو بے نقاب کیا، تو حکومت نے انتقامی کارروائی کے طور پر اس کے سرکاری اشتہارات بند کردیئے۔
انہوں نے کہا کہ یہ واضح اشارہ ہے کہ حکومت چند اقلیتی ملازمین کے اشاروں پر کام کر رہی ہے، نہ کہ عوامی مفاد میں۔ جو افراد حکومت میں رہ کر صرف چاپلوسی، خوشامد اور اقتدار کی وفاداری میں مصروف ہیں، وہی دراصل جمہوری اصولوں کے دشمن ہیں۔