شمالی بھارت

بچپن کی شادیوں پر امتناع کا قانون ہر ہندوستانی پر لاگو : کیرالا ہائی کورٹ

کیرالا ہائی کورٹ نے رولنگ دی ہے کہ بچپن کی شادیوں پر امتناع کا قانون بابتہ 2006 بلالحاظ مذہب اس ملک کے ہر شہری کے لئے قابل اطلاق ہے کیونکہ ہر ہندوستانی پہلے اس ملک کا شہری ہے بعد میں کسی مذہب کا ماننے والا۔

کوچی: کیرالا ہائی کورٹ نے رولنگ دی ہے کہ بچپن کی شادیوں پر امتناع کا قانون بابتہ 2006 بلالحاظ مذہب اس ملک کے ہر شہری کے لئے قابل اطلاق ہے کیونکہ ہر ہندوستانی پہلے اس ملک کا شہری ہے بعد میں کسی مذہب کا ماننے والا۔

جسٹس پی وی کنہی کرشن نے 2012 میں پلکڑ میں ایک’بچپن کی شادی‘ کے خلاف درج کئے گئے کیس کو کالعدم کرنے کی ایک درخواست پر اپنے حالیہ حکم میں کہا کہ بلالحاظ مذہب یہ قانون ہر ایک کے لئے قابل اطلاق ہے چاہے کوئی شخص ہندو ہو یا مسلمان‘ عیسائی یا پارسی وغیرہ۔

درخواست گزاروں نے جن میں نابالغ لڑکی کا باپ بھی شامل تھا، استدلال پیش کیا کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے اسے مذہبی طور پر یہ حق حاصل ہے کہ وہ بلوغت کی عمر کو یعنی 15 سال کی عمر کو پہنچتے ہی شادی کرسکتی ہے۔

عدالت نے 15 جولائی کو اپنے حکم میں کہا کہ کسی بھی شخص کو پہلے ہندوستان کا شہری ہونا چاہئے اِس کا مذہب بعد میں آتا ہے۔ مذہب کی حیثیت ثانوی اور شہریت کی حیثیت اولین ہے۔

اسی لئے میرا یہ سوچا سمجھا فیصلہ ہے کہ بلالحاظ مذہب چاہے کوئی شخص ہندو ہو، مسلمان ہو، عیسائی ہو یا پارسی وغیرہ، یہ قانون ہرایک پر نافذ ہوتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ بچپن کی شادی سے بچے اپنے بنیادی انسانی حقوق بشمول حق تعلیم، صحت اور استحصال سے حفاظت کے حق سے محروم ہوجاتے ہیں۔

بچپن کی شادیوں اور حمل ٹھہرنے سے مسائل صحت جیسے نوزائیدہ بچوں کی اموات، ماں کی موت اور جنسی طور پر منتقل ہونے والے انفیکشن کا خطرہ پیدا ہوتا ہے۔عدالت نے کہا کہ بچپن کی شادی کی وجہ سے لڑکیاں اسکول ترک کرنے‘ اپنی تعلیم اور مستقبل کے مواقع کو محدود کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔

کم عمر دلہنیں اکثر گھریلو تشدد اور استحصال کا نشانہ بنتی ہیں۔ بچپن کی شادی سے غربت برقرار رہ سکتی ہے۔ افراد اور برادریوں کے لئے معاشی مواقع محدود ہوجاتے ہیں۔ عدالت نے مزید کہا کہ بچپن کی شادی سے جذباتی اور نفسیاتی صدمہ پہنچ سکتا ہے۔

بچے مایوسی اور اضطراب کا شکار ہوسکتے ہیں۔ سماجی طور پر یکاوتنہا ہوجاتے ہیں اور اپنے خاندان و برادری سے کٹ جاتے ہیں، اِس کے علاوہ بچپن کی شادی بین الاقوامی انسانی حقوق قانون اور روایات کی بھی خلاف ورزی ہے۔

a3w
a3w