ایشیاء

بریکنگ نیوز: عمران خان کو فوری رہا کرنے سپریم کورٹ کا حکم

سپریم کورٹ کے حکم پر عمران خان کو عدالت میں پیش کیا گیا، عمران خان کو 15 گاڑیوں پر مشتمل سکیورٹی قافلے میں سپریم کورٹ لایا گیا، عمران خان کو کمرہ عدالت میں پہنچانےکے بعدکمرہ عدالت کو بند کردیا گیا۔

اسلام آباد: پاکستانی سپریم کورٹ نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے فوری رہا کرنےکا حکم دے دیا۔ ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ سےدوبارہ رجوع کرنےکا حکم دیا ہے۔

متعلقہ خبریں
6ریاستوں میں 10حساس تنصیبات عوام کی پہنچ سے باہر
بیٹے نے خلیجی ممالک میں قرض لیا۔ قرض خواہوں کا باپ سے مطالبہ
پاکستان کی ترقی کیلئے عمران خان کو5 سال جیل میں رکھنا ضروری : پاکستانی وزیر
پاکستان اصل مسئلہ نہیں: غلام نبی آزاد
شاہ رخ خان کی فلم جوان ستمبر میں ریلیز ہوگی

جیو نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کے حکم پر عمران خان کو عدالت میں پیش کیا گیا، عمران خان کو 15 گاڑیوں پر مشتمل سکیورٹی قافلے میں سپریم کورٹ لایا گیا، عمران خان کو کمرہ عدالت میں پہنچانےکے بعدکمرہ عدالت کو بند کردیا گیا۔

عمران خان سپریم کورٹ میں پیشی کے موقع پر خود چلتے ہوئے کمرہ عدالت تک پہنچے۔ سپریم کورٹ میں پیشی کے موقع پر عدالت کے باہر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیےگئے اور پولیس کی جانب سے عدالت کے باہر سے غیر متعلقہ گاڑیوں کو بھی ہٹادیا گیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب ایک شخص کورٹ آف لاء میں آتا ہے تو مطلب کورٹ کے سامنےسرینڈر کرتا ہے، ہم سمجھتے ہیں عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کل کیس کی سماعت کرے، ہائی کورٹ جو فیصلہ کرے وہ آپ کو ماننا ہوگا۔

سپریم کورٹ میں عمران خان کی گرفتاری کو گزشتہ روز چیلنج کیا گیا تھا جس میں پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی ہے، ہائیکورٹ کا عمران خان کی گرفتاری قانونی قرار دینے کا حکم کالعدم قرار دیا جائے اور عمران خان کو عدالت کے سامنے پیش کرنےکا حکم دیا جائے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔

سماعت کے آغاز پر عمران خان کے وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ آئے تھے، وہ بائیو میٹرک کرارہے تھے جب رینجرز کمرے کا دروزاہ توڑ کر داخل ہوئی تو انہوں نے عمران خان کے ساتھ بدسلوکی کی اور ان کو گرفتار کر لیا۔

سپریم کورٹ نے آئی جی اسلام آباد کوعمران خان کوساڑھے 4بجے پیش کرنےکا حکم دیا تھا اور کہا تھاکہ کوئی سیاسی رہنما اور کارکن عدالت نہیں آئےگا۔ عدالتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے عمران خان کو سخت سیکورٹی میں سپریم کورٹ لایا گیا ہے۔

عمران خان کو عدالت میں پیش کیا گیا تو اٹارنی جنرل ، آئی جی اسلام آباد بھی سپریم کورٹ میں موجود تھے۔ کمرہ عدالت میں پہنچنے پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی، آپ روسٹرم پر آجائیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں آپکی گرفتاری کے بعد تشدد کے واقعات ہورہے ہیں ہم ملک میں امن چاہتے ہیں یہ بات کی جارہی ہے کہ آپ کےکارکنان غصے میں باہر نکلے ہم آپ کو سننا چاہتے ہیں بتائیں۔

قبل ازیں پاکستانی سپریم کورٹ میں سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت میں چیف جسٹس نے تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ نیب نے توہین عدالت کی ہے،کسی فرد نے عدالت کےسامنے خود سپردگی کی تو اس کو گرفتار کرنے کا کیا مطلب ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ درخواست پر سماعت کرہی ہے۔

ڈان نیوز کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم میں شامل سینئر وکیل حامد خان نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان ایک کیس میں ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ آئے تھے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ عمران خان اسلام آباد ہائی کورٹ میں کس کیس میں پیش ہوئے تھے؟حامد خان نے بتایا کہ عمران خان بائیو میٹرک کے لیے موجودہ تھے جب ان پر دھاوا بولا گیا، رینجرز نے عمران خان کے ساتھ بد سلوکی کی اور پر تشدد طریقے سے انہیں گرفتار کرلیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی ریکارڈ کے مطابق ہائی کورٹ میں درخواست ضمانت دائر ہوئی لیکن سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئی، جو مقدمہ مقرر تھا وہ بھی دیکھ لیتے ہیں۔

وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ بائیو میٹرک کے بغیر درخواست دائر نہیں ہوسکتی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہی بات ہے کہ عمران خان عدالت کے احاطہ میں داخل ہوچکے تھے، کسی کوانصاف کے حق سے کیسے محروم رکھا جاسکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کا احترام ہوتا ہے، کورٹ کی پارکنگ سے نیب نے ایک ملزم کو گرفتار کیا تھا، عدالت نے اس گرفتاری کو واپس کروایا تھا جس کے بعد نیب نے یقین دہانی کرائی تھی کہ احاطہ عدالت سےگرفتاری نہیں کریں گے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کتنے لوگوں نے عمران خان کو گرفتار کیا؟ وکیل عمران خان نے بتایا کہ 80 سے 90 افراد نے گرفتار کیا۔

انہوں نے کہا کہ 90 رینجرز اہلکار احاطہ عدالت میں داخل ہوئے تو عدالت کی کیا توقیررہی؟ کسی بھی فرد کو احاطہ عدالت سے کیسے گرفتار کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں عدالت میں توڑ پھوڑ کرنے پر وکلا کے خلاف کارروائی کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ کسی فرد نے عدالت کےسامنے سرینڈر کردیا تو اس کو گرفتار کرنے کا کیا مطلب ہے؟ کوئی شخص بھی آئندہ انصاف کے لیے خود کو عدالت میں محفوظ تصور نہیں کرے گا، گرفتاری سے قبل رجسٹرار سے اجازت لینی چاہیے تھی۔

وکیل شعیب شاہین نے بتایا کہ عمران خان کی گرفتاری کے وقت عدالتی عملے کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وارنٹ کی قانونی حیثیت نہیں اس کی تعمیل کا جائزہ لیں گے، عدالت کے سامنے سرینڈر کرنے کے عمل کو سبوتاژ نہیں کیا جاسکتا۔

وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان پر حملہ ہوا، ان سے سیکیورٹی بھی واپس لے لی گئی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی اٹارنی جنرل آف پاکستان کو طلب کرتے ہیں، وارنٹ کی تعمیل کیسے ہوئی سب سے اہم ہے، ہر کسی کو عدالت کے اندر تحفظ ملنا چاہیے۔انہوں نے ریمارکس دیے کہ نیب نے تو ہین عدالت کی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ہر کوئی چاہتا ہے دوسرا قانون پر عمل کرے، یہ عدالتوں کے احترام کا طریقہ کار نہیں۔

a3w
a3w