مضامین

اولاد، والدین کے لئے نعمت بھی اور ذمہ داری بھی

آسان مسنون نکاح مہم کے مختلف پروگراموں سے ڈاکٹر رفعت سیما ڈائریکٹر جامعہ مکارم الاخلاق و کنوینر تلنگانہ مہم کے خطابات

آسان مسنون نکاح مہم کے مختلف پروگراموں سے ڈاکٹر رفعت سیما ڈائریکٹر جامعہ مکارم الاخلاق و کنوینر تلنگانہ مہم کے خطابات

متعلقہ خبریں
بچوں پر آئی پیڈ کے اثرات
بچوں کی ناکامی کا ذمہ دار کون؟
اللہ کی رضا مندی والدین کی رضا مندی میں ہے: حضرت مولانا حافظ پیر شبیر احمد کا بیان
6سال سے کوما میں موجود لڑکے کی موت، والدین کا ڈاکٹر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ
ناجائز مال میں میراث

‘اسلام کے معاشرتی احکام میں سب سے آسان احکام نکاح کے بتائے گئے ہیں، کیوں کہ اگر  یہ احکام مشکل ہوتے،تو نکاح کرنا دشوار ہوجاتا اس لئے شریعت نے اس کا طریقہ بہت آسان رکھا ہے تاکہ اس پاکیزہ عبادت کو ادا کرنا سب کے لئے قابل عمل رہے، لیکن ہم نے اللہ کے بنائے ہوئے قانونِ نکاح کو اپنی خواہشات کے تابع  کرلیا ہے جس کی وجہ سے آج نکاح کرنا مشکل اور بدکاری کی زندگی گذارنا آسان ہوگیا ہے، نبی کریم صلعم نے لڑکی کے انتخاب میں دینداری کو ترجیح دینے کا حکم دیا جبکہ ہم نے خوبصورتی کو اپنے انتخاب کا معیار بنایا جس سے بیوٹی پارلر تو آباد ہوگئے لیکن گھر آباد نہ ہوسکے۔

اللہ کے رسول نے کم خرچ والے نکاح کو بابرکت قرار دیا جبکہ ہم نے بھاری جہیز،جوڑے کی رقم اور دیگر مطالبات کے ذریعہ نکاح کو بے برکت بنادیا، اللہ کے رسول نے اپنی نسلوں کی حفاظت کے لئے جلد نکاح کی ترغیب دی، جبکہ ہم نے معاشی فراوانی اور اسٹیٹس کو معیار بناکر اپنی اولاد کی شادیوں میں دیر کردی جس سے بے راہ روی عام ہوگئی، اس طرح نکاح کو جو صالح معاشرہ کی بنیاد ہے اس کو ہم نے کھوکلا کردیا ہے، تو بھلا پھر معاشرے کی اصلاح کیسے ہوگی اور اللہ کی مدد کیوں کر آئے گی ”ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر رفعت سیما، ڈائریکٹر جامعہ مکارم الاخلاق و ریاستی کنوینر آسان مسنون نکاح مہم نے خواتین کے ان پروگراموں میں کیا جو آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اس مذکورہ مہم کے دوران شہر حیدرآباد کے مختلف علاقوں میں منعقد کئے جارہے ہیں۔

اس ہفتہ 5/ نومبر کو معین باغ،  عیدی بازار، میں واقع مسعودہ فنکشن ہال میں جبکہ 7/ نومبر کو زندہ طلسمات روڈ پر واقع مدرسہ دار التوحید میں اور اس سے قبل الخیر سنٹر، عنبرپیٹ میں اور پٹیل نگر میں خواتین کے جو  اجتماعات ہوئے ان میں انہیں مدعو کیا گیا۔ڈاکٹر رفعت سیما نے اپنے خطابات میں خواتین کے اندر اس احساس ذمہ داری کو بیدار کرنے کی کوشش کی جو نکاح کو آسان اور مسنون طریقہ سے رائج کرنے کے سلسلے میں خواتین پر عائد ہوتی ہے، کیوں کہ کسی لڑکی کو پسند کرنے سے لیکر اس کو بہو بنا کر گھر میں لانے اور بسانے تک ساری ذمہ داریاں خواتین ہی انجام دیتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خواتین کو اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ اولاد جتنی عظیم نعمت ہے اس سے کہیں زیادہ ایک عظیم ذمہ داری بھی ہے جسکی وجہ سے ماؤں کے قدموں تلے جنت رکھی گئی ہے، جب مائیں تقوی اور دینداری سے آراستہ ہوکر اپنی اولاد کی تربیت کریں گی تو اس کی اثرپزیری انکی اولاد کے ذریعہ دنیا کے ہر شعبہ حیات تک پہنچے گی اور یہیں سے ایک صالحہ انقلاب رونما ہوگا۔”

 مختلف پروگراموں میں خواتین نے بھی  اپنے احساسات کا اظہار کیا، مثلا الخیر سنٹر کے اجتماع میں  حسنء صاحبہ نے تمام کی طرف سے نمائندگی کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ ہم خواتین اپنی اولاد کے نکاح کو آسان بنانے میں ایک دوسرے کی مدد گار بنیں گی،  جبکہ بعض نے کہا کہ ہم اپنے بچوں کا نکاح آسان کرنا چاہتے ہیں لیکن خاندان کا دباؤ بہت رہتا ہے،  کچھ نے بتایا کہ انکی بیٹیان بار بار ریجیکٹ ہونے کی وجہ سے ذہنی انتشار اور ڈپریشن میں مبتلا ہورہی ہیں جس سے پورا گھر متاثر ہوتا ہے، کسی نے کہا کہ لڑکے والے کو دکھانے اور انکی خاطر مدارات میں ہمارا ہزاروں کا خرچ ہوجاتا ہے،  وغیرہ۔  اسی طرح چند دن قبل عالمات و فاضلات کی تنظیم *الداعیات الی الخیر*، کی جانب سے ڈاکٹر رفعت سیما صاحبہ کو *آسان و مسنون نکاح کی عمل آوری میں خواتین کا کردار*،  اس عنوان پر آنلائن خطاب کے لئے مدعو کیا گیا جس میں ڈیڑھ سو سے زائد  عالمات اور دانشور خواتین نے مختلف ملکوں سے شرکت کی جو حیدرآباد سے تعلق رکھتی تھیں ڈاکٹر رفعت سیما کے خطاب کے بعد ان عالمات نے جو مختلف دینی تحریکات سے جڑی ہوئی ہیں۔

اس بات کا اظہار کیا کہ اس اہم معاشرتی موضوع پر خواتین میں بیداری لانے کے لئے اس کو اپنی اپنی تحریکی و دعوتی جدوجہد کاحصہ بنانا ازحد ضروری ہے، مدرسہ دارالتوحید، میں طالبات کو ٹیلرنگ اور مہندی کورس کی تکمیل پر سرٹیفکیٹس بھی دئیے گئے۔  محترمہ صالحہ، محترمہ سمیرہ، محترمہ انیس، محترمہ نکہت، اور محترمہ صفیہ نے اپنے پروگراموں میں نظامت کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ خواتین کی دینی بیداری کے نتیجہ میں نکاح کو آسان کرنا اور معاشرتی برائیوں پر قابو پانا ممکن ہو سکے گا، اور اس کاز کے لئے مستقل کام کرنے کی ضرورت ہے۔