تلنگانہ

مسلمانوں کو وقف جائیدادوں سے محروم کرنے کی سازش: مولانا حافظ پیر شبیر احمد

صدر جمیعتہ علمأ تلنگانہ و آندھرا پردیش مولانا حافظ پیر شبیر احمدنے ملک میں وقف بورڈ سے متعلق قانون کو کالعدم کرنے کے لئے حکمران بی جے پی کی جانب سے مسلسل مہم چلائی جارہی ہے۔

حیدرآباد: صدر جمیعتہ علمأ تلنگانہ و آندھرا پردیش مولانا حافظ پیر شبیر احمدنے ملک میں وقف بورڈ سے متعلق قانون کو کالعدم کرنے کے لئے حکمران بی جے پی کی جانب سے مسلسل مہم چلائی جارہی ہے۔

متعلقہ خبریں
چیف منسٹر کل نومنتخب ٹیچرس میں احکام تقررات حوالے کریں گے
تلنگانہ آئیکون ایوارڈز کا دوسرا ایڈیشن متنوع شعبوں میں ٹریل بلزرز کی نمایاں کامیابیوں کا جشن
ضلع وقارآباد: ڈی ایس سی میں دونوں بہنوں نے حاصل کی سرکاری ملازمت
نفرت انگیز تقاریر کی روک تھام کے لیے مانیٹرنگ سسٹم نافذ کیا جائے: صدر جمعیۃ علماء تلنگانہ کا مطالبہ
بسوں میں مفت سفر کی سہولت، مسافرین کی تعداد میں اضافہ، خواتین کی شکایت

اس تعلق سے کئی مہینوں سے گودی میڈیا پر پروپگنڈا کیا جارہا ہے‘ اور اس کا فائدہ اٹھا کر اب راجیہ سبھا میں ایک بی جے پی ممبر ہر ناتھ سنگھ یادو نے  وقف ایکٹ 1995کو کالعدم کرنے کے لئے ایک خانگی بل پیش کیا۔

اس ممبر نے کہا کہ وقف بورڈ جیسا ادارہ دنیا میں کہیں اور موجود نہیں ہے۔ اس لئے ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے۔ مولانا حافظ پیر شبیر احمد نے وقف بورڈ کو تحلیل کرنے کی کوششوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد مسلمانوں کو  ان کی وقف جائیدادوں سے محروم کرتے ہوئے ان جائیدادوں پرناجائز قبضوں کی راہ ہموار کرنا ہے۔

تاہم کانگریس‘ ٹی ایم سی‘ ڈی ایم کے‘ سی پی آئی‘ سی پی آئی ایم اور آر جے ڈی نے اس بل کی مخالفت کی ہے۔ اصل وقف ایکٹ‘ 1954 میں نافذ کیا گیا تھا اور اس کا مقصد ملک میں اوقافی جائیدادوں کی حفاظت و صیانت کو یقینی بنانا تھا۔ حالات کی مناسبت سے 1995میں اس میں ترمیمات کی گئی ہیں۔

اب یادو نے بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ وقف بورڈ کی وجہ سے سماج میں نا اتفاقی اور امتیاز میں اضافہ ہوتا ہے۔اس خانگی بل میں یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ وقف بورڈ مختلف افراداور مذہبی اداروں کی جائیدادوں کو اپنی تحویل میں لے لیتا ہے۔ بلکہ وہ حکومت کی جائیدادوں پر بھی قبضے کرلیتاہے۔

یہ غلط پروپگنڈا کرتے ہوئے مسلمانوں کے تعلق سے نفرت کی فضا پیدا کی جارہی ہے۔ صدر جمیعتہ نے کہا کہ ملک کے مختلف مقامات پر قیمتی اوقافی جائیداوں پر بڑے سرمایہ داروں اور دیگر افراد اور اداروں نے قبضہ کرکے وہاں عالی شان عمارتیں اور انفراسٹرکچر کھڑا کیا ہے۔

ان کو اب مقدمات کا سامنا ہے اورمنصفانہ فیصلے ہوئے تو ان کو اپنی سرمایہ کاری سے محروم ہونے کاڈر ہے۔ اس لئے وہ پچھلے دروازے سے قانون سازی کا سہارا لے کر مسلمانو ں کو ان جائیدادوں سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بڑے شرم کی بات ہے کہ وقف جائیدادوں کو مذہب تبدیل کروانے کے لئے استعمال کرنے کا الزام بھی لگایا جارہا ہے۔  مسلمانوں نے کبھی بھی پیسہ کا لالچ نہیں دیا اور نہ کبھی دیں گے۔

اس کے علاوہ اس بات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جارہا ہے کہ یہ جائیدادیں ان مسلمانوں کی ہیں جو پاکستان چلے گئے تھے۔ یہ سراسر غلط الزام ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان جائیدادوں کی تمام دستاویزات موجود ہیں جن کو قانون بھی مانتا ہے اور عدالتیں بھی مانتی ہیں۔ تلنگانہ میں مسلمانوں نے کانگریس کا ساتھ دیا‘ دیگر ریاستوں میں بھی کانگریس اور دیگر سیکولر جماعتوں کو مسلمانوں کا ساتھ حاصل رہا۔

کیا یہ بل پیش کرتے ہوئے مسلمانوں کو اس کی سزا دی جارہی ہے؟ انہوں نے یقین ظاہرکیا کہ اس قسم کے بل سے وقف جائیدادوں کا موقف برقرار ہی نہیں رہے گا بلکہ اور بھی زیادہ مضبوط ہوجائے گا۔ بورڈ کے رہنے یا نہ رہنے سے وقف کی نوعیت تو نہیں بدلے گی۔

بلکہ ہوسکتا ہے کہ بورڈ کا کنٹرول ختم ہونے کے بعد دیانت دار لوگوں اور اداروں کو زیادہ قانونی اختیار حاصل ہوجائے گا کہ وہ اپنی وقف جائیدادوں کے تحفظ کے لئے پوری قوت کے ساتھ قانونی لڑائی لڑ سکیں۔ کیونکہ اس وقت وقف بورڈ اپنے کمزور مالی موقف کے باعث مقدمات لڑ نہیں سکتا اور ہار جاتاہے۔ مولانا نے اس یقین کا اظہار کیا کہ اللہ اس شر میں بھی خیر کا پہلو نکال دے گا اور فرقہ پرستوں کا داؤ الٹاان پر ہی بھاری پڑے گا۔