بھارت

وقف ترمیمی قانون پر بحث مکمل، فیصلہ محفوظ

وقف اسلام کے بنیادی جز میں سے ایک اہم جز ہے، اسلام کے بغیر وقف کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ وقف اللہ کے نام ہوتا ہے اور یہ مستقل ہوتا ہے، وقف ایک طرح کی چیریٹی ہے جو اسلام کا بنیادی جز ہے: جمعیۃ العلماء ہند

وقف ترمیمی قانون2025 کے خلاف داخل عرضیوں پر مسلسل تیسرے دن بحث جاری رہی، جس کے دوران جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشد مدنی کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے مرکزی حکومت کی نمائندگی کرنے والے سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا کی بحث کا جواب دیا اور کہا کہ مرکزی سرکار یہ موقف کہ وقف اسلام کا بنیادی جز نہیں ہے سراسر غلط ہے۔

متعلقہ خبریں
ہندوستان کے پہلے فوجی طیارہ ساز یونٹ کا افتتاح
مذہبی مقامات قانون، سپریم کورٹ میں پیر کے دن سماعت
طاہر حسین کی درخواست ضمانت پرسپریم کورٹ کا منقسم فیصلہ
آتشبازی پر سال بھر امتناع ضروری: سپریم کورٹ
نیوزی لینڈ نے پہلی مرتبہ ہندوستان میں ٹسٹ سیریز جیت لی

نئی دہلی : جمعیۃ کی جاری کردہ ریلیز کے مطابق وقف اسلام کے بنیادی جز میں سے ایک اہم جز ہے، اسلام کے بغیر وقف کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ وقف اللہ کے نام ہوتا ہے اور یہ مستقل ہوتا ہے، وقف ایک طرح کی چیریٹی ہے جو اسلام کا بنیادی جز ہے۔ وقف صرف اللہ کے لیئے ہوتا ہے جسے ایک بار کردینے کے بعد اسے واپس نہیں لیا جاسکتا ہے۔ چیریٹی پبلک کے لیئے بھی ہوسکتی ہے لیکن وقف خالص اللہ کے لیئے ہوتا ہے۔

کپل سبل نے قانون پر عبوری اسٹے کے تعلق سے کہا کہ، ماضی قریب میں سپریم کورٹ نے مختلف قوانین پر عبوری اسٹے دیا تھا لہذا آج سالیسٹر جنرل کا یہ کہنا کہ عدالت عبوری اسٹے نہیں دے سکتی مناسب نہیں ہے۔ عدالت تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد موجودہ حالات اور مسلمانوں میں پھیلی ہوئی بے چینی کے مدنظر اس متنازعہ قانون پر اسٹے دے کر انصاف کرسکتی ہے۔

سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے عدالت کو مزید بتایا کہ اوقاف کے سروے کرنے کی ذمہ داری حکومت کی ہے لیکن کئی دہائی گذر جانے کے بعد بھی سروے نہیں ہوا، وقف پراپرٹی کا سروے نہیں ہونے کا ذمہ دار متولی یا مسلمان نہیں ہے، لہذا سروے کے نام پر وقف املاک پر قبضہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ گجرات اور اتراکھنڈ میں ایک بھی وقف املاک کا سروے نہیں ہوا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں اوقاف کی زمینیں نہیں ہیں۔

وقف ترمیمی قانون بنا کر ریاست کی ناکامی کی سزا پوری مسلم قوم کو دی جارہی ہے۔ وقف بائی یوزر کو صرف اس لیئے ختم نہیں کیا جاسکتا کہ یہ رجسٹرڈ نہیں ہے۔ماضی میں سپریم کورٹ نے وقف بائے یوزر کو تسلیم کیا ہے۔

کپل سبل نے مزید کہا کہ وقف پراپرٹی پر لمیٹیشن ایکٹ نافذ نہیں ہوتا ہے لہذا لمیٹیشن کی بات کرنا فضول ہے۔ شیڈول ٹرائب علاقوں میں وقف کرنے کی جو پابندی عائد کی جارہی ہے یہ مذہبی معاملات میں مداخلت ہے۔ قبائلی علاقوں کے لوگ بھی اسلام کومانتے ہیں اور انہیں پورا حق ہے اپنے مذہبی امورکو انجام دینے کا۔وقف کرنے سے کسی کو روکا نہیں جاسکتا ہے، تازہ ترمیمات ان علاقوں میں وقف کرنے سے روکتی ہیں جو غیر آئینی ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ دفعہ  3ڈی کے مطابق محکمہ آثار قدیمہ کی عمارتوں پر متولی کے ہونے کی وجہ سے محکمہ آثار قدیمہ انتظامی امور انجام نہیں دے پارہی ہے لہذا حکومت اس کو اپنے قبضہ میں لینا چاہتی ہے، حکومت کا یہ اقدام وقف املاک کو اپنے قبضہ میں لینے جیسا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انتظامی امور کے تعلق سے عدالت رہنمایانہ اصول مرتب کرسکتی لیکن حکومت اس کی ملکیت تبدیل نہیں کی جاسکتی ہے۔

چیف جسٹس نے دلائل سننے کے بعد کہا کہ وہ اس تعلق سے جائزہ لیں گے۔ کپل سبل کی بحث کے بعد ڈاکٹر راجیو دھون نے جوابی بحث کی اور کہا کہ وقف اسلام کا حصہ ہے، جے پی سی نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے، انتظامی امور کے نام پر ضابطہ بنانا عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کو ختم کردے گا۔ ڈاکٹر ابھیشک منو سنگھوی نے بھی جوابی بحث کی اور عدالت سے وقف ترمیمات پر عبوری اسٹے دینے کی گذارش کی۔سینئر ایڈوکیٹ حذیفہ احمدی نے بھی مختصر جوابی بحث کی۔

واضح رہےکہ چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی اور جسٹس جارج مسیح وقف قانون ترمیمات 2025/کے خلاف داخل پٹیشن کی سماعت کررہے ہیں جس میں عدالت سے عبوری اسٹے کی درخواست کی گئی ہے۔آج دوران سماعت سالیسٹر جنرل آف انڈیا نے عدالت کو بتایا کہ گذشتہ تین دنوں کی سماعت کے بعد یہ واضح ہوا ہے کہ وقف ترمیمات قانون2025 میں ایسا کچھ بھی غیرآئینی سامنے نہیں آیا ہے کہ اس پر اسٹے دیا جاسکے۔

جے پی سی نے تمام امور پر سماعت اورغور و فکر کرنے کے بعد ہی بل کو پارلیمنٹ میں قانون بننے کے لیئے بھیجا تھا۔بادی النظر میں وقف ترمیمات قانون میں کوئی خامی نظر نہیں آتی ہے لہذا اس پر اسٹے دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ایک صدی سے زائد عرصے سے وقف کے تعلق سے ہورہی دھوکہ دہی روکنے کے لیئے پانچ سال مسلمان ہونے کی شرط رکھی گئی ہے۔ پانچ سالہ اسلام پر عمل کرنے کی شرط کوئی مضحکہ خیز بات نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک مقصد ہے، شریعت قانون کی دفعہ 3/ میں بھی اس کا ذکر ہے۔

تشار مہتا نے آج ایک بار پھر کہا کہ وقف اسلام کے بنیادی جز میں سے نہیں ہے یعنی کہ وقف اسلام کا ضروری حصہ نہیں ہے۔ وقف کرنے کے بعد وقف پراپرٹی کو رجسٹریشن نہیں کرانا ایک بہت بڑافراڈ ہے۔وقف پراپرٹی کے رجسٹریشن پر کیوں اعتراض کیا جارہا ہے؟ جن کے پاس دستاویزات نہیں ہیں ان کے لیئے بھی قانون میں راحت دی گئی ہے۔

لمیٹیشن ایکٹ کے تعلق سے سالیسٹر نے کہا کہ وقف پراس کا اطلاق نہیں ہوتا ہے، یہ سہولت صرف وقف کو کیوں؟قبائل کی پراپرٹی کو بھی وقف کے نام پر نشانہ بنایا جارہا ہے جس کے خلاف وقف ترمیمات میں شق شامل کی گئی ہے۔اسی درمیان فریقین کی بحث کا اختتام ہوا جس پر عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیاہے۔

گذشتہ سماعت پر سبکدوش چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ نے سماعت کرنے سے معذرت کرتے ہوئے مقدمہ کی سماعت موجودہ چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس گوئی کے سامنے کیئے جانے کا حکم جاری کیا تھا۔جسٹس سنجیو کھنہ کی جانب سے وقف ترمیمات کی چند دفعات پر عبوری اسٹے دیئے جانے کا اشارہ ملنے کے سالیسٹرجنرل آف انڈیا تشار مہتا نے عدالت سے اسٹے نہیں دیئے جانے کی گذارش کی تھی اور عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی وہ ان ترمیمات کو نافذالعمل نہیں کریں گے جب تک عدالت کی جانب سے کوئی فیصلہ صادر نہیں کیا جاتا۔

وقف بائے یوز، وقف رجسٹریشن، وقف بورڈ اور وقف قونسل میں غیرمسلم ممبران کی تقرری و دیگر اہم و متنازعہ ترمیمات فی الحال نافذ العمل نہیں ہیں۔وقف قانون نافذالعمل ہونے کے بعد جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے پیش ہوتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ وکیل کپل سبل نے وقف ترمیم قانون کے خلاف داخل عرضداشت پر جلداز جلد سماعت کیئے جانے کی چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ سے گذارش کی تھی۔ وقف ترمیمی قانون پر صدرجمہوریہ کی مہر لگ جانے کے بعد مولانا ارشد مدنی نے سب سے پہلے سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کی تھی۔

مولانا ارشد مدنی نے وقف ترمیمی قانون کی مختلف دفعات کو ناصرف چیلنج کیا ہے بلکہ قانون کو نافذ العمل ہونے سے روکنے کے لئے عدالت سے عبوری درخواست کی ہے۔ مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پر ایڈوکیٹ آن ریکارڈ فضیل ایوبی نے پٹیشن داخل کی ہے جس میں تحریر ہے کہ یہ قانون غیرآئینی ہے اور وقف انتظامیہ اور وقف کے لیئے تباہ کن ہے، جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل پٹیشن کا ڈائری نمبر 18261/2025ہے۔