دہلی

مطلقہ مسلم خواتین کا گزارہ مانگنے کا حق، سپریم کورٹ کا فیصلہ محفوظ

درخواست گزار شوہر کی طرف سے سینئر وکیل ایس وسیم قادری نے حسب ذیل اعتراضات اٹھائے۔ نمبر 1مسلم خواتین (طلاق کے حقوق کا تحفظ) ایکٹ 1986 اپنی نوعیت کا ایک خصوصی اور سود مند قانون ہے جو سی آرپی سی کی دفعہ 125 سے زیادہ گنجائش فراہم کرتا ہے۔

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے کل (19 فروری کو) ایک معاملہ میں اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا جس میں یہ مسئلہ اٹھایا گیا تھا کہ آیا مطلقہ مسلم خاتون سی آر پی سی کی دفعہ 125 کے تحت گزارے کی درخواست دائر کرنے کا حق رکھتی ہے یا نہیں۔

متعلقہ خبریں
خلوت سے پہلے طلاق ہوگئی تو کتنا مہر واجب ہے ؟
ملزم کی موت، ورثاء سےجرمانہ وصول کیا جاسکتا ہے: ہائیکورٹ
سپریم کورٹ کا تلنگانہ ہائیکورٹ کے فیصلہ کو چالینج کردہ عرضی پر سماعت سے اتفاق
عصمت دری کے ملزم تھانہ انچارج کی ضمانت منسوخ
سپریم کورٹ میں نوٹ برائے ووٹ کیس کی سماعت ملتوی

جسٹس بی وی ناگرتنا اور جسٹس  اے جارج مسیح پر مشتمل بنچ ایک مسلم شخص کی اس درخواست پر سماعت کررہی تھی جس میں اس کی مطلقہ بیوی کو عبوری گزارہ کی ادائیگی کی ہدایت کو چالینج کیا گیا تھا۔ گزشتہ سماعت کے موقع پر سینئر ایڈوکیٹ گورواگروال کو اس معاملہ میں مدد کے لئے رفیق عدالت مقرر کیا گیا تھا۔

درخواست گزار شوہر کی طرف سے سینئر وکیل ایس وسیم قادری نے حسب ذیل اعتراضات اٹھائے۔ نمبر 1مسلم خواتین (طلاق کے حقوق کا تحفظ) ایکٹ 1986 اپنی نوعیت کا ایک خصوصی اور سود مند قانون ہے جو سی آرپی سی کی دفعہ 125 سے زیادہ گنجائش فراہم کرتا ہے۔

 ایکٹ دفعہ 3 گزارے کے علاوہ مہر، جہیز دینے والے اور جائیداد کی واپسی سے بھی متعلق ہے۔ اس قانون کے تحت مطلقہ کی ساری زندگی کے لئے ایک واجبی اور منصفانہ گنجائش فراہم کی گئی ہے لیکن ضابطہ فوجداری کی دفعہ 125 کے تحت اس پر غور نہیں کیا جاتا۔

 اس کے علاوہ اگر مطلقہ خاتون کے پاس کافی وسائل ہیں تو وہ سی آرپی سی کی دفعہ 125 کے تحت گزارہ کے لئے درخواست نہیں دے سکتی۔ اس ایکٹ کی دفعہ 3 کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔

a3w
a3w