مذہب

بچوں کے داخلہ کے لئے غلط عمر لکھانا

شریعت میں بعض قوی تر مصلحتوں کی بنیاد پر جھوٹ بولنے کی بھی اجازت دی گئی ہے ، جیسے لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے ؛

سوال:- اسکولوں میں مختلف مرحلوں کے لئے الگ الگ عمریں متعین ہیں ، جیسے نرسری میں داخلہ کے لئے ضروری ہے کہ بچہ چار سال سے کم کا ہو ، اگر ایک بچہ پانچ چھ سال کا ہے تو جھوٹا حلف نامہ داخل کرکے عمر لکھائی جاتی ہے اور پھر اس کے مطابق شروع سے آخر تک اس کی عمر شمار کی جاتی ہے، کیا اس طرح جھوٹا حلف نامہ دے کرداخلہ کرانے کی گنجائش ہے ۔ (حبیب الرحمٰن، دلسکھ نگر)

جواب:- شریعت میں بعض قوی تر مصلحتوں کی بنیاد پر جھوٹ بولنے کی بھی اجازت دی گئی ہے ، جیسے لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے ؛ چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا :

لیس الکذاب الذی یصلح بین الناس ،فینبغي خیرا أو یقول خیراً ۔

لوگوں کے درمیان صلح کرانے اور اس کے لئے بھلی بات کہنا جھوٹ نہیں ہے، یعنی گناہ نہیں ہے۔ (بخاری ،کتاب الصلح، باب لیس الکذاب الذی یصلح بین بین الناس، حدیث نمبر:۲۶۹۲، عن اُم مکتوم :۵؍۲۹۹)

اسی طرح جنگ میں اور شوہر و بیوی کو منانے کے لئے بھی جھوٹ بولنے کی اجازت دی گئی ہے :

یرخص في شئی مما یقول الناس کذب الا في ثلاث: الحرب والإصلاح بین الناس ، وحدیث الرجل امراتہ وحدیث المرأۃ زوجھا (مسلم ، حدیث نمبر: ۲۶۰۵،: ۴؍۲۰۱۱)

جنگی حکمت عملی، لوگوں کے درمیان مصالحت، مرد کی اپنی بیوی سے اور بیوی کی اپنے شوہر سے (اظہار محبت کی گفتگو) میں جھوٹ بولنا جائز ہے۔

تعلیم بھی ایک بہت بڑی ضرورت ہے، اس سے انفرادی مصلحت بھی وابستہ ہے اور اجتماعی مصلحت بھی، اور اگر غلط عمر بتادی جائے تو اس سے دوسرے کا نہ نقصان ہے اور نہ حق تلفی ہے؛ اس لئے غلط بیانی سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے؛ لیکن بدرجہ مجبوری کم عمر لکھا کر داخلہ کرانے کی گنجائش ہے ۔

a3w
a3w