خود کو سیکولرکہنے والی جماعتیں جے ڈی یو اور ٹی ڈی پی وقف بل کی حمایت پر کیسے آمادہ ہوگئیں؟
گزشتہ سال اگست میں جب حکومت نے وقف ترمیمی بل پیش کرنے کا ارادہ کیا، تو اس سے پہلے ہی سینئر وزراء نے جے ڈی یو اور ٹی ڈی پی کی قیادت کو اس پر اعتماد میں لے لیا تھا۔ لوک جن شکتی پارٹی کے چِراغ پاسوان اور آر ایل ڈی کے جینت چودھری سے بھی مشاورت کی گئی۔

حیدرآباد: وقف ترمیمی بل 2025 پر سیاسی حلقوں میں حیرانی پائی جا رہی ہے کہ خود کو سیکولر کہنے والی جماعتیں جے ڈی یو (JDU) اور ٹی ڈی پی (TDP) اس بل کی حمایت پر کیسے آمادہ ہو گئیں؟
اس سے پہلے جب مسلم معاملات پر بات ہوئی، تو ان پارٹیوں نے اکثر بی جے پی (BJP) سے الگ موقف اپنایا۔ خاص طور پر یکساں سول کوڈ کے معاملے پر جے ڈی یو کئی بار اپنی مختلف رائے ظاہر کر چکی ہے۔ لیکن پردے کے پیچھے ایسا کیا ہوا کہ بی جے پی نے ان دونوں جماعتوں کو وکف ترمیمی بل پر اپنی حمایت کے لیے قائل کر لیا؟
گزشتہ سال اگست میں جب حکومت نے وقف ترمیمی بل پیش کرنے کا ارادہ کیا، تو اس سے پہلے ہی سینئر وزراء نے جے ڈی یو اور ٹی ڈی پی کی قیادت کو اس پر اعتماد میں لے لیا تھا۔ لوک جن شکتی پارٹی کے چِراغ پاسوان اور آر ایل ڈی کے جینت چودھری سے بھی مشاورت کی گئی۔
تمام اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کو وقف ترمیمی بل کی اہمیت اور اس کی ضرورت سے آگاہ کیا گیا۔ حکومت نے یہ واضح کیا کہ اس بل کا مقصد محض سیاسی فائدہ حاصل کرنا یا کسی طبقے کو نشانہ بنانا نہیں، بلکہ مسلم برادری کے حقوق اور خاص طور پر خواتین کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔
اتحادی جماعتوں نے اس موقف سے اصولی طور پر اتفاق کیا، لیکن انہیں بعض دفعات پر تحفظات تھے، خاص طور پر موجودہ وقف جائیدادوں اور ریاستی حکومتوں کے اختیارات پر اس بل کے ممکنہ اثرات کو لے کر خدشات تھے۔ اتحادی جماعتوں کی تجویز پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ بل کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (JPC) کے سپرد کیا جائے تاکہ اس کا تفصیلی جائزہ لیا جا سکے اور اگر ضروری ہو تو اس میں ترامیم کی جا سکیں۔
یہی وجہ تھی کہ جب 8 اگست 2024 کو لوک سبھا میں وقف بل پیش کیا گیا تو حکومت نے خود اسے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس بھیجنے کی تجویز رکھی۔ کمیٹی میں اتحادی جماعتوں کے نمائندوں نے بھرپور شرکت کی اور اپنی تجاویز پیش کیں۔ اس دوران جے ڈی یو اور ٹی ڈی پی کی جانب سے دیے گئے کئی اہم نکات کو بل میں شامل کیا گیا، جن میں این ڈی اے کے 14 ترمیمی نکات بھی شامل تھے۔
ذرائع کے مطابق جے ڈی یو نے حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ اس قانون کو پچھلی تاریخ سے لاگو نہ کیا جائے، یعنی پہلے سے موجود مساجد، درگاہوں یا دیگر مذہبی مقامات پر اس کا کوئی اثر نہ ہو۔ جے ڈی یو نے یہ بھی کہا تھا کہ چونکہ زمین کا معاملہ ریاستی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، اس لیے وقف کی زمینوں سے متعلق کسی بھی فیصلے میں ریاستوں کی رائے لینا ضروری ہونا چاہیے۔
مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے ان تجاویز کو تسلیم کر لیا، اور حکومت نے حتمی بل میں انہیں شامل کیا۔ ترمیمی بل میں یہ بھی واضح کر دیا گیا کہ اسے پچھلی تاریخ سے نافذ نہیں کیا جائے گا اور ریاستی وقف بورڈز میں ضلع کلکٹر کے بجائے سینئر مجاز افسر کو ثالثی کا اختیار دیا جائے گا، جس سے ریاستی حکومتوں کا کردار مزید مستحکم ہوا۔
ٹی ڈی پی نے بھی یہی مطالبہ کیا تھا کہ ریاستی حکومتوں کی خودمختاری برقرار رکھی جائے۔ ٹی ڈی پی کی طرف سے یہ تجویز دی گئی کہ وقف معاملات میں فیصلے کے لیے ریاستوں کو کلکٹر کے بجائے اعلیٰ سطحی افسر کو نامزد کرنے کا اختیار دیا جائے۔
اس کے علاوہ، وقف سے متعلق دستاویزات کو پورٹل پر اپلوڈ کرنے کے لیے زیادہ وقت دینے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے ان دونوں تجاویز کو منظور کیا، جس کے بعد ٹی ڈی پی نے بل کی حمایت کا اعلان کر دیا۔
بل پیش کرنے سے پہلے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں جے ڈی یو کے رہنما لالن سنگھ اور سنجے جھا سے ملاقات کی اور انہیں یقین دلایا کہ ان کی تجاویز بل میں شامل کی جا چکی ہیں۔ لوک سبھا میں بل کی حمایت کرتے ہوئے لالن سنگھ نے ان خدشات کو بے بنیاد قرار دیا کہ یہ قانون مسلمانوں کے خلاف ہے۔
انہوں نے کئی بار بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کا ذکر کیا اور مسلمانوں کے لیے ان کی حکومت کے فیصلوں پر روشنی ڈالی۔ اسی طرح ٹی ڈی پی کے رہنما کے پی ٹینیٹی نے واضح کیا کہ وزیر اعلیٰ چندرابابو نائیڈو نے مسلم خواتین، نوجوانوں اور پسماندہ طبقات کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بل کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔ بی جے پی کے دیگر اتحادی جیسے لوک جن شکتی پارٹی، ہندوستان عوام مورچہ اور آر ایل ڈی نے بھی یہی مؤقف اختیار کیا۔
اس طرح بی جے پی نے یہ واضح کر دیا کہ اگرچہ اس کی حکومت اتحادی جماعتوں کے سہارے چل رہی ہے، لیکن وزیر اعظم نریندر مودی متنازع مسائل پر بھی اپنی اتحادی جماعتوں کو ساتھ لے کر آگے بڑھ سکتے ہیں۔
یہ وزیر اعظم مودی کے اس مسلسل مؤقف کا اظہار ہے جو وہ اپنے تیسرے دور حکومت کے آغاز سے پیش کر رہے ہیں۔ بی جے پی اس بار اپنی اکثریت سے حکومت بنانے میں ناکام رہی، لیکن اس نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ اتحادی جماعتوں کی حمایت کے ساتھ اپنے ایجنڈے پر آگے بڑھ سکتی ہے۔