بھارت

وقف کیا ہے، ہندوستان میں وقف جائیدادیں کتنی ہیں، اگر یہ قانون بن جاتا ہے تو کیا ہوگا؟

"وقف" عربی لفظ "وقفا" سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے "روکنا" یا "روکے رکھنا"۔ وقف ان جائیدادوں کو کہا جاتا ہے جو مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور مذہبی مقاصد کے لیے مخصوص ہوتی ہیں۔ وقف شدہ جائیداد کو بیچنا یا کسی اور مقصد کے لیے استعمال کرنا منع ہے۔

نئی دہلی: لوک سبھا نے طویل بحث کے بعد گزشتہ رات و قف ترمیمی بل کو منظوری دے دی، جس کے بعد یہ مجوزہ قانون ایکٹ بننے کے ایک قدم قریب پہنچ گیا ہے۔ جہاں مرکزی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس ترمیم سے وقف بورڈز کی کارکردگی زیادہ شفاف، جامع اور مؤثر بنے گی، وہیں اپوزیشن نے اس پر اقلیتوں پر حملہ کا الزام عائد کیا ہے اور کہا ہے کہ حکومت 9.4 لاکھ ایکڑ وقف زمین پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

متعلقہ خبریں
مرکز نے دیہی ترقی کیلئے اے پی کو بھاری فنڈس جاری کئے
مغربی مہاراشٹرا، مراٹھواڑہ اور کونکن کی 11 سیٹوں پر انتخابی مہم آج شام ختم
ریاستی جمعیتہ علماء تلنگانہ کا نئے وقف ترمیمی قانون پر شدید اعتراض، قانونی جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان
وقف ترمیمی بل کے خلاف وجئے واڑہ میں زبردست دھرنا
وقف ترمیمی بل کی مخالفت میں آندھرا وقف بورڈ اور کل ہند انجمن صوفی سجادگان کا بروقت اقدام قابل تقلید: خیر الدین صوفی

"وقف” عربی لفظ "وقفا” سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے "روکنا” یا "روکے رکھنا”۔ وقف ان جائیدادوں کو کہا جاتا ہے جو مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور مذہبی مقاصد کے لیے مخصوص ہوتی ہیں۔ وقف شدہ جائیداد کو بیچنا یا کسی اور مقصد کے لیے استعمال کرنا منع ہے۔ اس کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ جائیداد کا مالک اِسے اللہ کے نام پر چھوڑ دیتا ہے اور وہ ہمیشہ کے لیے اسی مقصد کے لیے مخصوص رہتی ہے۔

ہندوستان میں وقف کا تصور 12ویں صدی میں دہلی سلطنت کے دور سے شروع ہوا۔ سلطان معز الدین سام غوری (محمد غوری) نے ملتان کی جامع مسجد کے لیے دو گاؤں وقف کیے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ وقف املاک کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ 19ویں صدی میں ایک وقف تنازعہ برطانوی راج کے دوران لندن کے پرائیوی کونسل تک پہنچا۔ برطانوی ججوں نے وقف کو "بدترین اور نقصان دہ” قرار دے کر غیر قانونی قرار دیا، تاہم ہندوستان میں اس فیصلے کو مسترد کر دیا گیا اور 1913 کے قانون کے تحت وقف کو برقرار رکھا گیا۔

وقف بورڈ ہندوستان میں فوج اور ریلوے کے بعد سب سے بڑا زمین کا مالک ہے۔ اقلیتی امور کی وزارت کے مطابق، وقف بورڈز ملک بھر میں 8.7 لاکھ جائیدادوں کے مالک ہیں، جو تقریباً 9.4 لاکھ ایکڑ زمین پر مشتمل ہیں۔ ان جائیدادوں کی تخمینہ مالیت تقریباً 1.2 لاکھ کروڑ روپے ہے۔

ملک میں 3,56,051 وقف اسٹیٹس ہیں، جن میں سب سے زیادہ اتر پردیش میں موجود ہیں۔ وقف بورڈز کے تحت 8,72,328 غیر منقولہ جائیدادیں رجسٹرڈ ہیں، جن میں سے 1.2 لاکھ سے زیادہ اتر پردیش میں ہیں۔ اس کے علاوہ، 16,713 منقولہ جائیدادیں بھی وقف کے تحت ہیں، جن میں سے زیادہ تر ٹاملناڈو میں ہیں۔

حکومت کا کہنا ہے کہ کئی وقف جائیدادیں تنازعات اور ناجائز قبضے کا شکار ہیں۔ اس وقت 40,951 مقدمات وقف جائیدادوں کے حوالے سے عدالتوں میں زیر التوا ہیں، جن میں سے تقریباً 10,000 خود مسلمانوں نے وقف انتظامیہ کے خلاف درج کروائے ہیں۔ موجودہ قانون میں ان تنازعات کو عام عدالتوں میں لے جانے کی اجازت نہیں، جس کی وجہ سے ان کے حل میں تاخیر ہوتی ہے۔

دہلی کی جامع مسجد دہلی وقف بورڈ کے زیر انتظام ہے۔ مغل دور کی مشہور یادگار فتح پور سیکری، جس میں صوفی بزرگ شیخ سلیم چشتیؒ کا مزار شامل ہے، وقف کی ملکیت میں ہے۔ لکھنؤ میں بڑا امام باڑہ بھی وقف املاک میں شامل ہے۔

بعض مواقع پر وقف ملکیت اور آثارِ قدیمہ کے محکمہ کے درمیان تنازعات پیدا ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اتر پردیش سنی وقف بورڈ نے تاج محل کو وقف جائیداد قرار دیا تھا، تاہم آثارِ قدیمہ کے محکمے (ASI) نے اس دعوے کی مخالفت کی۔

سپریم کورٹ نے وقف بورڈ سے دستاویزی ثبوت مانگا، جو وہ فراہم نہ کر سکے۔ اسی طرح دہلی میں صفدر جنگ کا مقبرہ، پرانا قلعہ، نیلا گنبد، حضرت نظام الدین اولیاء کے مقبرے کے قریب موجود عمارتیں اور جمالی کمالی مسجد و مقبرہ بھی ایسے مقامات ہیں جن پر وقف بورڈز اور آثارِ قدیمہ کے محکمے کے درمیان تنازعات رہے ہیں۔

2022 میں، ٹاملناڈو کے ضلع ترچنتھورائی کے رہائشیوں کو اس وقت دھچکا لگا جب ریاستی وقف بورڈ نے ان کے گاؤں کو اپنی جائیداد قرار دے دیا۔ یہ تنازعہ اس وقت سامنے آیا جب ایک کسان، راج گوپال، نے اپنی 1.2 ایکڑ زمین فروخت کرنے کی کوشش کی اور حکام نے اسے وقف بورڈ سے این او سی (نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ) لینے کا کہا۔ اس تنازعے کے بعد پتہ چلا کہ گاؤں میں واقع 1,500 سال پرانا ہندو مندر بھی وقف جائیداد میں شامل کیا جا چکا ہے۔

اسی طرح، گجرات کے سورت میں ایک رہائشی پلاٹ مالک نے اپنے پلاٹ کو ریاستی وقف بورڈ میں رجسٹر کروا دیا اور وہاں نماز پڑھنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ مرکزی حکومت کے مطابق، "اس سے یہ امکان پیدا ہو جاتا ہے کہ کسی بھی رہائشی اپارٹمنٹ کو اس کا مالک وقف جائیداد قرار دے کر مسجد میں تبدیل کر سکتا ہے، جس سے دیگر مکینوں کو اعتراض کرنے کا کوئی موقع نہیں ملے گا۔” حکومت کا مؤقف ہے کہ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے وقف قوانین میں ترمیم ضروری ہے۔

مسلم تنظیموں، خصوصاً آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ  نے اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے اسے امتیازی اور ناانصافی پر مبنی قرار دیا ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کا الزام ہے کہ بی جے پی حکومت اس قانون کے ذریعے وقف جائیدادوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔

"پلیسز آف ورشپ ایکٹ (1991) کی موجودگی کے باوجود ہر مسجد میں مندر تلاش کرنے کا مسئلہ بڑھ رہا ہے۔ اگر یہ ترمیم منظور ہو گئی تو وقف جائیدادوں پر سرکاری اور غیر سرکاری دعوے بڑھ جائیں گے اور کلیکٹرز و ضلعی مجسٹریٹس کو انہیں ضبط کرنے میں آسانی ہو جائے گی۔

تاہم، مسلم سماج کے کچھ طبقے اس بل کا خیر مقدم بھی کر رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس سے "وقف مافیا” کا خاتمہ ہوگا اور وقف کا نظام زیادہ شفاف بنے گا۔

اپوزیشن، خاص طور پر کانگریس، نے بل کی مخالفت کی اور لوک سبھا میں اس کے خلاف ووٹ دیا۔ سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے کہا کہ حکومت اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے یہ قانون لا رہی ہے۔ AIMIM کے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے اس بل کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے پارلیمنٹ میں اس کے کاغذات پھاڑ دیے اور بی جے پی پر مذہبی تنازعات بھڑکانے کا الزام لگایا۔

وقف بل میں کلیدی تبدیلیاں

  • صرف وہی شخص جائیداد کو وقف قرار دے سکتا ہے جو کم از کم پانچ سال سے اسلام پر عمل پیرا ہو۔
  • جائیداد کو وقف قرار دینے والے شخص کا اس جائیداد کا مالک ہونا ضروری ہوگا۔
  • بل میں موجودہ قانون کی اس شق کو ختم کر دیا گیا ہے جس کے تحت کسی جائیداد کو محض طویل عرصے تک مذہبی استعمال کی بنیاد پر وقف قرار دیا جا سکتا تھا (وقف بائی یوزر)۔
  • وقف کا اعلان کرنے سے کسی وارث، بشمول خواتین، کے وراثتی حقوق متاثر نہیں ہوں گے۔
  • کوئی بھی سرکاری زمین جو وقف کے طور پر درج ہوگی، اب وقف کی ملکیت نہیں رہے گی۔
  • وقف بورڈ کے پاس کسی جائیداد کو وقف قرار دینے یا اس کی تحقیق کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔

بل میں مرکزی وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈز کی تشکیل میں بھی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔

  • 1995 کے وقف ایکٹ کے مطابق، تمام ممبران مسلمانوں پر مشتمل ہوتے تھے اور ان میں کم از کم دو خواتین ہونا ضروری تھا۔ نئے بل میں شرط رکھی گئی ہے کہ کم از کم دو ممبران غیر مسلم ہوں گے اور باقی مسلم اراکین میں سے دو خواتین ہونی چاہئیں۔
  • ریاستی وقف بورڈ کے لیے حکومت کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ایم پی، ایم ایل اے یا ایم ایل سی کو نامزد کر سکتی ہے، اور یہ ضروری نہیں کہ نامزد افراد مسلمان ہوں۔
  • اگر کسی ریاست میں بوہرا اور آغاخانی برادری کا وقف موجود ہو تو ان کے نمائندوں کو بھی بورڈ میں شامل کیا جائے گا۔
  • نئے بل کے مطابق، وقف بورڈ میں کم از کم دو خواتین ممبران کا ہونا ضروری ہوگا۔
  • موجودہ قانون کے تحت وقف ٹریبونل کا فیصلہ حتمی ہوتا تھا اور اسے عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا۔
  • بل میں اس قانون کو تبدیل کر دیا گیا ہے، اور اب ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف 90 دن کے اندر ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی جا سکے گی۔

اقلیتی امور کے وزیر کیرن رجیجو، جنہوں نے لوک سبھا میں یہ بل پیش کیا، کا کہنا ہے کہ "جب یہ قانون بنے گا تو کروڑوں غریب مسلمان وزیر اعظم نریندر مودی کا شکریہ ادا کریں گے۔