انڈیا اتحاد دہشت گردی کا حامی اور دستور کا مخالف : اسمرتی ایرانی
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے جموں و کشمیر کی اسمبلی میں خصوصی حیثیت سے متعلق منظور کی گئی قرارداد کو پارلیمنٹ‘ دستور اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف قرار دیتے ہوئے کانگریس کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جو کہ اس میں شامل ہے۔
نئی دہلی (یو این آئی) بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے جموں و کشمیر کی اسمبلی میں خصوصی حیثیت سے متعلق منظور کی گئی قرارداد کو پارلیمنٹ‘ دستور اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف قرار دیتے ہوئے کانگریس کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جو کہ اس میں شامل ہے۔
نیشنل کانفرنس کے ساتھ انڈیا اتحاد کا الزام ہے کہ وہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی حمایت کر رہا ہے۔ بی جے پی کی سینئر لیڈر اسمرتی ایرانی نے آج پارٹی کے مرکزی دفتر میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ کانگریس کی قیادت والے انڈیا اتحاد نے جموں و کشمیر اسمبلی میں دستورِ ہند کا گلا گھونٹنے کا کام کیا ہے اور اس میں دستور کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
دفعہ 370 ہٹائے جانے کے بعد اس نے قبائلیوں‘ دلتوں اور خواتین کو دیئے گئے دستوری حقوق کو چھیننے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ بیدار ہندوستان اس ڈھٹائی کو برداشت نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ کل اسمبلی میں منظور کی گئی قرارداد ہندوستان کے دستور کے خلاف جنگ چھیڑنے کے مترادف ہے۔
یہ ہندوستان کے دستور‘ پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کی توہین ہے۔ نیشنل کانفرنس اور کانگریس کو یہ پوچھنے کا حق کس نے دیا کہ کیا آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد دلتوں‘ قبائلیوں‘خواتین اور پسماندہ طبقات کو جو حقوق دیے گئے ہیں وہ چھین لیے جائیں گے؟ سمرتی ایرانی نے کہا کہ اس قرارداد سے ظاہر ہوتا ہے کہ کانگریس اور انڈیا اتحاد حکمت عملی کے ساتھ انتہا پسندی اور دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ہٹائے جانے کے بعد جموں و کشمیر میں انسانی اموات کی تعداد میں 80 فیصد اور تشدد کے واقعات میں 70 فیصد کمی آئی ہے۔ سیاحت میں تیزی آئی ہے اور ایک سال میں 2 کروڑ 11 لاکھ سیاح آئے۔انہوں نے کہا کہ بہتر ہوتا کہ جموں و کشمیر میں منصفانہ اور جمہوری طریقہ سے ہونے والے انتخابات میں منتخب حکومت ہندوستان کے ساتھ جوڑنے اور ترقی کے ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کرتی نہ کہ ہندوستان کو توڑنے کا۔
انہوں نے چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 370 کو واپس لانے کی کوشش جسے پارلیمنٹ نے تبدیل کیا تھا‘ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اگر انڈیا اتحاد واقعی یہ چاہتا ہے تو اسے مہاراشٹرا اور جھارکھنڈ میں ہونے والے انتخابات کے دوران آکر اسے دُہرانا چاہئے۔ بی جے پی قائد نے کہا کہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس کا دراصل ریاست کے مفادات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
وہ ریاست کے لیے نہیں بلکہ اپنے ذاتی مفاد کے لیے خصوصی درجہ چاہتے ہیں تاکہ وہ پہلے کی طرح خزانہ کو لوٹتے رہیں۔ آرٹیکل 370 کو واپس لا کر وہ نہ صرف دلتوں‘ قبائلیوں‘خواتین‘ نوجوانوں سمیت تمام لوگوں کی فلاح و بہبود کی ضمانت دینا چاہتے ہیں بلکہ ان کی اپنی بھلائی کی بھی ضمانت دینا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے لیے بی جے پی کے لیڈروں کو اسمبلی میں مارا پیٹا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر کانگریس میں ہمت ہے تو وہ کھل کر یہ کیوں نہیں کہتی کہ جھارکھنڈ اور مہاراشٹر میں جہاں بھی کانگریس لیڈر انتخابی مہم کے لیے جا رہے ہیں‘ ہندوستان کو تقسیم ہونا چاہیے۔یٰسین ملک کی اہلیہ کے لوک سبھا میں قائد اپوزیشن اہول گاندھی کو لکھے گئے خط کے بارے میں پوچھے جانے پر ایرانی نے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ جنہوں نے دہشت گردی پھیلانے کا کام کیا‘ وردی میں ملٹری افسران کو مارا وہ کانگریس اور گاندھی خاندان سے حمایت کی توقع رکھتے ہیں۔
انہوں نے سوال کیا کہ ایسا کیوں ہے کہ دہشت گردی پھیلانے والے کانگریس سے حمایت کیوں مانگ رہے ہیں؟۔سابق مرکزی وزیر نے کہا کہ ہندوستانی جمہوریت کو تبھی حمایت ملتی اگر نیشنل کانفرنس کی حکومت معیشت‘ بنیادی ڈھانچہ اور صنعتی ترقی کی بات کرتی لیکن اس نے سب سے پہلے ایسی سرگرمیاں شروع کیں جس سے ملک کو تکلیف پہنچی ہے۔ایک معروف انگریزی روزنامہ میں شائع ہونے والے راہول گاندھی کے اس مضمون کو مسترد کرتے ہوئے کہ ہندوستانیوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے سامنے ہتھیار ڈال دیے‘ بی جے پی کی سینئر لیڈر نے کہا کہ راہول گاندھی کا یہ بیان کہ ہندوستانی انگریزی کمپنی سے ڈرتے ہیں مضحکہ خیز ہے۔