نہ کوئی مرد، نہ ظلم و ستم — ایک ایسا گاؤں جہاں صرف عورتیں رہتی ہیں
اوموجا گاؤں اس بات کی زندہ مثال ہے کہ ظلم و جبر سے تنگ آ کر خواتین اگر یکجا ہو جائیں تو وہ ایک مکمل، خودمختار اور محفوظ معاشرہ تخلیق کر سکتی ہیں۔ ربیکا اور ان کی ساتھیوں کی یہ جدوجہد دنیا بھر کی خواتین کے لیے ایک پیغام ہے — کہ "ڈر کر جینا کوئی زندگی نہیں، اور عزت سے جینے کے لیے جدوجہد کرنی ہی پڑتی ہے۔"

کینیا : دنیا کے نقشے پر بہت کم ایسی جگہیں ہیں جہاں روایتی سماجی ڈھانچے کو چیلنج کیا گیا ہو اور خواتین نے خود اپنے لیے ایک محفوظ اور باوقار دنیا تخلیق کی ہو۔ افریقی ملک کینیا کے شمالی علاقے سیمبورو کاؤنٹی میں واقع اوموجا گاؤں (Umoja Village) ایک ایسی ہی مثال ہے — ایک ایسا گاؤں جہاں صرف خواتین رہتی ہیں، مردوں کا داخلہ ممنوع ہے اور جہاں عورتیں خود اپنے فیصلے کرتی ہیں، خود کفیل بنتی ہیں اور ایک باعزت زندگی گزارتی ہیں۔
اوموجا کا مطلب – "اتحاد”
"اوموجا” سوہیلی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب ہے "اتحاد” یا "یکجہتی” — اور یہ نام خود اس بستی کی روح کی عکاسی کرتا ہے۔ 1990 میں اس گاؤں کی بنیاد ربیکا لولوسولی نامی خاتون نے رکھی، جو اس وقت جنسی تشدد اور سماجی بے حسی کا شکار بننے والی کئی خواتین کے ساتھ مل کر ایک نئے سفر پر نکلی تھیں۔ وہ اور دیگر متاثرہ خواتین اس وقت مکمل طور پر بے سہارا تھیں، لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری، اور آج وہ دنیا بھر میں خواتین کے لیے ایک تحریک کی علامت بن چکی ہیں۔
اوموجا گاؤں اُن عورتوں کے لیے ایک پناہ گاہ ہے جنہیں جنسی زیادتی، جبری شادی اور گھریلو تشدد جیسے مظالم کا سامنا کرنا پڑا۔ جب معاشرے نے ان خواتین کو خاموشی اختیار کرنے پر مجبور کیا، تب ربیکا اور ان کی ساتھیوں نے ایک علیحدہ دنیا بسانے کا فیصلہ کیا۔ آج یہاں کی ہر عورت ایک زندہ مثال ہے کہ ظلم سے آزادی ممکن ہے — اگر نیت اور حوصلہ مضبوط ہو۔
اوموجا گاؤں میں ہر فیصلہ اجتماعی مشاورت سے کیا جاتا ہے۔ یہاں خواتین اپنی حکومت خود چلاتی ہیں، بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمے دار بھی خود ہیں، اور کاروبار بھی خود ہی سنبھالتی ہیں۔ یہ گاؤں نہ صرف ایک محفوظ ٹھکانہ ہے، بلکہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں خواتین کو اپنی آواز بلند کرنے، حقوق کی بات کرنے اور ایک خودمختار زندگی گزارنے کا پورا موقع ملتا ہے۔
اوموجا گاؤں کے وجود کو لے کر مقامی مردوں کی جانب سے خاصی مزاحمت دیکھی گئی۔ بعض مردوں نے اسے اپنے روایتی "اقتدار” کے لیے خطرہ سمجھا اور کئی بار اس گاؤں کو بدنام کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ لیکن ان تمام دباؤ کے باوجود اوموجا کی خواتین نے پیچھے ہٹنے کے بجائے مزید مضبوطی کے ساتھ اپنی آزادی اور وقار کی جنگ جاری رکھی۔
آج اوموجا گاؤں کی خواتین دستکاری، ثقافتی سیاحت، اور مقامی مصنوعات کے ذریعے اپنی روزی کما رہی ہیں۔ ان کے تیار کردہ زیورات، کپڑے اور دستکاریاں نہ صرف کینیا بلکہ دنیا بھر میں مقبول ہو رہی ہیں۔ گاؤں میں اسکول بھی قائم ہے جہاں بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نوجوان لڑکیوں کو بھی بااختیار بنانے پر زور دیا جا رہا ہے، تاکہ اگلی نسل ظلم سہنے کے بجائے خود کو بچانے کے قابل ہو۔
اوموجا اب محض ایک گاؤں نہیں رہا، بلکہ یہ دنیا بھر میں خواتین کے حقوق اور سوشلسوسائٹی میں برابری کی علامت بن چکا ہے۔ اقوام متحدہ سمیت متعدد بین الاقوامی ادارے اس گاؤں کی کوششوں کو سراہ چکے ہیں اور ربیکا لولوسولی کو کئی ایوارڈز بھی دیے جا چکے ہیں۔
اوموجا گاؤں اس بات کی زندہ مثال ہے کہ ظلم و جبر سے تنگ آ کر خواتین اگر یکجا ہو جائیں تو وہ ایک مکمل، خودمختار اور محفوظ معاشرہ تخلیق کر سکتی ہیں۔ ربیکا اور ان کی ساتھیوں کی یہ جدوجہد دنیا بھر کی خواتین کے لیے ایک پیغام ہے — کہ "ڈر کر جینا کوئی زندگی نہیں، اور عزت سے جینے کے لیے جدوجہد کرنی ہی پڑتی ہے۔”