بھارت

سبکدوش جسٹس عبدالنذیر کو ضمیر فروشی کا صلہ ملا ہے، گورنر مقرر کئے جانے پر ملا جلا ردعمل

کانگریس نے حکومت کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے الزام لگایا کہ اسے روایت بنایا جا رہا ہے۔

ممبئی: سپریم کورٹ کے سابق جج ایس عبدالنذیر کی سپریم کورٹ سے ریٹائرمنٹ کے 40 دنوں کے اندر آندھرا پردیش کے گورنر کے طور پر تقرری پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا گیا جبکہ سپریم کورٹ کے چند سابق ججوں کا کہنا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد سرکاری ملازمت اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

کانگریس نے حکومت کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے الزام لگایا کہ اسے روایت بنایا جا رہا ہے۔ جسٹس نذیر پانچ ججوں پر مشتمل بنچ کا حصہ تھے جس نے فیصلہ دیا تھا جس کے تحت نومبر 2019 کو متنازعہ رام جنم بھومی کیس میں ایودھیا کی زمین ہندو پارٹی کو دے دی گئی۔

جسٹس نذیر اس وقت کے چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) رنجن گوگوئی کی زیر صدارت ایودھیا بنچ میں واحد مسلم چہرہ تھے۔ جسٹس نذیر 4 جنوری کو سپریم کورٹ سے ریٹائر ہوئے۔ اپنی ریٹائرمنٹ کے قریب، جسٹس نذیر اس بنچ کی سربراہی کر رہے تھے جس نے نومبر 2016 کی مرکز کی نوٹ بندی کی پالیسی کو برقرار رکھا تھا اور وہ اس آئینی بنچ کا بھی حصہ تھے جس کے حق میں مزید کوئی پابندی نہیں لگائی جا سکتی تھی۔

اس دوران کانگریس نے حکومت کے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے۔ کانگریس کے سینئر رہنما اور ترجمان ابھیشیک سنگھوی نے کہاکہ اصولوں کی بنیاد پر اور ایک واضح انداز میں، ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ اسے روایت بنایا جا رہا ہے جو کہ سراسر غلط ہے۔

ریٹائرمنٹ کے بعد کی نوکری ریٹائرمنٹ سے پہلے کے فیصلوں کو متاثر کرتی ہے۔ یہ عدلیہ کی آزادی کے لیے خطرہ ہے۔ واضح رہے کہ جسٹس عبدالنذیر نے اس بات کا اظہار کیا تھاکہ وہ بابری مسجد کے کیس میں فیصلہ سنا کر اپنی قوم کے ہیرو بن سکتے تھے لیکن انہوں نے ملک کو ترجیح دی تھی۔

سماج وادی پارٹی لیڈر اور ایم ایل اے ابو عاصم اعظمی نے اپنے ردعمل میں کہا کہ انہیں مقدمہ کے سلسلہ میں انعام سے نوازا گیا ہے اور انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ایک عدالت میں کوئی جانبداری نہیں ہوتی اور نہ ہی تعصب برتا جاتا ہے۔  

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی کور کمیٹی کے رکن آصف فاروقی نے کہاکہ انہیں ان کی کارکردگی کاصلہ دیا گیا ہے اور ان کی نیت صاف ہے، تو انہیں گورنر شپ مل گئی اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے فیصلہ پر کھرے اترتے ہیں تو اصل عدالت تو اللّٰہ کی ہے، جہاں انہیں مزید سرخروئی مل جائے لیکن انصاف پر ایسے فیصلوں سے آنچ آسکتی ہے ۔

این سی پی لیڈر اور صحافی ایڈوکیٹ سید جلال الدین نے کہاکہ انہیں ان کا حق مل گیا ہے اور بہتر ہی ہوا ہے، درصل انہوں نے ضمیر فروشی کی تھی اور اس کا صلہ مل چکا ہے لیکن انہیں مستقبل کا بھی دھیان رکھنا ہوگا۔

جسٹس عبدالنذیر (سبکدوش) کی تقرری کی خبر پر ردعمل میں سابق ایم ایل اے ایڈوکیٹ وارث پٹھان نے کہا کہ بابری مسجد مقدمہ میں شامل ججوں کی یہ تیسری تقرری ہے۔ سابق چیف جسٹس گوگوئی کو راجیہ سبھا کا رکن بنایا گیا اور ایک جج کو سرکاری این سی ایس کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے اور جسٹس عبدالنذیر کو گورنر مقرر کیا گیا ہے جوکہ انصاف کے لئے ٹھیک نہیں ہے اور یہ ان کی سبکدوشی سے محض 40 دنوں بعد ممکن ہوا ہے۔

a3w
a3w