لائن آف کنٹرول پر پاک فوج کی فائرنگ، بھارتی فوج کا مؤثر جواب
لائن آف کنٹرول (LoC) پر جمعہ کو پاک فوج کی جانب سے کئی مقامات پر بلا اشتعال فائرنگ کی گئی، جسے سیزفائر معاہدے کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق بھارتی فوج نے مؤثر جوابی کارروائی کی ہے۔

سری نگر: لائن آف کنٹرول (LoC) پر جمعہ کو پاک فوج کی جانب سے کئی مقامات پر بلا اشتعال فائرنگ کی گئی، جسے سیزفائر معاہدے کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق بھارتی فوج نے مؤثر جوابی کارروائی کی ہے۔
لائن آف کنٹرول پر سیزفائر کی خلاف ورزی
خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کے مطابق ایک غیر نامزد ذریعے نے بتایا:
“لائن آف کنٹرول کے مختلف مقامات پر چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کی گئی جو پاکستان کی طرف سے شروع کی گئی تھی۔ بھارتی فوج نے اس کا مؤثر جواب دیا۔”
فائرنگ کا یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب بھارتی فوج کے سربراہ جنرل اوپندرا دویویدی آج سری نگر اور ادھمپور کے دورے پر روانہ ہونے والے ہیں۔ وہ وادی کشمیر میں تعینات اعلیٰ فوجی افسران اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے ساتھ سلامتی کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیں گے۔
پہلگام حملے کے بعد کشیدگی میں اضافہ
لائن آف کنٹرول پر یہ تازہ جھڑپیں اُس وقت ہوئیں جب پہلگام میں حالیہ دہشتگرد حملے میں 26 افراد جاں بحق ہوئے، جس کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں شدید اضافہ ہوا ہے۔
بھارت کی جوابی کارروائیاں: سندھ طاس معاہدہ معطل
پہلگام حملے کے بعد بھارت نے پاکستان پر سرحد پار دہشتگردی کی حمایت کا الزام لگاتے ہوئے متعدد سخت اقدامات کیے، جن میں شامل ہیں:
- 1960 کے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنا
- اٹاری بارڈر پر انٹیگریٹڈ چیک پوسٹ بند کرنا
- پاکستانی سفارتکاروں کو ناپسندیدہ شخصیت (Persona Non Grata) قرار دینا
- سارک ویزا استثنیٰ اسکیم (SVES) کے تحت جاری تمام ویزے منسوخ کرنا
- پاکستانی شہریوں کو 48 گھنٹوں میں بھارت چھوڑنے کی ہدایت
یہ فیصلے وزیراعظم نریندر مودی کی زیر صدارت ہونے والی کابینہ کی سیکیورٹی کمیٹی (CCS) کے اجلاس میں کیے گئے، جس میں وزیر داخلہ امیت شاہ سمیت دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔
پاکستان کا ردِعمل: سندھ طاس معاہدے کی معطلی ناقابلِ قبول
پاکستان نے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کو مسترد کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر بھارت نے دریائی پانی کی روانی کو روکا یا موڑا تو اسے “جنگ کا عمل” تصور کیا جائے گا۔
سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟
یہ معاہدہ 1960 میں ورلڈ بینک کی مدد سے طے پایا تھا اور اس کا مقصد بھارت اور پاکستان کے درمیان دریاؤں کے پانی کی تقسیم کو منظم کرنا تھا۔
- مشرقی دریاؤں (راوی، بیاس، ستلج) کا کنٹرول بھارت کے پاس ہے
- مغربی دریاؤں (چناب، جہلم، سندھ) پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا
- دریائے کابل اس نظام کا حصہ ہے لیکن وہ بھارت سے نہیں گزرتا
یہ دریائی نظام دونوں ممالک کی زرعی اور آبی سلامتی کے لیے نہایت اہم ہے۔
خدشہ: لائن آف کنٹرول پر کشیدگی مزید بڑھ سکتی ہے
ماہرین کے مطابق، موجودہ صورتحال کے پیشِ نظر لائن آف کنٹرول پر مزید جھڑپوں اور سیکیورٹی حالات کے بگڑنے کا خدشہ موجود ہے۔ آنے والے دنوں میں بھارت کی سفارتی اور فوجی حکمت عملی اہم کردار ادا کرے گی۔