یوروپ

پوٹن نے پریگوژن کی موت پر خاموشی توڑی

پوٹن نے کہا کہ تفتیش کار طیارہ حادثے کی تفتیش کریں گے مگر نتائج آنے میں وقت لگے گا۔انھوں نے کہا کہ انھیں بدھ کے روز ہونے والے طیارہ حادثے کے بارے میں جمعرات کی صبح آگاہ کیا گیا۔

ماسکو: روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے یوگینی پریگوزِن کو خراج تحسین پیش کیا جو کبھی ان کے ’شیف‘ کے طور پر جانے جاتے تھے اور جنھوں نے ان کے خلاف ایک مسلح بغاوت کی سربراہی کی تھی۔

متعلقہ خبریں
ناٹو کو یوکرین میں فوجی تعیناتی کے خلاف روسی صدر کا انتباہ
پوتین کی پر تعیش بکتر بند ٹرین میں سیلون اور جم بھی موجود، نئی تصاویر دیکھئے

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق روسی صدر ولادیمیر پوتن نے بدھ کی شب روس میں پیش آنے والے طیارے کے حادثے کے بارے میں اپنی خاموشی توڑتے ہوئے ہلاک ہونے والوں کے اہلخانہ سے تعزیت کا اظہار کیا ہے اور مسلح گروہ ’ویگنر‘ کے بانی وگینی پریگوژن کی ایک ’باصلاحیت تاجر‘ کے طور پر تعریف کی ہے مگر انھیں ’پیچیدہ‘ قرار دیا۔

جبکہ جمعرات کی بریفننگ کے دوران پینٹاگون کے ایک ترجمان نے کہا کہ امریکہ کا خیال ہے کہ ویگنر گروپ کے سربراہ کی ہلاکت ممکنہ طور پر طیارے حادثے میں ہی ہوئی ہے۔

ادھر روسی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس پر تحقیقات جاری ہے کہ آیا طیارے پر بم نصب کر کے دھماکہ کیا گیا۔ ایک امریکی اہلکار کا کہنا ہے کہ طیارے پر بظاہر دھماکہ ہی ہوا تھا مگر حادثے کی وجہ کی تاحال تصدیق نہیں ہوئی ہے۔

ٹی وی پر کیے گئے اپنے ایک خطاب میں پوتن نے کہا کہ ’میں پریگوژن کو طویل عرصے سے جانتا تھا۔ میں انھیں 1990 کی دہائی کے آغاز سے جانتا ہوں۔‘

بظاہر رواں برس جون میں مسلح گروہ ’ویگنر‘ (جس کی قیادت پریگوژن کے ہاتھ میں تھی) کی ناکام بغاوت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پوتن نے کہا کہ ’وہ ایک پیچیدہ قسمت والی شخصیت تھے جنھوں نے اپنی زندگی میں سنگین غلطیاں کیں لیکن ساتھ ہی اہم اور ضروری نتائج حاصل کرنے کی کوشش بھی کی، اپنے ذات کے لیے بھی اور مشترکہ مقصد کے حصول کے لیے میرے کہنے پر بھی…‘

انھوں نے کہا کہ ’جہاں تک میری معلومات ہیں (پریگوزن) بدھ کے روز افریقہ سے واپس لوٹے تھے جہاں ان کی ملاقات چند مخصوص حکام سے ہوئی تھی۔

صدر پوتن کا مزید کہنا تھا کہ ’ابتدائی معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ طیارے پر ویگنر کمپنی کے افراد سوار تھے۔ میں یہ وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ یہ وہ افراد ہیں جنھوں نے یوکرین میں نیو-نازی ریجیم کا مقابلہ کرنے کے مشترکہ مقصد میں اہم کردار ادا کیا۔ ‘

اپنے خطاب میں انھوں نے کہا کہ تفتیش کار طیارہ حادثے کی تفتیش کریں گے مگر نتائج آنے میں وقت لگے گا۔انھوں نے کہا کہ انھیں بدھ کے روز ہونے والے طیارہ حادثے کے بارے میں جمعرات کی صبح آگاہ کیا گیا۔

خیال رہے کہ روس کی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے گذشتہ رات بتایا تھا کہ ایک نجی طیارے کے حادثے میں اس پر سوار تمام دس افراد ہلاک ہو گئے ہیں اور روس کے مسلح گروہ ویگنر کے سربراہ یوگینی پریگوژن کا نام بھی اس طیارے کے مسافروں میں شامل تھا۔

ویگنر وہی گروپ ہے جس نے دو ماہ قبل روسی صدر ولادیمیر پوتن کے خلاف ناکام مسلح بغاوت کی تھی اور اس آپریشن کی قیادت پریگوژن ہی کر رہے تھے۔ویگنر سے منسلک ٹیلی گرام چینل گرے زون پر دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایک ایمبریئر طیارے کو ماسکو کے شمال میں ٹیور کے علاقے میں روس کے فضائی دفاعی نظام نے مار گرایا ہے۔

ماسکو سے سینٹ پیٹرزبرگ جانے والے اس نجی طیارے میں سات مسافر اور عملے کے تین افراد سوار تھے۔گرے زون نے کہا کہ مقامی باشندوں نے حادثے سے پہلے دو دھماکوں کی آوازیں سنی اور فضا میں دھویں کی دو لکیریں دیکھی تھیں۔طاس نیوز ایجنسی کا کہنا ہے کہ ’طیارے کے زمین سے ٹکرانے کے بعد آگ لگ گئی، اس کا مزید کہنا ہے کہ جہاز سے آٹھ لاشیں نکالی جا چکی ہیں۔’طیارہ آدھے گھنٹے سے بھی کم وقت تک ہوا میں تھا۔‘

62 سالہ پریگوژن نے 23 اور 24 جون کو روسی صدر کے خلاف مسلح بغاوت کی سربراہی کی تھی اور یوکرین سے اپنے جنگجوؤں کو منتقل کیا اور روسی شہر روستو آن ڈون پر قبضہ کیا اور ماسکو کی طرف پیش قدمی کرنے کی دھمکی دی تھی۔

ان کا یہ اقدام یوکرین کے تنازعے پر روسی فوجی کمانڈروں کے ساتھ مہینوں کی کشیدگی کے بعد سامنے آیا تھا۔اس تنازعے کو ایک معاہدے کے ذریعے حل کیا گیا جس نے ویگنر کے جنگجوؤں کو بیلاروس جانے یا روسی فوج میں شامل ہونے کی اجازت دی۔پریگوژن نے خود بیلاروس منتقل ہونے پر رضامندی ظاہر کی تھی لیکن وہ بظاہر آزادانہ طور پر نقل و حرکت کرنے میں کامیاب رہے ۔ وہ اس کے بعد روس میں دیکھے گئے اور مبینہ طور پر انھوں نے افریقہ کا دورہ بھی کیا۔

روس میں حکومت کی جانب سے تاحال اس بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا تاہم امریکہ میں قومی سلامتی کے امور کی ترجمان ایڈرین واٹسن نے کہا ہے کہ اگر پریگوژن کی روسی صدر پوتن کے ساتھ تاریخ کو مدِنظر رکھا جائے تو ان کی ممکنہ ہلاکت حیران کن نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں طیارے کی تباہی کی اطلاعات ملی ہیں اور اگر ان کی تصدیق ہو جاتی ہے تو کسی کو حیران نہیں ہونا چاہیے۔‘