ڈاکٹر زور اور دکنیات
ڈاکٹر محی الدین قادری زور ؔ /28 رمضان المبارک 1323ھ مطابق /6ڈسمبر 1905ء کو حیدرآباد کے محلے شاہ گنج میں پیدا ہوئے۔ پورا نام ابوالحسنات سید محی الدین قادری زور ہے۔ ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے۔

خواجہ عبداللطیف
ڈاکٹر محی الدین قادری زور ؔ /28 رمضان المبارک 1323ھ مطابق /6ڈسمبر 1905ء کو حیدرآباد کے محلے شاہ گنج میں پیدا ہوئے۔ پورا نام ابوالحسنات سید محی الدین قادری زور ہے۔ ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے۔ زور ؔ صاحب کا شمار جامعہ عثمانیہ کے ان خوش نصیب سپوتوں میں ہوتا ہے جن کے پیشانیوں کو بین الاقوامی شہرت چومتی ہے۔ ان میں ڈاکٹر زور ؔ سر فہرست ہیں۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ڈاکٹر زور ؔ مادر عثمانیہ کے ان فرزندوں میں سے ہیں جن پر اردو زبان وادب کو بڑا ناز ہے۔ وہ ایک کثیر الجہات ہمہ پہلو شخصیت کے مالک تھے۔
یعنی وہ بیک وقت شاعر بھی تھے اور افسانہ نگار بھی بلند پایہ نقاد بھی، با کمال محقق بھی نیز ادبی مورخ بھی، سوانح نگار بھی اس کے علاوہ مکتوب نگاری کے بھی ماہر تھے۔ لسانیات و دکنیات میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ غرض ادب کا کوئی گوشہ، کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جس پر نگاہ زور ؔ نہ گئی ہو۔ انہوں نے مختلف انداز میں علمی و ادبی کارنامے انجام دئیے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اردو کا کوئی اہل قلم دور دور تک دکھائی نہیں دیتا جو ڈاکٹر زور ؔ کی برابری کرسکے۔
خصوصاً زورؔ صاحب نے جو دکنیات پر تنقید اور تحقیق میں اور اس کے علاوہ صوتیات میں جو کارنامے انجام دیئے ہیں وہ کبھی بھی ماضی کے دھندلکوں میں پوشیدہ نہیں رہ سکتے بلکہ یہ کہنا قطعی غلط نہ ہوگا کہ یہ کارنامے ایک مدت گزرنے کے باوجود آنے والی نسل کے لئے منیار نور ہیں۔
دکنیات کی بات کی جائے تو وہ دکنی تحقیق کے میر کارواں ہیں۔ اس طرح لسانیات کا ذکر چھڑ جائے تو بلا شبہ کہا جاسکتا ہے کہ زور ؔ ”بابائے لسانیات“ ہیں۔ دکن اور اردوسچ پوچھئے تو ڈاکٹر زور ؔ کی کمز?وری تھی۔ یوم زور ؔ کے موقع پر خطبہ صدارت میں محمد ابراہیم علی انصاری، سابق ریاستی ومیر طبابت و صحت عامہ فرماتے ہیں کہ:
”اگر میں یہ کہوں کہ اردو زبان کے اور خصوصاً دکن ادب و ثقافت کے ڈاکٹر زور مرحوم مجدد اعظم تھے تو بیجا نہ ہوگا۔ اردو زبان کی بقاء اور اس کی ترقی کو وہ اپنا مقصد بنائے ہوئے تھے۔ اور اب یہ مسلمہ حقیقت کہ زور ؔ صاحب اردو کے بہت بڑے محسن اور علمبردار تھے۔ ادارہ ادبیات اردو کا قیام ڈاکٹر زور ؔ کا ایک عظیم کارنامہ ہے جو اس وقت تک ان کے نام کو روشن رکھے گا جب تک اردو زبان زندہ ہے۔ جس طرح مولوی عبدالحق مرحوم کے نام کے ساتھ انجمن ترقی اردو کا خیال آجاتا ہے۔ بالکل اسی طرح ڈاکٹر زورؔ مرحوم کا نام بھی ذہن میں آتے ہی فوراً خیال ادارہ ادبیات اردو کی طرف جاتا ہے۔“
(سب رس جولائی 1970ء ص 58)
وہ مادر جامعہ عثمانیہ کے چند سپوتوں میں سے ہیں جنہیں جامعہ اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تھی۔ اس تعلق سے زور ؔصاحب کے شاگرد رشید یوسف ناظم اپنے ایک مضمون ”ڈاکٹر زور ؔ کی یادیں“ میں رقم طراز ہیں کہ:
”جامعہ عثمانیہ سے انہیں ایسی محبت تھی جیسی کہ غالبؔ کو کلکتہ سے یا داغ کومُنی جان سے“ (ڈاکٹر زور کی یادیں سب رس نومبر 1962ء)
ڈاکٹر زور ؔ اردو کے ایک سچے مخلص تھے اُردو پر وہ جان چھڑکتے تھے۔ سچ کہیں تو وہ ایک سیدھی سادی اردو کے رسیا تھے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کبھی بھی بارات اردو کو فارسی کے گھوڑے پر نہیں نکالی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہیں فارسی سے کوئی الرجی تھی۔ کیونکہ وہ دکنی اردو سے خالص محبت کرتے تھے۔ دکنیات اور زور ؔ یا زور اور دکنیات ایک دوسرے میں پیوست ہیں کہ گویا یہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہوں۔ یعنی ایک کے بغیر دوسرا نا مکمل اور دوسرے کے بغیر پہلا کوئی معنی نہ رکھتا ہو۔ اس طرح اردو اور دکنیات سے زور ؔ صاحب کی وابستگی کے متعلق ڈاکٹر محمد انورالدین پروفیسر اردو، حیدرآباد سنٹرل یونیوسٹی قلمبند کرتے ہیں کہ:
”دکنی اور دکنیات سے زورؔ صاحب کو خاص وابستگی اور شغف تھا۔ بلکہ یہ ایک طرح سے ان کی زندگی کا حصہ بن چکے تھے۔ دکنی سے قطع نظر اردو زبان و ادب کی تاریخ بھی ان کی تخلیقی مطالعہ کا خاص موضوع تھا۔“
(ڈاکٹر زور ؔ کی مرتبہ تواریخ ادب و تذکرے‘ ص24)
ڈاکٹرزور صاحب نے اردو زبان و ادب کی آبیاری کی اور دکنی کلچر کو نہ صرف فروغ دیا بلکہ دکنی کلچر کے تحفظ کیلے ایک قابل قدر کارنامہ انجام دیا ہے۔ جسے ہم عہد آفرین کارنامہ کہہ سکتے ہیں۔ زور صاحب نے سلطنت گولکنڈہ کے پانچویں فرمانروا اور شہر حیدرآباد کے بانی سلطان محمد قلی قطب شاہ کے کلیات کی تدوین کے ذریعہ اردو زبان کو اور بھی کلاسیکل زبان بنادیااور ساتھ ہی ساتھ ولی ؔ دکنی کے بجائے پہلے اردو کا صاحب دیوان شاعر ہونے کا سہرہ قلی قطب شاہ کے سر رکھ دیا۔
اس طرح زور نے دکنی زبان و ادب کی بازیافت کی ہے۔ بھلے ہی محمد قلی قطب شاہ کے کلیات قدیم دکنی زبان میں ہو پھر بھی بلاشبہ وہ ڈاکٹر زور ؔ صاحب کا ایک زبردست زندہ جاوید کارنامہ ہے۔ اتنا ہی نہیں انہوں نے سلطان ”قلی قطب شاہ“ لکھ کر یہ ثابت کردیا کہ وہ صرف بہترین ادیب اور نقاد ہی نہیں بلکہ ایک بلند پایہ مورخ کے علاوہ ایک باکمال سوانح نگار بھی ہیں۔