مذہب

نماز تہجد – رکعات و اوقات

مختلف احادیث کو سامنے رکھ کر فقہاء نے جو بات لکھی ہے، وہ یہ کہ تہجد کی کم سے کم مقدار دو رکعت ہے، متوسط مقدار چار رکعت ہے اور زیادہ مقدار آٹھ رکعت ہے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عام معمول تھا: فینبغی القول بأن اقل التہجد رکعتین و اوسطۃ أربعا واکثرہ ثمان (ردالمحتار: ۲؍ ۳۶۸)

سوال:- (الف) تہجد کی نماز کم سے کم کتنی اور زیادہ سے زیادہ کہاں تک پڑھی جاسکتی ہے ؟

(ب) تہجد کا وقت کب شروع ہوتا ہے اور کب ختم ہوتا ہے اور بہتر وقت کونسا ہے ؟

(ج ) نماز تہجد کا جہراً پڑھنا افضل ہے یا سراً ؟

(د ) اگر کسی کے ذمہ قضا باقی ہوتو تہجد پڑھنا افضل ہے یا قضاء عمری ؟ (سید مزمل حسین، ملک پیٹ)

جواب: – (الف) مختلف احادیث کو سامنے رکھ کر فقہاء نے جو بات لکھی ہے، وہ یہ کہ تہجد کی کم سے کم مقدار دو رکعت ہے، متوسط مقدار چار رکعت ہے اور زیادہ مقدار آٹھ رکعت ہے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عام معمول تھا: فینبغی القول بأن اقل التہجد رکعتین و اوسطۃ أربعا واکثرہ ثمان (ردالمحتار: ۲؍ ۳۶۸)

(ب ) عشاء کی نماز کے بعد ہی تہجد کا وقت شروع ہوجاتا ہے، حدیث میں تہجد کو ’ صلاۃ اللیل ‘ سے تعبیر کیا گیا ہے؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ چاہے بکری کا دودھ دوہنے کے بقدر نماز پڑھی جائے؛ لیکن صلاۃ اللیل پڑھنا چاہئے، اور یہ بھی فرمایا کہ نماز عشاء کے بعد جو بھی نفل پڑھی جائے، وہ صلاۃ اللیل ہے: لا بد من صلاۃ بلیل ولو حلب شاۃ وما کان بعد صلاۃ العشاء فھو من اللیل(طبرانی فی الکبیر: ۱؍۲۴۵، مجمع الزوائد: ۲؍۲۵۲) اور نماز فجر کے شروع ہونے سے پہلے تک تہجد کا وقت باقی رہتا ہے، اگر کسی شخص کو درمیان شب میں اُٹھنا دشوار ہو تو وہ سونے سے پہلے تہجد پڑھ سکتاہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ فجر کا وقت شروع ہونے سے کچھ پہلے اُٹھ جائیں اور اس وقت تہجد ادا کرلیں؛ تاہم افضل وقت رات کا درمیانی تہائی ہے، یعنی پہلی تہائی میں آرام کرے، دوسری تہائی میں تہجد پڑھے اور تیسری تہائی میں پھر آرام کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول مبارک اسی سے قریب تر تھا اور اگر نصف شب سونا چاہے اور نصف میں عبادت کرنی چاہے تو دوسرے نصف میں تہجد پڑھنا افضل ہے: ولو جعلہ أثلا ثا فالأوسط أفضل ولو انصافا فالاخیر أفضل (الدرالمختار مع الرد: ۲؍۴۶۸)

(ج ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول مبارک تہجد میں جہراً تلاوت کا تھا؛ البتہ آواز اتنی بلند بھی نہ ہو کہ جس سے دوسروں کی نیند میں خلل ہو، حضرت ابوبکرؓ بہت ہلکی آواز میں پڑھتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے ان کو آواز بلند کرنے کو کہا اور حضرت عمرؓ کی آواز زیادہ بلند ہوتی تھی تو آپ نے ان کو آہستہ پڑھنے کو کہا، اس سے معلوم ہوا کہ معتدل آواز میں جہراً پڑھنا افضل ہے، فقہاء نے بھی صراحت کی ہے کہ رات کی نفل نمازوں میں جہراً قرآن پڑھنا افضل ہے؛ لیکن سراً بھی نماز پڑھنے کی گنجائش ہے: وأما فی التطوعات فإن کان فی النہار یخافت، وإن کان فی اللیل فھو بالخیار إن شاء خافت وإن شاء جہر، والجہر أفضل (بدائع الصنائع: ۱؍۱۶۱)

(د ) قضاء عمری واجب ہے اور تہجد پڑھنا سنت؛ لیکن چوںکہ نماز تہجد کی بڑی فضیلت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز نماز تہجد ہے: أفضل الصلاۃ بعد الفریضۃ صلاۃ اللیل (مسلم، حدیث نمبر: ۲۳۲ ) اس لئے بہتر ہے کہ زیادہ وقت قضاء عمری کرے اور دو رکعت، جو تہجد کی کم سے کم مقدار ہے، تہجد کی نیت سے پڑھے۔

a3w
a3w