دہلی

عتیق احمد اور اشرف کے قتل میں پولیس کا کوئی قصور نہیں

فائرنگ کے اس واقعہ کا قومی ٹیلی ویژن پر راست نشر کیاگیاتھا۔ایڈوکیٹ وشال تیواری کی جانب سے داخل کی گئی درخواست میں مذکورہ کیسس کے موقف کے بارے میں ریاست نے اپنی رپورٹ میں تفصیلات بتائی ہیں۔

نئی دہلی: حکومت اتر پردیش نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ خوفناک جرائم پیشہ اور سابق رکن لوک سبھا عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف علی کے 15اپریل کو پریاگ راج میں قتل کی تحقیقات میں پولیس کا کوئی قصور نہیں پایا گیا ہے۔

متعلقہ خبریں
یوگی نے عتیق احمد کی اراضی پر تعمیر کردہ فلیٹس کی چابیاں حوالے کیں
محمد سمیع کے بھائی محمد کیف کا ایک اور یادگار مظاہرہ
اروند پنگڑیا، 16ویں فینانس کمیشن کے سربراہ مقرر
عصمت دری کے ملزم تھانہ انچارج کی ضمانت منسوخ
فیروزآباد کا نام چندرا نگر رکھنے کی تجویز کو منظوری

سپریم کورٹ میں داخل کی گئی موقف رپورٹ میں ریاست اتر پردیش نے کہاہے کہ اس نے اس واقعہ اور دیگر کیسس بشمول جرائم پیشہ وکاس دوبے کے علاوہ 2017 سے پولیس کے مختلف انکاونٹرس کی آزادانہ و منصفانہ تحقیقات کو یقینی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔

 واضح رہے کہ 60 سالہ عتیق احمد اور اشرف کو تین افراد نے انتہائی قریب سے گولی ماردی تھی جنہوں نے اپنے آپ کو صحافی ظاہر کیاتھا۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیاتھا جب 15 اپریل کو پولیس ان دونوں کو طبی معائنہ کے لیے میڈیکل کالج لے جارہی تھی۔

 فائرنگ کے اس واقعہ کا قومی ٹیلی ویژن پر راست نشر کیاگیاتھا۔ایڈوکیٹ وشال تیواری کی جانب سے داخل کی گئی درخواست میں مذکورہ کیسس کے موقف کے بارے  میں ریاست نے اپنی رپورٹ میں تفصیلات بتائی ہیں۔

تیواری نے احمد اور اشرف کے قتل کی آزادانہ تحقیقات اور عدالت کے علاوہ مختلف کمیشنوں کی ماضی میں کی گئی سفارشات کی تعمیل کامطالبہ کیاتھا۔ موقف رپورٹ میں احمد اور اشرف کے قتل کی تحقیقات کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہاگیا کہ تحقیقات جزوی طور پر جاری ہیں تاکہ بعض دیگر نکات کے بارے میں شواہد اکھٹے کئے جاسکیں۔

 بعض انکاونٹرس بشمول جولائی 2020 میں جرائم پیشہ وکاس دوبے کے انکاونٹر کے بارے میں ریاست نے کہاہے کہ ان واقعات کی سپریم کورٹ کے رہنمایانہ خطوط کے مطابق مکمل تحقیقات کی گئی ہیں۔

 موقف رپورٹ میں کہاگیا کہ درخواست گزار نے اپنی عرضیوں کے ذریعہ جن سات واقعات (احمد اور اشرف کے قتل سمیت) کو اجاگر کیاہے۔ ان کی سپریم کورٹ کی ہدایات اور رہنمایانہ خطوط کے مطابق مکمل تحقیقات کی گئی ہیں اور جن معاملات کی تحقیقات مکمل ہوئی ہیں۔

 ان میں پولیس کا کوئی قصور نہیں پایاگیا ہے۔ یہ رپورٹ عدالت عظمی میں داخل کی گئی  جہاں دو علحدہ درخواستیں داخل کی گئی ہیں۔ ایک درخواست ایڈوکیٹ وشال تیواری اور دوسری مہلوک جرائم پیشہ عتیق احمد کی بہن عائشہ نوری نے داخل کی ہے اور اپنے بھائیوں کے قتل کی جامع تحقیقات کی ہدایت دینے کا مطالبہ کیاہے۔