شمال مشرق

ڈیٹینشن کیمپ بھیجے گئے مسلمانوں کی باز یابی کیلئے ہم ہائیکورٹ جائیں گے: مولانا بدرالدین اجمل

مولانا بدر الدین اجمل نے آسام کے بارپیٹا ضلع سے 28 مسلمانوں کو ڈیٹینشن کیمپ بھیجے جانے پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سب ہندوستانی شہری ہیں، یہ محض مسلمانوں کو پریشان کرنے اور اُن میں خوف وہراس پیدا کرنے کی کوشش ہے۔

نئی دہلی: آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈےموکریٹک فرنٹ کے قومی صدر ، سابق رکن پارلیمنٹ اور جمعیة علماءصوبہ آسام کے صدر مولانا بدر الدین اجمل نے آسام کے بارپیٹا ضلع سے 28 مسلمانوں کو ڈیٹینشن کیمپ بھیجے جانے پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سب ہندوستانی شہری ہیں، یہ محض مسلمانوں کو پریشان کرنے اور اُن میں خوف وہراس پیدا کرنے کی کوشش ہے۔

متعلقہ خبریں
شہریت ترمیمی قانون اصل باشندوں پر اثرانداز نہیں ہوگا :سونووال
آسام میں مولانا بدرالدین اجمل کی پارٹی کے لوک سبھا امیدواروں کا اعلان
آسام میں سی اے اے مکمل طور پر غیر معمولی : ہیمنتا بسوا شرما
سرکاری فام حاصل کرنے قطار میں ٹھہری خواتین راہول سے ملنے دوڑپڑیں
آسام سے افسپا پوری طرح ہٹادینے مرکز سے سفارش

آج یہاں جاری ایک ریلیز کے مطابق انہوں نے سوال کیا کہ آخر گرفتار شدہ لوگوں میں سے کسی کے والدین، کسی کی اولاد اور رشتہ دار سب پولس کے مطابق ہندوستانی ہیں تو پھر یہ لوگ غیر ملکی کیسے ہو گئے؟۔

ہم لوگ ان کے متعلقہ کاغذات اور تفصیلات جمع کروا رہے ہیں اور جمعیة علماءصوبہ آسام کے پلیٹ فارم سے ان کا مقدمہ ہائی کورٹ میں اور ضرورت پڑی تو سپریم کورٹ میں لڑیں گے اور انہیں انصاف دلائیں گے۔

ماضی میں ہم لوگوں نے ایسے بہت سے متاثرین کو انصاف دلانے کے لئے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے اور سچ کی جیت ہوئی ہے۔ مولانا نے کہا کہ در اصل محض شک کی بنیاد پر مسلمانوں کو پولس کے ذریعہ نوٹس بھیج دیا جاتا ہے، اس کے بعد ٹریبیونل میں غیر تربیت یافتہ افسران کے ذریعہ اُن کو بار بار پیشی کے لئے بلایا جاتا ہے، ہراساں کیا جاتا ہے، ڈوکومنٹ میں ذرا سی کمی کی بنیاد پر اُن کو گرفتار کروا دیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب ایسے لوگوں کا مقدمہ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ لے جایا جاتا ہے تو پھر ایسے لوگوں کو انصاف ملتا ہے اور سرکارکے اشارہ پر کام کرنے والی مقامی پولس کی قلعی کھلتی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ آخر ان سب مراحل کے گزرنے کے ایام میں اُن کو ہونے والی ذہنی، جسمانی اور مالی نقصان کے لئے کسی کو ذمہ دار کیوں نہیں ٹھہرایا جاتا ہے؟

ان افسران سے بھرپائی کیوں نہیں کی جاتی ہے؟مولانا نے مزید کہا کہ آسام میں ہر سال سیلاب آتا ہے جس کی وجہ لوگوں کو اپنا گھر اور گاﺅں چھوڑنا پڑتا ہے،ہر سال درجنوں گاﺅں کٹ کر ندی کا حصہ بن جاتا ہے، ایسے میں لوگ کسی طرح جان بچاکر کہیں پناہ لیتے ہیں، اس دوران جہاں ان کا گھر ڈوبتا ہے یا ندی میں بہہ جاتا ہے اس میں ان کا ڈوکومنٹ بھی ضائع ہوجاتا ہے۔

اب ایسے لوگوں سے اگر مکمل ڈوکومنٹ مانگا جائے گا تو وہ کہاں سے پیش کر پائیں گے؟اسی طرح بہت سے لوگوں کے ڈوکومنٹ میں نام کی اسپیلنگ وغیرہ میں فرق ہوجاتا ہے ، ایک میں کچھ ہوتا ہے جب کہ دوسرے میں کچھ الگ ہوتا ہے، پولس ایسے لوگوں کو بھی نہیں چھوڑتی ہے۔

انہوں نے دعوی کیا کہ کوئی آپسی دشمنی میں کسی مسلمان کے خلاف شکایت کر دیا تو اس مسلمان کو نوٹس بھیج دیا جاتا ہے، اب وہ نوٹس اس تک پہونچے یا نہ پہونچے اس بات کو کنفرم بھی نہیں کیا جاتا ہے بلکہ اگر نوٹس کے مطابق وہ تاریخ پر پیش نہیں ہوا تو ان کو غیر ملکی قرار دے دیا جاتا ہے جبکہ اسی شخص کا باپ یا ماں یا بھائی، ےا بہن یا بیٹا ہندوستانی ہوتا ہے۔

 یہ سراسر نا انصافی ہے جس کی بنیاد کانگریس نے ڈالی تھی جب اس نے اپنے دورِ حکومت میں "ڈی ووٹر” کا شگوفہ آسام میںچھوڑا اور” ڈیٹینشن کیمپ” بنوایا جو بنےادی انسانی حقوق سے محروم ایک کال کوٹھری تھا جس میں مسلمانوں کو رکھا گیا۔

اب بی جے پی اسی روایت پر چل رہی ہے اور مزید ظلم و بربریت کا مظاہرہ کر رہی ہے اور مسلمانوں کو پریشان کرنے اور ان کو خوف زدہ کرنے کی نت نئی منصوبہ بندی میں مصروف ہے، یہ واقعہ اسی کی ایک کڑی ہے۔مگر ہم لوگ اس طرح کے ظلم کے خلاف پہلے بھی لڑے ہیں اور آئندہ بھی یہ لڑائی جاری رہے گی۔

a3w
a3w