مضامین

ناشتہ کیوں ضروری ہے؟

ناشتے میں اناج کی بنی ہوئی اشیاء ضرور شامل کرنی چاہئیں کیونکہ اناج وٹامنز،معدنیات،فائبرز اور کاربوہائیڈریٹس اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہوتے ہیں۔ یعنی اناج انسانی صحت کیلئے ایک خزانے کی مانند ہیں۔

ڈاکٹر رانا لیاقت:

متعلقہ خبریں
چائے ہوجائے!،خواتین زیادہ چائے پیتی ہیں یا مرد؟
مشرکانہ خیالات سے بچنے کی تدبیر
ماہِ رمضان کا تحفہ تقویٰ
دفاتر میں لڑکیوں کو رکھنا فیشن بن گیا
بچوں پر آئی پیڈ کے اثرات

مثال ہے کہ یک لقمہ صباحی،بہتر از مرغ و ماہی یعنی صبح کا ایک لقمہ دن بھر کئی مرغیاں اور مچھلیاں کھانے سے بہتر ہے۔جو لوگ اناج سے بنی غذائیں استعمال کرتے ہیں ان میں امراض قلب کا خطرہ کم ہو جاتا ہے ۔

ماہرین صحت متفق ہیں کہ ناشتے میں کاربوہائیڈریٹس اور فائبر والی غذاؤں کا استعمال زیادہ ہونا چاہئے۔صبح کا ناشتہ رات کی نیند سے بیدار ہونے کے بعد کھایا جانے والا دن کا پہلا کھانا ہے۔ انگریزی میں اس کو ’’بریک فاسٹ‘‘ یعنی پچھلی رات کا فاقہ توڑنا کہا جاتا ہے۔

یہ بات مشہور ہے کہ صبح کا ناشتہ سارے دن کی خوراک میں سب سے اہم ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ناشتہ اس قدر اہم کیوں ہے؟تو اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ خوراک دراصل ہمارے جسم کا ایندھن ہے جس سے ہمارا جسم توانائی حاصل کرتا ہے۔

صبح ناشتہ کرنے سے ہمارے جسم کا میٹابولزم بڑھ جاتا ہے جس کے باعث نیند کے دوران کیلوریز جلنے کا سست پڑ جانے والا عمل تیز ہو جاتا ہے اور ہم تازہ دم ہو کر اپنے کاموں میں مشغول ہو جاتے ہیں۔عام یا روایتی ناشتے کے مینیوز مختلف علاقوں میں مختلف ہوتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ان میں ردو بدل بھی ہوتا رہتا ہے۔

صبح کا ناشتہ کرنے کی روایت قدیم زمانے سے موجود ہے۔قدیم مصر میں کسان روزانہ صبح کا ناشتہ کرتے تھے۔اس سے پہلے کہ وہ کھیتوں میں کام کیلئے جائیں یا فرعونوں کے حکم پر کام کریں۔یہ ناشتہ عموماً گندم کی روٹی،سوپ،پیاز،بیئر وغیرہ پر مشتمل ہوتا تھا جبکہ یونانی ادب میں سوپ میں ارسٹن کا بے شمار ذکر ملتا ہے۔یہ طلوع آفتاب کے کچھ دیر بعد لیا جاتا تھا۔

ابتداء  میں اس کھانے کو دن کی شروعات میں استعمال کیا جاتا تھا لیکن بعد میں ارسٹن کو دوپہر کے قریب کھایا جانے لگا اور صبح کے وقت نیا کھانا تعارف کروا دیا گیا۔یونان میں عام طور پر اکرائیزما نامی کھانا صبح اٹھنے کے فوراً بعد کھایا جاتا تھا۔اکرائیزما شراب میں ڈوبی ہوئی جو کی روٹی پر مشتمل ہوتا تھا جس میں کبھی کبھار انجیر یا زیتون کو بھی شامل کر دیا جاتا تھا۔

قدیم رومی جو ناشتہ کرتے تھے اس کو جینٹا کولم کہتے تھے یہ عام طور پر روٹی ،پنیر،  زیتون،سلاد،گری دار میوے،کشمش اور گوشت پر مشتمل ہوتا تھا۔

اس کے ساتھ وہ شہد اور خوشبودار مصالحوں پر مشتمل مشروبات بھی پیتے تھے جبکہ رومن سپاہی ناشتے کیلئے دلیہ،جو اور بھنی ہوئی گندم پکا کر کھاتے تھے۔

قرون وسطیٰ  1500۔ 500ء میں یورپ میں ناشتے کو عام طور پر اہم کھانا نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ قرون وسطیٰ میں ابتدائی طور پر اس کا عملی طور پر وجود نہیں تھا۔روزانہ رسمی طور پر صرف دو کھانے کھائے جاتے تھے۔ ایک دوپہر کے وقت اور دوسرا شام کو۔

قرونِ وسطیٰ میں دو کھانوں کا نظام جاری رہا۔بعض اوقات اور بعض جگہوں پر صبح کا ناشتہ صرف بچوں، بوڑھوں،بیماروں اور کام کرنے والوں کو دیا جاتا تھا۔ کسی اور انسان کو ناشتہ نہیں دیا جاتا تھا کیونکہ ناشتہ کھانے کا مطلب یہ تھا کہ وہ کوئی غریب تھا،کم درجے کا کسان یا مزدور تھا جسے واقعی اپنی صحت کو برقرار رکھنے کیلئے توانائی کی ضرورت تھی یا وہ بہت کمزور تھا اور دوپہر کے کھانے کا انتظار نہیں کر سکتا تھا۔

تیرہویں صدی میں ناشتے کا رواج شروع ہوا اور ناشتے میں روٹی کا ایک ٹکڑا اور پنیر ہوتا تھا لیکن اس میں گوشت شامل نہیں ہوتا تھا۔ مشروب کے طور پر بیئر کا استعمال ہو سکتا تھا۔پندرہویں صدی میں مغربی یورپ میں ناشتے میں گوشت کو بھی شامل کر لیا گیا۔

اس وقت تک ناشتے میں زیادہ تر بزرگ ہی شامل ہوتے تھے۔رفتہ رفتہ سولہویں صدی تک ناشتے کا رواج عام ہو گیا۔سولہویں صدی میں یورپی غذا میں کیفین والے مشروبات یعنی چائے اور کافی کا ناشتے میں اضافہ ہو گیا۔

پندرہویں صدی کے بعد ناشتے کو جدید ناشتہ کہا جاتا ہے۔روایتی طور پر افریقہ کے کھانوں میں مقامی طور پر دستیاب پھلوں،اناج اور سبزیوں کے ساتھ ساتھ دو دفعہ اور گوشت کی مصنوعات کو ناشتے میں شامل کیا جاتا ہے۔

مصری ناشتے میںروٹی،پنیر،انڈے،مکھن،دہی،کریم استعمال کرتے  ہیں،اسی طرح جاپان میں سوپ اور چاول کا دلیہ ناشتے میں عام ہے۔سولہویں صدی میں اس بات کا ادراک ہو گیا تھا کہ صبح کا ناشتہ ایک اہم کھانا ہے۔مثال کے طور پر 1551ء میں تھامس ونگ فیلڈ نے کہا کہ ناشتہ ضروری ہے۔

1589ء میں تھامس کوکن نے کہا کہ صبح کا ناشتہ چھوڑنا غیر صحت بخش ہے۔ناشتہ نہ کرنے کے کافی نقصانات ہیں۔مثلاً ناشتہ نہ کرنے والوں کو دل کے دورے اور امراض قلب کا خطرہ 27 فیصد تک بڑھنے کا امکان ہے کیونکہ ناشتہ چھوڑ دینے سے جسم میں اضافی تناؤ پیدا ہو جاتا ہے جس سے بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے۔

لہٰذا ناشتہ کرنے سے انسان دل کے مہلک امراض سے بچ جاتا ہے۔ایک تحقیق کے مطابق ناشتہ نہ کرنے سے انسان کی دماغی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں اور خاص طور پر یادداشت متاثر ہوتی ہے اور بچے اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ناشتہ نہ کرنے والوں کے کولیسٹرول پر بھی برا اثر پڑتا ہے اور کولیسٹرول کا لیول بڑھ جاتا ہے۔

ناشتہ نہ کرنے والوں میں ذیابیطس کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔خاص طور پر عورتوں میں ذیابیطس ٹائپ ٹو ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔صبح ناشتہ کرنا وزن بڑھنے سے روکتا ہے یعنی موٹاپا طاری ہونے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔

ناشتے کے بارے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں کون کونسی غذائیں استعمال میں لائی جائیں۔اس بارے میں ماہرین کی مختلف رائے ہے،لیکن اس بات پر سب متفق ہیں کہ ناشتہ میں کاربوہائیڈریٹس اور فائبر والی غذاؤں کا استعمال زیادہ ہونا چاہیے۔آئیے دیکھیں کہ ناشتے میں کون کونسی غذاؤں کا استعمال کرنا چاہئے اور ان سے کونسے فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق کاربوہائیڈریٹس، فائبر اور پروٹین پر مشتمل مندرجہ ذیل اشیاء ناشتے میں استعمال کرنے کیلئے بہترین ہیں۔دہی کئی صدیوں سے ہمارے ناشتے کا اہم ترین جزو رہا ہے اور پنجاب کے باسیوں کی مرغوب غذا ناشتے میں دہی اور لسی ہے۔دہی اور لسی میں کیلشیم کی کافی مقدار پائی جاتی ہے اس کے ساتھ پروٹین اور چکنائی بھی ہوتی ہے۔

یہ تمام اجزاء انسانی صحت کیلئے نہایت اہم ہیں۔اگر آپ وزن کم کرنا چاہتے ہیں تو گریپ فروٹ کو ناشتے میں شامل کر یں ،اسے آپ دہی کے ساتھ ملا کر استعمال کر سکتے ہیں۔گریپ فروٹ میں چربی پگھلانے والے اجزاشامل ہوتے ہیں مزید برآں یہ خون میں شکر کی مقدار کو بھی کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔

ناشتے میں اناج کی بنی ہوئی اشیاء ضرور شامل کرنی چاہئیں کیونکہ اناج وٹامنز،معدنیات،فائبرز اور کاربوہائیڈریٹس اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہوتے ہیں۔ یعنی اناج انسانی صحت کیلئے ایک خزانے کی مانند ہیں۔

یاد رکھیں جو لوگ خالص اناج سے بنی ہوئی غذاؤں کا استعمال کرتے ہیں ان میں دل کے امراض کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔جو لوگ ناشتے میں اناج،براؤن چاول،مکئی،دلیہ اور جو کا استعمال کرتے ہیں وہ بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔مثلاً ہڈیوں کی بیماریاں،بلڈ پریشر اور پیٹ کی بہت سی بیماریوں کے ساتھ ساتھ ذیابیطس کا خطرہ بھی کم ہو جاتا ہے۔

٭٭٭