سلیم احمد(ایم۔اے۔ایم فل عثمانیہ)
حالیہ عرصہ کے دوران پارلیمنٹ مباحث میں حصہ لیتے ہوئے بی جے پی دہلی کے رکن پارلیمان رمیش بدھوری کی جانب سے امروہہ کے بی ایس پی رکن پارلیمان دانش علی کے خلاف انتہائی بدزبانی اور پارلیمان کی عمارت جہاں قانون سازی کی جاتی ہے میں اس طرح کے واقعہ کے رونما ہونے پر ہر کوئی حیران ہے۔ توقع تھی کہ بی جے پی رکن پارلیمان کے خلاف کارروائی کی جاتی لیکن اس کے برخلاف انہیں دو اہم عہدوں سے نوازا گیا جو بی جے پی کی پالیسی رہی ہے۔
اس ضمن میں مجلس کے رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے بتایا تھا کہ مذکورہ رکن پارلیمان کو اہم عہدوں سے سرفراز کرے گے اور ان کی پیش قیاسی سچ ثابت ہوئی۔
رمیش بدھوری کو دہلی کبڈی اسوسی ایشن کے صدر بنائے گئے اس کے علاوہ انہیں راجستھان کے ضلع ٹونک کا نگرانکار عہدہ سے بھی نوازا گیا ہے۔ جس کی اطلاع بدھوری نے اپنے سوشیل میڈیا اکاؤنٹ کے ذریعہ دی ہے اور انہوں نے نئے عہدہ کو سنبھالنے کے بعد تصاویر بھی سوشیل میڈیا پر پوسٹ کیں۔
ضلع ٹونک میں مسلمانوں کی آبادی پچاس فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ یہاں سے سچن پائلٹ نمائندگی کرتے ہیں۔ رمیش بدھوری کو شاید اسی لیے اس علاقہ کا نگرانکار بنایا گیا ہے تاکہ وہ اس مسلم اکثریتی علاقہ میں بی جے پی کے لئے راہ ہموار کرسکیں۔ سچن پائلٹ حلقہ اسمبلی سے نمائندگی کرتے ہیں اور وہ سابق میں کانگریس کی مرکزی حکومت میں بحیثیت وزیر آزادانہ چارج کی ذمہ داری انجام دے چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ جموں و کشمیر کے سابق چیف منسٹر فاروق عبداللہ کی دختر سے شادی کرچکے ہیں جن سے انہیں دو لڑکے بھی ہیں۔ شاید بی جے پی سچن پائلٹ کو اس علاقہ سے ناکام بنانے کی ٹھان چکی ہے اور ٹونک علاقہ میں بھدوری کی نئی ذمہ داری اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ اب نہ صرف دہلی میں اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گے بلکہ راجستھان میں بھی بی جے پی کو حصول اقتدار میں بھرپور فرقہ پرستی کو ہوا دیتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات جاری کریں گے جو بی جے پی کی انتخابی مہم کا ایک حصہ ہے۔
رمیش بدھوری کی جانب سے جس طرح ملک کے آئینی ادارہ میں بداخلاقی اور بدزبانی کا مظاہرہ کیا گیا ایسا لگتا ہے کہ یہ پہلے سے طے شدہ منصوبہ بند انداز اور منظم طریقہ سے انجام دیا گیا ۔ بی جے پی کاکارنامہ تھا جو اس آئینی ادارہ کے اندر مسلمان ایم پی کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہوئے یہ پیغام دینا چاہتی تھی کہ وہ اب ملک بھر میں اسی طرز پر مبنی کارہائے نمایاں انجام دیتے رہیں گے جو آئندہ سال2024ء کے پارلیمانی انتخابات میں نہ صرف کامیابی کا ایک حصہ ہوسکتا ہے بلکہ جس طرح ستیہ پال ملک سابق گورنر جموں و کشمیر نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ نریندر مودی اور آر ایس ایس منصوبہ بند انداز میں ملک میں ہندتوا ایجنڈہ پر عمل پیرا ہیں اور اسی ایجنڈہ کو ملک میں پروان چڑھانے کے عمل کے حصہ طور پر نئی پارلیمانی عمارت کے افتتاح کے چند یوم کے اندر ہی یہ پیغام دیا گیا کہ اب مودی حکومت اپنے ہندوتوا ایجنڈہ کی تکمیل کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے چاہے انہیں خود کو یا پھر پارٹی کی قیادت کو ذلیل و خوار ہونے پر مجبور ہی کیوں نہ ہونا پڑے۔
ملک میں مسلم اقلیتوں کے علاوہ دلستوں اور پسماندہ طبقات کو نفسیاتی طور پر خوفزدہ کرتے ہوئے مذکورہ فرقہ پرست ٹولہ اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے کوشاں و سرگرداں ہے لیکن اب ملک کی عوام بی جے پی اور آر ایس ایس کے حربوں کو بھانپ چکے ہیں اور ملک کی ریاستوں میں ہونے والے ضمنی چناؤ میں نہ صرف منہ کی کھانی پڑرہی ہے بلکہ بی جے پی کو بہت بڑی خفت بھی اٹھانی پڑرہی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ بی جے پی انتخابی میدان عمل میں کامیابی کے حربوں کے تحت وہ دیگر سیاسی جماعتوں کو اپنے چنگل میں پھانس لیتی ہے یا پھر ایسا لائحہ عمل تیار کیا جاتا ہے کہ مذکورہ سیاسی جماعتیں انتخابی تشہیر کے مواقع پر بی جے پی کے بنے ہوئے جال میں پھنس جائیں اور اس کا راست طور پر فائدہ بی جے پی کو ہی ہوگا کیوں کہ بی جے پی تمام انتخابی تشہیر کا محور اپنے اطراف چلائی جاتی ہے جس کے ذریعہ عوام میں بی جے پی کا نام و نشاں اونچا ظاہر ہونے لگے۔
شاید کانگریس اور اس کی حلیف جماعتوں نے بی جے پی کی تشہیر اور اپنے محور پر دیگر سیاسی جماعتوں کو گھمانے کی سیاسی چالبازیوں کو اب اچھی طریقہ سے جان چکی ہے اور اب بی جے پی مخالف جماعتیں بی جے پی کو ان کے اطراف گھومنے پر مجبور کردی گئی ہے۔ جس کی تازہ مثال ریاست کرناٹک میں کانگریس پارٹی کی شاندار جیت سے دی جاسکتی ہے ۔جہاں بی جے پی نے مسلم فرقہ کے افراد کے خلاف ہر وہ حربہ استعمال کیا جس کے ذریعہ سماج کے طبقات میں ایک دوسرے فرقہ کے خلاف نفرت کا بیج بویا جاسکے لیکن یہاں اس کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور منہ کی کھانی پڑی اور اب بی جے پی کو یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آچکی ہے کہ ملک کی عوام کو اب بے وقوف بنانا آسان نہیں ہے۔
نریندر مودی جو زہر الگنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اور اپنے شاگرد مہیش بدھوریا کے ذریعہ اپنے منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جبکہ اس کے برخلاف ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ فوری اثر کے ساتھ رمیش بھدوری کے خلاف تادیبی کارروائی کرتے ہوئے انہیں فی الفور عہدہ سے برطرف کرنے کی سفارش کرتے جبکہ اسپیکر اوم برلا جو معمولی سے واقعات پر اراکین پارلیمان کی سرزنش کرتے ہوئے دیکھے گئے جبکہ ایوان میں جہاں ملک کے عوام پارلیمانی کارروائی کا راست نشریات کا مشاہدہ کررہے تھے بی ایس پی کے رکن پارلیمان دانش علی کو صرف اس لئے نشانہ بنایا کہ وہ مسلمان ہیں۔ رمیش بدھوری نے جو اندازِ تخاطب اختیار کیا شاید ملک کی ستر70 سالہ تاریخ میں ایسا پہلی بار دیکھنے میں آیا۔ دانش علی کو بھڑوا ‘ کٹوا‘ ملا کے الفاظ سے مخاطب کرتے ہوئے ملک کی آئینی عمارت میں نہ صرف رکن پارلیمان بلکہ سارے مسلمانوں کو ان الفاظ سے نوازا گیا ہے جو ناقابل معافی جرم ہے اور اس کی سزا ضرور دی جانی ہوگی تاکہ آگے کوئی بھی رکن پارلیمان دوبارہ اس طرح کی جرأت نہ کرسکے۔
سب سے تعجب خیز بات یہ رہی کہ بی ایس پی کی صدر مایاوتی کی جانب سے صرف ضابطہ کی کارروائی کے بطور چند الفاظ کہے گئے اور خاموشی اختیار کرلی گئی ۔ جبکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بی ایس پی جو کہ ایک قومی سیاسی جماعت ہے وہ ملک گیر سطح پر اس واقعہ کے خلاف سڑکوں پر دیگر سیاسی جماعتوں کے تعاون سے احتجاج کرتی تاکہ نہ صرف ایوان کی ساکھ کو برقرار رکھا جاسکے بلکہ ملک کے اندر اس طرح چاہے جو کوئی بھی ہمت کرے کہ مسلمان طریقہ کے افراد کو نیچا دکھانے کی کوشش ان پر بھاری پڑسکتی ہے لیکن دانش علی کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا جو قابل افسوس ہے۔
اس کے برخلاف مودی وہی اپنی پرانی سیاسی چال جاری رکھے ہوئے ہیں ‘ اب وہ خواتین تحفظات کے بعد ایک نیا سیاسی تہلکہ مچادیا ہے کہ کانگریس پارٹی کو اربن نکسلائیٹ بلارہے ہیں۔
نریندر مودی کو ملکارجن کھرگے‘ راہول گاندھی ‘ سونیا گاندھی کے علاوہ کانگریس کے تام قدآور سیاسی قائدین اربن نکسلائیٹ دکھائی دے رہے ہیں ۔ جبکہ ان ہی کی حکومت کے وزیر داخلہ نے اس بات کی کھل کر وضاحت کرچکے ہیں کہ ملک میں نکسلائیٹس کا خاتمہ ہوچکا ہے۔
جہاں کہیں مسلمان کسی بھی غلط واقعہ میں ملوث پائے جائیں انہیں پاکستانی ایجنٹ قراردینا یا پھر غدار قراردینا موجودہ حکومت کا شیوہ بن چکا ہے اور حالات کے تناظر میں حکومت وقت کو اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانی ہوگی تاکہ ملک میں بسنے والے تمام طبقات کو اس ملک کی ترقی کے تمام ثمرات حاصل ہوں اور ہر شخص کو پروقار اور باعزت زندگی گزارنے کی دستور میں جو طمانیت دی گئی ہے اس پر عمل کرنا ہر حکومت کی ذمہ داری ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰