مذہب

قرض کے ساتھ زائد رقم کی شرط

ایک بلڈر کو روپئے کی ضرورت پڑی ، میں نے اسے ایک لاکھ روپے دیئے ، بلڈر نے کہا کہ ایک ماہ بعد ایک لاکھ بھی لوٹادوں گا اور اپنی خوشی سے کچھ زائد بھی دوں گا ؛ کیوںکہ تم نے میری مدد کی ہے ، کیا یہ جائز ہے ؟

سوال:-ایک بلڈر کو روپئے کی ضرورت پڑی ، میں نے اسے ایک لاکھ روپے دیئے ، بلڈر نے کہا کہ ایک ماہ بعد ایک لاکھ بھی لوٹادوں گا اور اپنی خوشی سے کچھ زائد بھی دوں گا ؛ کیوںکہ تم نے میری مدد کی ہے ، کیا یہ جائز ہے ؟ (عبدالغفور، کوکٹ پلی)

متعلقہ خبریں
مشرکانہ خیالات سے بچنے کی تدبیر
ماہِ رمضان کا تحفہ تقویٰ
چائے ہوجائے!،خواتین زیادہ چائے پیتی ہیں یا مرد؟
دفاتر میں لڑکیوں کو رکھنا فیشن بن گیا
بچوں پر آئی پیڈ کے اثرات

جواب :- اگر قرض لینے والا قرض دہندہ کو کچھ ہدیہ دے اور یہ ہدیہ بطور شرط کے طے پایا ہوتو یہ سود میں داخل ہے اور اس کا لینا اور دینا حرام ہے :

وأما ھدیۃ المستقرض :إن کانت الھدیۃ مشروطۃ فی الاستقراض فھی حرام ولا ینبغی للمقرض أن یقبل … ( فتاویٰ تاتار خانیہ : ۹؍ ۳۹۰)

کیوںکہ فقہاء کے یہاں یہ تسلیم شدہ اُصول ہے کہ قرض کے ساتھ کسی نفع کو مشروط کردینا حرام ہے ’’القرض بالشرط حرام‘‘ ( الدرالمختار علی الرد : ۷؍ ۳۹۴ ) – اب اگرچہ قرض دینے والے نے ہدیہ کی شرط نہیں لگائی ؛

لیکن مقروض نے ہدیہ دینے کا وعدہ کرلیا اور ظاہر ہے کہ یہ وعدہ قرض کی وجہ ہی سے کیا گیا ہے ؛ اس لئے یہ بھی شرط کے درجہ میں ہے اور قرض دینے والے کا ایسا ہدیہ لینا جائز نہیں ہوگا ، ہاں ، اگر قرض لینے والے کی اس پیشکش پر قرض دینے والے نے یہ وضاحت کردی کہ مجھے صرف اپنی رقم چاہئے ،

مجھے کوئی زائد رقم نہیں چاہئے ، اس کے باوجود قرض لینے والا شخص قرض دینے والے کو اپنی طرف سے کچھ ہدیہ دیدے ، یا پہلے سے ہدیہ دینے کی کوئی بات نہیں ہوئی تھی ؛ لیکن قرض کی ادائیگی کے وقت اس نے اپنی طرف سے کچھ بڑھا کر دے دیا تو یہ درست ہے ؛ بلکہ ایسا کرنا مستحب ہے ،

غرض کہ قرض کے لین دین کا معاملہ طے ہوتے وقت نہ قرض دینے والے کی طرف سے زائد رقم کا مطالبہ درست ہے اور نہ قرض لینے والے کی طرف سے اس کی پیشکش ۔

a3w
a3w