دہلی

قطب مینار تنازعہ‘ احکام 17 ستمبر تک محفوظ

وکیل ایم ایل شرما کے ذریعہ داخل درخواست میں آگرہ کے متحدہ صوبہ کے وارث ہونے کا دعویٰ کرنے والے کنور مہندر دھوج پرساد سنگھ نے میرٹھ تا آگرہ علاقہ پر اپنا حق جتایا ہے۔

نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے منگل کے دن ایک شخص کی درخواست ِ مداخلت پر اپنے احکام محفوظ رکھے جو آگرہ کے شاہی خاندان کا وارث ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس نے قطب مینار کی ملکیت پر اپنا حق جتایا ہے۔ ساکیت عدالت کے ایڈیشنل ضلع جج دنیش کمار 17 ستمبر کو اپنا فیصلہ سنائیں گے۔

وکیل ایم ایل شرما کے ذریعہ داخل درخواست میں آگرہ کے متحدہ صوبہ کے وارث ہونے کا دعویٰ کرنے والے کنور مہندر دھوج پرساد سنگھ نے میرٹھ تا آگرہ علاقہ پر اپنا حق جتایا ہے۔ درخواست میں کہا گیا کہ درخواست گزار راجہ روہنی رمن دھوج پرساد سنگھ کا وارث ہے۔

وہ راجہ نندرام کی نسل سے ہے جو 1695 میں چل بسے تھے۔ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ اورنگ زیب کی تخت نشینی کے بعد نندرام نے اس کی اطاعت قبول کی تھی اور بدلہ میں خدمت ِ زمینداری‘ جوار اور ٹوچی گڑھ کا مالگزاری انتظام پایا تھا۔

1947 میں راجہ روہنی رمن دھوج پرساد سنگھ کے دور میں برٹش انڈیا اور اس کے صوبہ آزاد ہوگئے تاہم 1947 میں ملک کی آزادی کے بعد حکومت ِ ہند نے شاہی خاندان کے ساتھ نہ تو کوئی معاہدہ کیا اور نہ ہی الحاق۔

 مرکزی حکومت‘ دہلی کی ریاستی حکومت اور اترپردیش کی ریاستی حکومت نے درخواست گزار کے قانونی حقوق چھین لئے اور ان کا بے جا استعمال کیا۔اصل مقدمہ میں الزام عائد کیا گیا کہ 1198 میں خاندان ِ غلامان کے بانی سلطان قطب الدین ایبک کے دور میں 27 ہندو اور جین مندر توڑے گئے اور ان کی جگہ پر مسجد قوت الاسلام بنائی گئی۔