کیا ہندئوں کی وید، آسمانی صحائف ہیں!؟
’’ہم سب سے آگے کے خدا کی ہی عبادت کرتے ہیں۔‘‘ (رگ وید :1.1.1) ’’اے سراپا علم ‘ سب کو روشن کرنے والے پرمیشور ! ہم کو ہدایت اور مغفرت کے لیے صراط مستقیم سے لے چل۔اے سکھ دانا پربھو! حاضر وناظر مالک! تو سب کے علوم ‘ اعمال افکار اور معاملات سے واقف ہے۔ ہم سے ٹیڑھ‘ گمراہی اور گناہ کو دُورکر۔ ہم تجھے ہی بندگی اور حمد پیش کرتے ہیں۔‘‘ (یجرُوید: 16-40)
مولانا شمس نوید عثمانی
وید کا تعارف
’’ہم سب سے آگے کے خدا کی ہی عبادت کرتے ہیں۔‘‘ (رگ وید :1.1.1) ’’اے سراپا علم ‘ سب کو روشن کرنے والے پرمیشور ! ہم کو ہدایت اور مغفرت کے لیے صراط مستقیم سے لے چل۔اے سکھ دانا پربھو! حاضر وناظر مالک! تو سب کے علوم ‘ اعمال افکار اور معاملات سے واقف ہے۔ ہم سے ٹیڑھ‘ گمراہی اور گناہ کو دُورکر۔ ہم تجھے ہی بندگی اور حمد پیش کرتے ہیں۔‘‘ (یجرُوید: 16-40)
’’عالم کا مالک ایک ہی ہے‘‘ (رگ وید 3-121-10)
’’لوگو‘ سنو۔ نراشنس (محمدؐ) کی لوگوں کے درمیان انتہائی تعریف کی جائے گی۔‘‘ (اتھرووید: 1-127-20 )
’’و ہ یوم آخر کو بھلا کر اور علم وعقل کو حقارت سے ٹھکرا کر ہماری مقرر کردہ حدود کو پھلانگ رہے ہیں‘‘ (رگ وید: 3-4-1)
یہ کچھ وید منتروں کے ترجمے ہیں۔ سنجیدگی سے غور کیجئے کہ کیا ہندو مذہب کی موجودہ رائج شکل ویدوں کی ان تعلیمات کے بالکل برعکس نہیں ہے؟ کیا ان تعلیمات اور خبروں میں قرآنی تعلیمات اور خبروں سے ذرا سی بھی عدم مطابقت آپ کو محسوس ہوتی ہے؟ ویدوں میں ایسی صرف چند مثالیں ہی نہیں ہیں بلکہ تمام کے تمام وید ان تعلیمات سے بھرے پڑے ہیں۔ جس کی کچھ اور مثالیں ہم اس باب کے آخر میں پیش کریں گے۔ اس سے پہلے آیئے دیکھیں کہ عام ہندوؤں کی نظر میں ویدوں کا مقام کیا ہے اور جن عیسائی اور مسلم محققین نے کسی حد تک ویدوں میں تحقیق کی ہے‘ وہ کیا کہتے ہیں۔ عام ہندو عقیدے کے مطابق۔
٭ وید شروتی گیان (سُنا ہوا علم یا سُنا جانے والا علم ) ہیں ہزاروں سال سے وید کہیں تحریری شکل میں موجود نہیں تھے۔ یہ علم پنڈتوں کے حافظے میں تھا اور سینہ بہ سینہ چلا آرہا تھا۔ سب سے پہلے میکس ملر Maxmuller نے سخت محنت سے بہت سے ویدوں کے حافظ پنڈتوں سے سن کر اُسے تحریری شکل میں مرتب کیا۔ تحریری شکل میں نہ ہونے کی وجہ سے عام لوگوں کے لیے انھیں پڑھنا تو ظاہر ہے ممکن ہی نہ تھا۔ وید سننے کی بھی ہر ایک کو اجازت نہ تھی۔
٭ تمام ہندو مانتے ہیں کہ اصل وید ایک تھا لیکن آج چار وید موجود ہیں۔ اس بارے میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں ہیں۔ کچھ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اصل ویدگم ہوگیا ہے۔ کچھ کا عقیدہ ہے کہ ان چاروں ہی میں سے ایک اصل وید ہے اور بعض لوگ ایک وید کو ان چار حصوں میں تقسیم شدہ مانتے ہیں۔
٭ وید ویووانی (देव वाणी) یعنی کلام الہٰی ہیں۔ ہندو لوگ مہا بھارت اور رامائن کو تو رشیوں سے منسوب کرتے ہیں لیکن وید کو خدا کا کلام کہتے ہیں۔
٭ وید برہم کا نج گیا (ब्रह्म निज जान) خدا کا ذاتی علم ہیں۔
٭ وید دو طرح کے علوم پر مشتمل ہیں۔ وید منتر شروتی (वेद मंत्र श्रुति) یعنی سُنا ہوا محکمات کا علم اور وید تنتر شروتی (वेद तंत्र श्रुति) یعنی سُنا ہوا متشابہات کا علم۔
٭ وید آدِ گرنتھ (आदि ग्रन्थ) یعنی اولین صحائف ہیں۔
موجودہ دور میں ویدوں پر سب سے پہلے تحقیق کرنے والے میکس ملر صاحب کو بیس سال تک بے تکان محنت اور بے اندازہ خرچ کرنے پر بھی صرف ساین آچار ے کی تفسیر ہی مکمل حالت میں حاصل ہوسکی تھی۔ اسی کی بنیاد پر انھوں نے سینکڑوں ہندوستانی پنڈتوں کی مدد سے کثیر تعداد میں کھوئے ہوئے ویدوں کو دنیا کے سامنے چھپی ہوئی مقدس کتاب کی شکل میں پیش کیا تھا۔
’’آرین انسان سے وابستہ یہ سب سے پہلے بولے جانے والے الفاظ ہیں۔ ان کا تعلق دنیا اور ہندوستان کی تاریخ سے ہے۔ یہ پچھلی نسلوں کی یادگار ہیں۔ نسل انسانی کی آرین شاخ سے متعلق طویل کتابی سلسلوں کی پہلی کتاب ہیں۔‘‘ (میکس مُلر)
’’ان چاروں ویدوں کی ابتدا آسمانی خیال کی جاتی ہے اور یہ مانا جاتا ہے کہ یہ ہمیشہ سے چلے آرہے ہیں۔ عظیم ترین پیدا کرنے والے سے یہ براہ راست حاصل ہوئے ہیں۔‘‘
’’ان کی شروعات کہاں سے ہوئی اس کے بیانات میں تضاد ہے لیکن اس پر اتفاق ہے کہ یہ انسان کو خدا کا براہ راست تحفہ ہیں۔‘‘ (ولِکنس)
’’موجودہ شکل تک پہنچتے پہنچتے وید کے مضامین کے بارے میں خاطر خواہ اختلافات رہے ہیں۔‘‘ (ولکِنس)
’’ویدوں کی تخلیق کس نے کی ؟ یہ ٹیڑھا سوال ہے۔ راسخ العقیدہ ہندو ایسا مانتے ہیں کہ وید غیر انسانی کلام ‘ خدا کا کلام ہیں۔ مقصد یہ کہ وید خدائی علم ہیں۔‘‘ (ڈاکٹر سمپورنا نند)
عیسائی محقق ڈیوبائیس لکھتا ہے:
’’اور نقل کرنے والوں سے لاپرواہی یا جہالت کی وجہ سے بڑی تعداد میں غلطیاں ہوئی ہیں۔‘‘ (ص174 (Hindu Manners, Customs
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے ہم عصر مرزا مظہر جانِ جاناںؒ کے شاہ عبدالعزیز ؒ کے نام لکھے گئے ایک مکتوب پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسر خلیق نظامی تحریر کرتے ہیں:
’’انھوں نے ہندوؤں کو مشرکانِ عرب کے مشابہ تسلیم کرنے سے نہ صرف انکار کیا ہے بلکہ وید کو الہامی کتاب مانتے ہوئے ہندوؤں کو اہل کتاب کا مرتبہ دیا ہے۔‘‘
’’مظاہر العلوم سہارنپور کے مفتی مولانا محمد یحییٰ صاحب نے ایک سوال کے جواب میں لکھا۔ حضرت مرزا مظہر جان جاناں نور اللہ مرقدہ‘ کے مکتوبات میں وید کے متعلق تحریر موجود ہے کہ انھوں نے اس کو آسمانی اور الہامی کتاب قرار دیا ہے… نیز مولانا شاہ عبدالعزیز اور مولانا عبدالحی ٔ صاحب لکھنوی کے فتاویٰ میں ان کے مقتداؤں کا ذکر ہے جن کو یہ اوتار (اتارے ہوئے) کہتے ہیں۔ حاصل یہ ہے کہ جو لوگ مثلاً آریہ اپنے مذہب کو آسمانی دھرم اور اپنی کتاب کو الہامی کتاب کہتے ہیں۔ ان سے ان کے دعویٰ پر بُرہان طلب کی جاسکتی ہے لیکن بلاوجہ حتمی طور پر اس کا انکار نہ کیا جائے۔ چنانچہ ہمارے استاد مولانا اسعد اللہ صاحبؒ نامناسب الفاظ ان کے لیے استعمال نہیں فرماتے تھے۔‘‘
اور دار العلوم دیوبند کے بانی مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی کا مسلک تو اس سلسلے میں اتنا محتاط تھا کہ رام چندر جی اور کرشن جی کی شان میں بھی گستاخی کو منع فرماتے تھے کیونکہ ان کے خیال میں ان کے رسول ہونے کا امکان ہے۔
مقدس کیسے مانیں؟
اب تک کا حاصل مطالعہ یہ ہے کہ ویدوں میں آسمانی کلام ہونے کا امکان ہے۔ کم از کم وہ حصے یقیناً الہامی ہیں جن میں ہزاروں سال قبل دی ہوئی رسول اللہ ؐ کی بعثت کی خبریں موجود ہیں لیکن بہ حیثیت مجموعی صرف توحید و آخرت کے عقائد کی موجودگی اس کی دلیل نہیں ہوسکتی کہ انھیںکتاب اللہ کی اس تحریف شدہ شکل کا بھی درجہ دیا جاسکے جو توریت، زبور اور انجیل کا ہے۔ اس کی تین وجوہات ہیں:
-1 موجودہ توریت، زبور اور انجیل ہی کو کتب مقدس کے درجہ پر رکھنے میں ابھی شبہات ہیں۔
-2 کلام کے مستند ہونے کی دلیل خود کلام ہوتا ہے۔ توحید اور آخرت کی صرف چند مثالیں ملنے سے ویدوں کو ابھی توریت زبور اور انجیل کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔
-3 توریت، زبور اور انجیل کا ذکر قرآن نے کیا ہے اور ویدوں کا قرآن میں کہیں تذکرہ نہیں ہے۔ ہم ایک ایک کرکے مندرجہ بالا اشکالات کا تجزیہ کررہے ہیں:
-1 موجودہ توریت، زبور اور انجیل کو کتب مقدسہ کا درجہ دیئے جانے کے مسئلہ کو مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے بڑی خوبی کے ساتھ حل کیا ہے۔ وہ رقمطراز ہیں:
’’…ہمارے علماء عموماً یہ سمجھتے ہیں کہ اصلی توریت اور انجیل غائب ہوچکی ہیں … اس لیے وہ ان کتابوںکو مقدس ماننے کے لیے کسی طرح تیار نہیں ہیں۔اس نظریہ سے یہ بُرا نتیجہ پیدا ہوا کہ قرآن حکیم نے جہاں اہل کتاب کو اپنی کتابوں پر عمل کرنے کی دعوت دی اور عمل نہ کرنے کا الزام دیا ان کی صحیح تفسیر کرنے سے ہمارے علماء عاجز آگئے …‘‘
’’… قرآن عظیم کی طرح ایسی وحی جس کی معانی و الفاظ مقرر ہوکر نازل ہوں اور قطعی طور پر محفوظ رہیں ‘ چند ٹکڑوں کے علاوہ کسی مذہب کی کتاب الہٰی میں یہ طریقہ نہیں برتا گیا۔ عام طور سے (ان کے) اَئمہ دین کتابیں اپنے اجتہاد سے جمع کرتے ہیں جو اس نبی کی سیرت اور اس کے اقوال کو جمع کردیتی ہیں۔ یعنی ان ہی کتابوں میں وہ چیز بھی آجاتی ہے جو براہ راست لفظاً اور معنی مقرر ہوکر نازل ہوئی۔ جیسے توریت کے احکام عشرہ اور انجیل کے بعض خطبات نیز وہ چیز بھی آجاتی ہے جو نبی اپنے اجتہاد سے تعلیم دیتا ہے۔ یہ فیصلہ شدہ امر ہے کہ نبی کے اجتہاد پر منجانب اللہ گرفت نہ ہو تو وہ حکماً وحی سمجھی جاتی ہے۔‘‘
’’… قرآن خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک مصحف میںکتابتہً محفوظ کردیا گیا اور اس کی روایت بالترتیب قائم رہی لیکن حدیث میں جو وحی آئی ان (علماء ) کے نزدیک بھی نہ تو حضورؐ کے زمانے میں اس کی کتابت ہوئی اور نہ اس کے لیے تو اتر ضروری ہے۔ ان لوگوں کی اصطلاح پر اگر کتب مقدسہ سابقہ کو کتب حدیث کا درجہ دیا جائے تو بطریق اولیٰ اس کو مستبعد نہیں سمجھنا چاہئے۔اگر یہ لوگ اس بات کو تسلیم کرلیں تو تمام اشکال حل ہوجائیں گے۔
٭ ہماری کتب حدیث میں بالاتفاق غیر صحیح روایات بھی موجود ہیں۔
٭ نیز ان کتب حدیث میں ایک واقعہ کو مختلف طریقوں سے بھی روایت کیا گیا ہے۔
٭ ہماری بہت سی کتب حدیث میں بھی کاتبوں سے غلطیاں ہوتی رہی ہیں جن کو محققین علماء درست کرتے رہتے ہیں۔
اس کے بعد اگر اناجیل اربعہ کو ہماری صحاح اربعہ (بخاری‘ مسلم ‘ ابوداؤد‘ ترمذی) کے درجہ پر رکھ دیاجائے تو ذرہ برابر اختلاف نظر نہیں آئے گا…
’’…ہماری امت میں کتب مقدسہ کی اس قسم کی مثال میں شاہ صاحب (ولی اللہ ؒ دہلوی) صحیح بخاری و صحیح مسلم کو پیش کرتے ہیں …
…میں نے انجیل کی شرح مسٹرہنری اِسکاٹ کی اُردو میں مطالعہ کی۔اس میں اناجیل اربعہ کے اختلابات کو اس طرح جمع کرنے اور ترجیح دینے کی سعی کی گئی ہے جیسے ہم کتب ِ حدیث میں کرتے ہیں…‘‘
یہ واقعہ ہے کہ جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ آج تک پچھلے صحائف کو مقدس کتابوں کا درجہ دینے میں یہی شکوک حائل رہے ہیں۔ ان کتابوں میں بالاتفاق تحریفات بھی درج ہیں۔ اکثر ایک واقعہ کو مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے اور ان کی کتابت میں تبدیلیاں بھی ہوتی رہی ہیں۔ جنھیں ان کے محققین درست کرتے رہے ہیں۔
مولانا کی وضاحت کے بعد یہ سمجھ میں آتا ہے کہ پچھلے صحائف کو مقدس ماننے میں دراصل ہچکچاہٹ ہی اسی لیے محسوس ہوتی تھی کہ صحیفہ کا نام آتے ہی ہم ذہنی طور پر قرآن سے اس کا موازنہ شروع کردیتے تھے لیکن اگر احادیث کے مجموعوں کو بھی ہم تقدس کا درجہ دے سکتے ہیں جبکہ ان میں وہی فنی خامیاں موجود ہیں جو پچھلے صحیفوںمیں ہیں تو ان صحیفوں کو مقدس ماننے میں تکدر نہیں ہوگا، خصوصاً اس حالت میں جبکہ قرآن میں جگہ جگہ اس کی تاکید ہے اور یہ بھی محل نظر رہے کہ احادیث کے مجموعوں کو اگر یہ فوقیت حاصل ہے کہ ان پر بے مثال تحقیق ہوئی ہے (اس کے باوجود بڑی تعداد میں مشکوک احادیث موجود ہیں) تو توریت اور انجیل کو اس لحاظ سے برتری حاصل ہے کہ بالاتفاق ان میں کلام الٰہی بھی درج ہے۔
اس نکتہ کے واضح ہوجانے کے بعد اب اگر ہم کو ویدوں کے بارے میں یہ ثبوت مل سکیں کہ ان میں درج کلام خود کلام اللہ ہونے کی گواہی دیتا ہے اور قرآن سے بھی ویدوں کی تصدیق ہوجائے تو مولانا سندھیؒ کے بتائے ہوئے طرز پر انھیں بھی کتب مقدسہ تسلیم کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔
(جاری)