ہند۔پاک عشق کی کہانی نیپال کی سرحد پر پھنس گئی
یہ سب کچھ سوشل میڈیا پر شروع ہوا تھا۔ حیدرآباد کے محلے کشن باغ سے تعلق رکھنے والا احمد سعودی عرب کی ایک ہوٹل میں کام کرتا ہے۔ سوشیل میڈیا پر اس کی ملاقات پاکستان کے فیصل آباد میں رہنے والی ایک لڑکی کلیجا نور سے ہوئی۔
حیدر آباد: محبت کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، لیکن ہند۔پاک محبت کی ایک کہانی اب ہند-نیپال سرحد پر پھنس گئی ہے۔
یہ سب کچھ سوشل میڈیا پر شروع ہوا تھا۔ حیدرآباد کے محلے کشن باغ سے تعلق رکھنے والا احمد سعودی عرب کی ایک ہوٹل میں کام کرتا ہے۔ سوشیل میڈیا پر اس کی ملاقات پاکستان کے فیصل آباد میں رہنے والی ایک لڑکی کلیجا نور سے ہوئی۔
دونوں میں عشق ہوگیا اور انہوں نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا مگر نور کے گھر والوں کی طرف سے شادی کی مخالفت شروع ہوگئی تاہم دونوں نے ہمت نہیں ہاری۔ انہوں نے ایک منصوبہ بنایا۔
منصوبہ کے مطابق گزشتہ ماہ نور، احمد کی مدد سے اپنا گھر چھوڑ کر دبئی پہنچنے میں کامیاب ہوگئی۔ وہاں سے احمد کے دوستوں نے اسے نیپال پہنچنے میں مدد کی۔
"منصوبہ نیپال کے راستے ہندوستان میں داخل ہونے کا تھا۔ نیپال کا رہنے والا جیون، جو احمد کا دوست ہے، نے نور کو نیپال سے ہندوستان میں داخل ہونے میں مدد کرنے کا منصوبہ بنایا،” بہار پولیس کے ایک اہلکار نے یہ بات بتائی۔
اس سے پہلے جب نور دبئی سے نیپال پہنچی تو احمد نے حیدرآباد میں اپنے بھائی محمد محمود سے کہا کہ وہ نیپال جا کر نور کو حیدرآباد لے آئے۔ محمود، حیدرآباد کے ایک اسکول میں ٹیچر ہے۔ احمد کے کہنے پر وہ کچھ دن پہلے اپنی بیوی کا آدھار کارڈ لے کر حیدرآباد سے نیپال روانہ ہوا۔
حیدرآباد سٹی پولیس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ’’اس کا مقصد سرحد پر سیکورٹی اہلکاروں کو آدھار کارڈ دکھا کر نور کو ہندوستان پہنچانا تھا‘‘۔
محمود نے نیپال میں جیون اور نور سے ملاقات کی۔ وہ ہند-نیپال سرحد پر ریاست بہار کے سرسند میں سرحدی چوکی پر پہنچے تاکہ ہندوستان میں داخل ہوسکیں تاہم آدھار کارڈ کی جانچ پڑتال کے بعد سشستر سیما بل (ہندوستانی فوج کے جوانوں) نے انہیں پکڑ لیا۔ تفتیش کے دوران نور نے مبینہ طور پر اعتراف کیا کہ آدھار کارڈ محمود ہی لایا تھا۔
تینوں کو مزید کارروائی کے لیے سرسند پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ مقدمہ درج ہوچکا ہے اور تفتیش جاری ہے۔ تینوں کو عدالت میں بھی پیش کیا گیا جس کے بعد انہیں عدالتی تحویل میں ریمانڈ کردیا گیا۔
سرسند پولیس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ احمد کا نام، جو ابھی بھی سعودی عرب میں ہے، ایف آئی آر میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔