
رویش کمار
اراولی کا پہاڑ مافیا کاٹ کر کھاگئے۔ ان کا کچھ نہیں بگڑا۔ تجربہ بتاتا ہے کہ مافیا کا کچھ بگڑے گا بھی نہیں کیو ںکہ مافیا لفظ تو ایک ہے لیکن اس کے اندر انتظامیہ، عہدیدار، سیاستداں اور نہ جانے جانے کون کون آتا ہے۔ اراولی مٹ جائے گا مگر مافیا نہیں مٹ سکتا ہے۔ مافیا صرف پہاڑ نہیں کاٹتا بلکہ سسٹم کے اندر ایک ایسا پہاڑ بنادیتا ہے، اسے کاٹنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ ہریانہ کے ڈی ایس پی سریندر سنگھ بشنوئی کے قتل کے بعد مافیا مٹ جائیں گے، اس طرح کا وہم پالنے کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ہے۔ تبادلے کا نیٹ ورک بھی الگ الگ ریاستوں میں پہاڑ کی طرح مضبوط ہوگیا ہے۔ بہار میں کے وزیر مال نے حال ہی میں کہا تھا کہ ان کے محکمہ پر مافیا کا قبضہ ہوگیا ہے۔ اُدھر یو پی میں تبادلہ نیٹ ورک کا پہاڑ اتنا اونچا ہوگیا ہے کہ یوگی حکومت کے تین تین وزراء کے محکموں پر بدعنوانی کے سنگین الزامات عائد ہوئے ہیں۔ سارے الزامات تبادلوں سے متعلق ہیں۔ چیف منسٹر کا دفتر ان محکموں میں کرپشن کی تحقیقات کرارہا ہے تو ان کے وزیر ناراضگی کے بہانے بغاوت کے میٹھے بول بول رہے ہیں۔
پانچ سال تک مکمل کنٹرول سے حکومت کرنے اور بدعنوانی مٹادینے کا دعویٰ کرنے کے بعد بھی یوگی حکومت کے کئی محکموں میں تبادلوں کے تعلق سے دھماکہ ہوگیا۔ ماہ جولائی میں یو پی کے اخبارات میں تبادلے کی خبروں کو ایک ترتیب میں سجاکر رکھیں گے تو آپ کو یقین ہوجائے گا کہ تبادلہ نیٹ ورک نہیں مٹ سکتا ہے۔ امر اجالا نے چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ کے بیان کے حوالے سے ایک سرخی لکھی ہے کہ اپنے اسٹاف پر آنکھ موند کر بھروسہ نہ کریں وزرائ۔ خبر میں تفصیل سے لکھا ہے کہ کابینہ کے اجلاس میں چیف منسٹر نے کہا کہ وزراء ایمانداری اور شفافیت سے کام کریں۔ ہدایت دینا بری بات نہیں ہے،وقتاً فوقتاً اس کی ضرورت ہوتی ہے لیکن دوسری بار چیف منسٹر بنے یوگی آدتیہ ناتھ کو یہ کہنا پڑے کہ وزراء اپنے اسٹاف پر بھروسہ نہ کریں اور مملکتی وزراء کو بھی اجلاس میں بلائیں تو اس کا مطلب ہے کہ یو پی کی کہانی میں صرف بلڈوزر کا خوف نہیں ہے، اگر خوف ہوتا ہے تو وزراء کے اسٹاف وہ کام تو بالکل نہیں کرتے جس سے چیف منسٹر کو کہنا پڑ جائے کہ وزراء ہی ان پر بھروسہ نہ کریں، لیکن کیا وزراء پر بھروسہ کیا جارہا ہے، اسے سمجھنے کے لیے پہلے ایک سرخی دیکھیں۔ سات جولائی کے اخبار میں شائع ہوئی ہے۔ ڈپٹی چیف منسٹر اور وزیر صحت برجیش پاٹھک کا بیان ہے کہ ڈپٹی چیف منسٹر کو پتا ہی نہیں ، سکریٹری نے کردیے تبادلے ، اب یہی الزامات مملکتی وزیر جل شکتی دنیش کھٹیک لگارہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پیسے لے کر تبادلے ہورہے ہیں۔
یہ آج نہیں بلکہ اس ماہ کے اوائل میں ہی نظر آنے لگا تھا جب تبادلوں میں دھاندلی کی خبریں یو پی کے اخبارات میں شائع ہونے لگی تھیں۔ ان خبرو ںکو دیکھنے کے بعد آپ ہی بتائیں کہ کون کس پر بھروسہ نہ کرے۔ چیف منسٹر کہتے ہیں اسٹاف پر بھروسہ نہ کریں۔ وزیر کہتے ہیں کہ ان پر بھروسہ نہیں کیا جارہا ہے۔ اس کھیل میں سیاست تو ہوگی ہی لیکن پردہ ہٹا کر دیکھیے تو تبادلوں کے نیٹ ورک کا پہاڑ صاف صاف نظر آئے گا۔
جس ریاست کی سیاست میں مذہب اور قوم پرستی کی اخلاقیات گنگا کی طرح مقدس ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، اس ریاست میں تبادلے کو لے کر حکومت کے اندر ہی بدعنوانی کے الزامات کیوں لگ رہے ہیں؟ یہ بھی عجیب ہے کہ دنیش کھٹیک چیف منسٹر کی جگہ وزیر داخلہ امیت شاہ کو مکتوب تحریر کرتے ہیں۔ اصولاً انہیں اپنا استعفیٰ پہلے گورنر اور چیف منسٹر کو دینا چاہیے تھا۔ امیت شاہ کو اس لیے لکھا کہ اس پورے معاملے کو دہلی بمقابلہ یو پی کی لڑائی کے طور پر دیکھا جائے؟ دیکھا بھی جارہا ہوگا لیکن یہ بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ جل شکتی محکمہ کے کابینی وزیر سوتنتر دیو سنگھ ہیں جو بی جے پی کے ریاستی صدر ہیں۔ دنیش کھٹیک اسی محکمہ میں مملکتی وزیر ہیں۔ امیت شاہ کو ایک مکتوب لکھتے ہیں جس میں انہوں نے لکھا کہ ’’دلت سماج سے ہونے کی وجہ سے جل شکتی محکمہ میں ان کی پوچھ نہیں ہے۔ ان کے احکامات پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی انہیں اجلاس کی اطلاع دیتا ہے۔ صرف گاڑی دے دینے سے مملکتی وزیر کی ذمہ داری پوری نہیں ہوجاتی ہے۔ ‘‘ دنیش کھٹیک نے الزام عائد کیا کہ ان کے محکمہ میں تبادلوں میں بہت بڑی بدعنوانی ہوئی ہے۔ جب انہو ںنے محکمہ سے پوچھا کہ کس کس کا تبادلہ ہوا ہے تو اس کی اطلاع تک نہیں دی گئی ہے۔‘‘ چیف سکریٹری آبپاشی، انل گرگ کو مذکورہ بالا صورت حال سے واقف کرانا چاہا تو انہو ںنے میری پوری بات تک نہیں سنی اور فون کاٹ دیا۔ یہ ایک عوامی نمائندہ کی توہین ہے۔ میں دلت ذات کا وزیر ہوں اس لیے محکمہ میں تعصب کیا جاتا ہے۔ جب دلت مملکتی وزیر کا کوئی وجود ہی نہیں تو عہدہ سے استعفیٰ دے رہا ہوں۔‘‘ جب اتنا لمبا چوڑا مکتوب لکھ ہی دیا تو پھر میڈیا سے بات کیوں نہیں کررہے ہیں۔
نمامی گنگے پراجکٹ میں بدعنوانی کا الزام سن کر تو ای ڈی کے سارے عہدیداروں کو طیارہ سے نہیں تو کشتی سے ہی لکھنو کی طرف روانہ ہوجانا چاہیے اور تحقیقات کرنی چاہیے۔ ماں گنگا کے پروجیکٹ میں بدعنوانی چل رہی ہے۔ یہ بات خود وزیر کہہ رہے ہیں۔ کیا اس کے بعد بھی چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ دنیش کھٹیک کو مناکر وزیر کے عہدہ پربرقرار رکھیں گے یا نمامی گنگے پروجیکٹ کی تحقیقات این آئی اے، ای ڈی اور سی بی آئی میں سے کسی کے حوالے کریں گے؟ دنیش کھٹیک کا الزام بھلے ہی ان کے محکمہ تک محدود ہو لیکن یو پی کے کئی محکمو ںمیں تبادلوں میں رقمی لین دین کے الزامات عائد ہورہے ہیں۔
وزیر پی ڈبلیو ڈی جتن پرساد کے او ایس ڈی انل کمار پانڈے کو تبادلے میں دھاندلی کے الزام کے بعد برخاست کردیا گیا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انل کمار پانڈے کی سرگرمی کی اطلاع کابینی وزیر جتن پرساد کو نہ ہو جبکہ وہ انل کمار پا نڈے کو یو پی اے کے دور سے جانتے ہیں جب وہ منموہن سنگھ حکومت میں وزیر تھے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق 350 انجینئرس کے تبادلے کو لے کر ہنگامہ مچا ہوا ہے۔ اسے لے کر انجینئر ان چیف منوج گپتا کو معطل کیاگیا ہے۔ چار دیگر سینئر عہدیداروں کو بھی معطل کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یوگی حکومت کو لگ رہا ہے کہ بدعنوانی ہوئی ہوگی تبھی اتنی کارروائی ہوئی اور تحقیقات ہورہی ہے۔ کیا تب تک وزیر جتن پرساد کو عہدہ سے ہٹانہیں دینا چاہیے؟ جب او ایس ڈی کا تبادلہ ہوا انجینئر ان چیف معطل ہیں تو وزیر کیسے انجان ہوسکتے ہیں۔ کیا یہی بات دوسری جماعتوں کی حکومتوں کے وقت مان لی جائے گی؟ جتن پرساد کے بھی دہلی میں ہونے کی خبر ہے مگر انہیں بتانا چاہیے کہ ان کے رہتے بدعنوانی ہوئی یا نہیں، اگر ہوئی تو پھر انہیں وزیر کیوں رہناچاہیے۔ اپنے محکمہ میں تبادلے کو لے کر جو دھاندلی ہوئی ہے، اس کی اخلاقی ذمہ داری سے بھی خود کو الگ کیسے کرسکتے ہیں؟ کیا یہ سارے سوال واقعی پوچھنے لائق نہیں ہیں؟
ہوسکتا ہے کہ یو پی کی حکومت میں چیف منسٹراور وزراء کے درمیان تسلط کی جنگ چل رہی ہو لیکن اس لڑائی میں تین تین بڑے محکموں کے وزراء بھی شبہ سے پرے نہیں ہوتے ہیں۔ کیا وہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ نام کے وزیر ہیں مگر تبادلہ کوئی اور کررہا ہے۔ یا جب تبادلے میں دھاندلی ہورہی ہے تب صرف عہدیدار ذمہ دار ہیں، ان کا کوئی کردار نہیں ہے۔
یہ بھی ایک بڑا سوال ہے کہ ہزاروں لوگوں کا تبادلہ ہورہا ہے اور وزیر کا کوئی کردار نہیں ہے؟
سوال ہے کہ صرف بیانات کو لے کر ہنگامہ ہوگا اور تسلط کی لڑائی لڑی جائے گی یا بدعنوانی کے الزامات کی آزادانہ تحقیقات ہوگی؟
کل بشنوئی کے قتل کے الزامات میں ڈمپر کا کلینر انکائونٹر کے کچھ دیر بعد پکڑا گیا۔ ڈرائیور کو بھی آج بھرت پور سے گرفتار کرلیا گیا۔ اس کے علاوہ مائننگ میں شامل باقی لوگوں کی بھی تلاش جاری ہے۔ جہاں پر ڈرائیور اور کلینر دونو ںرہتے ہیں، وہاں پورے محلے کے گھروں پر قفل پڑے ہوئے ہیں۔ کیا وہاں کے لوگ بھی فرار ہوگئے؟
کانگریس نے جب ہریانہ کے چیف منسٹر سے استعفیٰ مانگا تب اس کے جواب میں وزیر داخلہ انل وج نے کہہ دیا کہ 2013 میں جب ہوڈا چیف منسٹر تھے بالکل اسی طرح کا واقعہ پیش آیا تھا، اس وقت بھی پولیس والے مارے گئے تھے۔ یہ سب شروع تو کانگریس کے دورمیں ہوا۔ وزیر کہہ رہے ہیں ہم نے تو پھر بھی اس پر کنٹرول کیا ہے، کیا واقعی اراولی کی کانکنی پر کنٹرول ہوگیاہے؟
کانگریس کے وقت ہوا تو اب بھی ہوگیا تو کیا بات۔ اس طرح سے ہر بات اِز ایکول ٹو(=) ہوجاتی ہے اور جیسا چل رہا ہے چلتا رہتا ہے۔ ایک بات ٹھیک سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ معاوضہ کے اعلان ، خاندان کے ایک رکن کو ملازمت دینے اور ڈمپر کے مالک اور ڈرائیور کو گرفتار کرلینے سے سریندر سنگھ بشنوئی کے قتل کا انصاف نہیں ہوجاتا ہے نہ ہی اراولی کے مسلسل قتل کا انصاف ہوتا ہے کیوںکہ سریندر سنگھ بشنوئی کی جان اس لیے گئی کیوں کہ وہ دیکھنے گئے تھے کہ وہاں مائننگ تو نہیں ہورہی ہے۔ اراولی دنیا کا سب سے قدیم پہاڑی سلسلہ ہے جو دہلی سے لے کر گجرات کے چمپانیر تک 692 کلومیٹر میں پھیلا ہوا ہے۔ مگر اراولی کو کس طرح کاٹا جارہا ہے اس کا پتا 2017 کے سی اے جی کی رپورٹ سے چلتا ہے۔2011-12 سے لے کر 16-17 کے درمیان غیرقانونی کانکنی کے 4,072 کیسس درج کیے گئے ہیں۔ ناجائز طریقے سے تقریباً دس لاکھ ٹن معدنیات نکالی جاچکی ہیں۔ الور ضلع میں اراولی کی 31پہاڑیاں غائب ہوچکی ہیں۔
سپریم کورٹ نے محمد زبیر کو کئی معاملوں میں راحت دی ہے۔ یو پی حکومت نے زبیر کے معاملوں میں تحقیقات کے لیے دو دو ایس آئی ٹی قائم کی تھی، اسے تحلیل کردیا گیا ہے۔ یو پی حکومت نے کہا کہ زبیر ٹوئٹ نہ کریں اس کا حکم جاری ہو، سپریم کورٹ نے ایسا حکم دینے سے انکار کردیا۔ یعنی زبیر ٹوئٹ کرسکیں گے۔ یہی نہیں زبیر کو سبھی ایف آئی آر کے معاملے میں گرفتاری سے راحت دی گئی ہے۔ عبوری ضمانت دے دی گئی ہے۔
فی الحال سبھی معاملات کی تحقیقات دہلی پولیس کرے گی اور یہ سبھی معاملے دہلی ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں رہیں گے۔ جب یو پی حکومت کے وکیل نے کہا کہ زبیر کو ٹوئٹ کرنے سے روکا جائے تب جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی بنچ نے کہا کہ ہم ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں۔ یہ ایک وکیل سے بحث نہ کرنے کے لیے کہنے جیسا ہے۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ ایک صحافی نہ لکھے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ پایا گیا ہے کہ دہلی پولیس کی جانب سے ان کی کافی مسلسل تحقیقات کی گئی۔ ہمیں ان کی آزادی کو مزید روکنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ سپریم کورٹ نے گرفتاریوں پر تشویش ظاہر کی ہے تب بھی فلمساز اویناش داس کو گرفتار کیا گیا۔ پولیس نے بتایا کہ اویناش نے وزیر داخلہ کی ایسی تصویر لگائی ہے جس سے ان کے وقار کو نقصان پہنچتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اتنی بار ان سب باتوں پر فیصلہ دیا، رائے دی، تشویش ظاہر کی تب بھی وزیر داخلہ کے وقار کو نقصان پہنچ رہا ہے، اس لیے کسی کو گرفتار کیا جارہا ہے۔
ایک بحث چلتی ہے، کہیں پہنچتی ہے، ختم ہوتی ہے۔ پھر وہی بحث کہیں اور سے چلتی ہے او رختم ہوتی ہے۔ جیسے ہی لگتا ہے اب بحث ختم ہوئی پھر سے وہی بحث کہیں اور سے چلتی ہے اور ختم ہونے کا نام نہیں لیتی ہے۔