اُف یہ گرمی!

زکریا سلطان
اللہ رحم فرمائے بڑی غضب کی گرمی ہے۔ حسیناؤں کے سارے میک اپ بہہ رہے ہیں، بیوٹی پارلر سے ہزاروں روپئے کا میک اپ کروانے کے باوجود قلعی کھل رہی ہے، سچ کہتے ہیں کہ کاغذ کے پھولوں سے خوشبو آ نہیں سکتی اور نہ کاغذ کے پھولوں پر تتلیاں بیٹھتی ہیں۔ آئسکریم کھانے اور لسی پینے کو دل کرتا ہے کیوں کہ موسم ہی کچھ ایسا ہے، لسی پی کر گلاس ٹیبل پر رکھنے کے لیے جب ہاتھ بڑھاتے ہیں تو دل سے آواز آرہی ہے ”یہ دل مانگے مور“ گلی میں جب پانی والا منجل کی صدا آتی ہے تو بے ساختہ بالکونی میں جاکرپڑوسن او منجل والے ذرا ادھر آنا کی آواز لگاتی ہے، اچھا لگتا ہے۔گرمی کا دشمن تربوز جب بنڈی والا کہتا ہے تو جی چاہتا ہے کہ گرمی سے دشمنی کرنے والی ہر چیز کو اپنا دوست بنالیا جائے۔گرمی کا اثر یہ ہے کہ بوڑھے بھی محمد علی کلے بن کر سڑکوں پر اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ آپ دودھ کے جلے ہوں یا نا ہوں مگر چھاچھ ضرور پیا کیجئے اس سے پیٹ ٹھنڈا رہتا ہے، ظاہر ہے جب پیٹ ٹھنڈا رہے گا تودماغ بھی ٹھنڈا رہے گا اور جب دماغ ٹھنڈا رہے گا تو آپ بھی ٹھنڈے اور سلامت رہیں گے، دوسروں کی سلامتی بھی اس سے وابستہ ہے یعنی اس میں سب کا بھلا ہے، سب ٹھنڈے ٹھنڈے سکون سے رہیں گے۔کسی نے کہا ہے کہ ٹھنڈے ٹھنڈے پانی سے نہانا چاہیے، گانا آئے یا نہ آئے گانا چاہئے، مگرذرا سنبھل کر کہیں گاتے گاتے حمام میں آپ پھسل نہ جائیں۔ واٹس اپ پر ایک چونکا دینے والا میسیج آیا کہ حیدرآباد میں آج برف گری۔ لوگ حیران کہ ایسا کب ہوا؟ دیکھا تو تصویر میں سائیکل کے کیریر پرپیچھے ایک برف کی سِل رسّی سے بندھی ہوئی تھی جو سائیکل کے ساتھ نیچے گرگئی!!!
پتا نہیں کس نے لکھا ہے، جس کسی نے بھی لکھا ہے خوب لکھا ہے! کہ:
موسموں کی شدتوں کو آزمانا چاہیے
برف کھانا چاہیے اولے چبانا چاہیے
غسل کیجئے گرمیوں میں گرم پانی سے جناب
سردیوں میں ٹھنڈے پانی سے نہانا چاہیے
مگر آپ ایسا مت کیجئے، نیچے کی دو لائنوں کوصرف سننے اور پڑھنے میں اچھا لگتا ہے،عملی طور پر اگر ایسا کریں تو لینے کے دینے پڑجائیں گے۔انسان فطری طور پر بڑا کمزور واقع ہوا ہے۔ نہ اس سے زیادہ سردی برداشت ہوتی ہے اور نہ گرمی۔ ایک حد کے بعد اس کی قوت برداشت جواب دے جاتی ہے، چاہے وہ کتنا ہی مضبوط اور طاقتور کیوں نہ ہو۔خصوصاً عمر رسیدہ لوگوں کو گرمی سے بچنے اور احتیاط کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ غیر ضروری دھوپ اور گرمی میں باہر مت نکلئے، جو لو گ دھوپ اور گرمی میں مسلسل باہر نکلتے ہیں وہ اکثر نکل جاتے ہیں۔ اس سے (دماغی)صحت خراب ہوسکتی ہے، ٹھنڈا ٹھنڈا سکون سے بیٹھیے، مرچ مسالہ اور تیل والی غذاؤں سے پرہیز کیجئے ورنہ ”قیدس“ لگے گی (قئے، دست)۔ ہم سب ہی کی صحت و عافیت کے متمنی ہیں۔ آج کی اس شدید گرمی میں ہم وطن عزیز حیدرآباد آئے ہوئے ہیں، ہمارے لوگوں کی محبت بھی ایسی ہوتی ہے کہ آپ ان کے خلوص کے آگے مجبور ہوجاتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ معاملہ ہمارے ساتھ ہوا اور ہم مجبوراً گرمی میں لطف اندوز ہونے منجل، آم اور تربوز کھانے کے لیے آگئے، آجکل کہیں کہیں جامن بھی نظر آرہے ہیں جب کبھی کالا جامن کی آواز آتی ہے ہم متوجہ ہوجاتے ہیں تاکہ جامن کے استعمال سے حاصل ہونے والے فوائد حاصل کریں، کہا جاتا ہے کہ جامن کے بھی بہت سے فوائد ہیں۔
کھانے پینے میں ہم اپنی حد تک پوری طرح احتیاط تو کررہے ہیں مگر دوست احباب اور رشتہ دار محبت سے کچھ نہ کچھ ٹھونس ہی دیتے ہیں، چاہے آپ کی حالت غیر کیوں نہ ہوجائے مگر ”تھوڑا اور لیجئے، دو نوالے، بس ایک چمچہ اور“ جیسے پرخلوص شیریں جملوں اور خواہشوں کے آگے آپ بے بس ہوکر ہتھیار ڈال ہی دیتے ہیں۔احباب سے ملاقات ہوتی ہے تو دو سوال ضرور کرتے ہیں کب آئے اور کب جارہے ہیں۔ ایک صاحب نے پوچھا کب جارہے ہیں؟ ہم نے کہا جلدی کیا ہے ابھی تو آئے ہیں دو چار کو لڑھکا کر جائیں گے، گھبراگئے! ہم نے کہا بھائی گھبرائے مت ہم شریف آدمی ہیں زعفرانی نہیں۔ مطلب یہ کہ بقرعید قریب ہے، قربانی کرکے (دو چار مینڈوں کو لڑھکا کر) اپنوں کے ساتھ عید مناکرکچھ شادیوں میں شرکت کرکے جائیں گے۔چند ایک شادیوں میں توہماری شرکت ہوچکی ہے اور ہم نے اپنی قوم کی مستقل مزاجی دیکھی ہے یعنی وہی رفتارِ بے ڈھنگی! شادیوں میں دیر سے آنا،وہی شان شوکت نمود و نمائش، فوٹو گرافی ویڈیو گرافی مزید یہ کہ کھانے کی میزوں پر ٹوٹ پڑنا اور نئے ٹیبل لگنے تک ڈائننگ ہال کے طواف کرتے ہوئے قریب منڈلانا،بلبلانا اور تڑپنا اس طرح کہ گویا زندگی کا پہلا اور آخری کھانا کھا نے جارہے ہیں (یہ ہماری قدیم روایات اور حیدرآبادی تہذیب کے خلاف ہے) یہ چھچورے پن کی علامت ہے، میزبانوں کو چاہیے کہ بھیڑ جمع ہونے نہ دیں، وقت کی پابندی کریں اور جلد از جلد طعام کا سلسلہ شروع کریں، مہمانوں کو بھی وقت کی پابندی کرنی چاہیے۔ بیوٹی پارلر کو مارو گولی اور فکر کرو نمازکی، شادی کی خوشی میں اللہ کو مت بھولو۔دولہا دولہن وقت پر آجائیں تو مسئلہ آسانی سے حل ہوسکتا ہے۔ہمارے شہر کے قاضی صاحبان بھی بہت اعلیٰ ظرف اور شریف ہیں بے چارے کسی سے ایک روپیہ زیادہ نہیں لیتے، بس نکاح کی مناسب اور معقول فیس لے کر نکاح پڑھادیتے ہیں۔ایمانداری، صبر و تحمل اور بردباری ہی اصلی حیدرآبادیوں کی پہچان ہے باقی سب نقلی اور میڈ اِن چائنا ہیں۔دعا ہے کہ اللہ سب کونیک توفیق ہدایت دے اور اپنے حفظ و امان میں رکھے۔