سوشیل میڈیامضامین

آرٹی سی کی ڈبل ڈیکر بسیں بہت جلد سڑکوں پر دوڑیں گی

محکمہ ذرائع حمل ونقل المعروف آرٹی سی کاآغاز ساتویں نظام نواب میرعثمان علی خان بہادر 1948-1911 ء نے اپنے دور حکومت میں1932 ء میں بڑی ہی آن بان شان اور منظم طریقہ سے کیا ۔ساتویں نظام نے ریلویز ، روڈویز اور ایئرویز کا ایک ساتھ آغاز کیا اور یہ تینوںمحکمے نظام اسٹیٹ ریلویزNSR کے زیر نگرانی وزیرانتظام تھے۔

قاری ایم ایس خان
9391375008

محکمہ ذرائع حمل ونقل المعروف آرٹی سی کاآغاز ساتویں نظام نواب میرعثمان علی خان بہادر 1948-1911 ء نے اپنے دور حکومت میں1932 ء میں بڑی ہی آن بان شان اور منظم طریقہ سے کیا ۔ساتویں نظام نے ریلویز ، روڈویز اور ایئرویز کا ایک ساتھ آغاز کیا اور یہ تینوںمحکمے نظام اسٹیٹ ریلویزNSR کے زیر نگرانی وزیرانتظام تھے۔ ملک ہند میں نظام ریلویز، روڈ ویز اور ایئر ویز کو ملک ہند(غیرآزاد اور غیر منقسم ہندوستان) میں ساتویں نظام نے ہی پہلی بار متعارف کروایا۔ صرف حیدرآباد اور ممبئی میں ہی ڈبل ڈیکر بسیں چلا کرتی تھیں۔

1946ء میں حیدرآباد دکن میں ڈبل بس کا آغاز کیاگیا، یہ بسیں سیاحوں اور تفریح کرنے والوں کو بہت متاثر کرتی تھیں۔ سکندرآباد تا چارمینار بس نمبر7اور8A اورسکندرآباد تاZooروٹ نمبر7Z براہ معظم جاہی مارکٹ وکوٹھی چلاکرتی تھیں۔ ان ڈبل بس بسوں میں فی بس56 نشستیں یا سیٹس ہوا کرتی تھیں ۔سب سے پہلی بار ڈبل بس کو انگلینڈ کیALBION کمپنی سے منگوایا گیا۔ من بعد لی لینڈ کمپنی نے انہیںتیار کیا، نظام کے دور حکومت میں روڈ ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ ان تمام بسوں کی نگرانی کرتا تھا اور نظام اسٹیٹ ریلویزNSR ہندوستان کا واحد ومنفرد ومثالی اور حد درجہ سہولت بخش محکمہ ذرائع حمل ونقل وشہری ہوابازی ہواکرتاتھا۔

ساری دنیا اور سارے ملک میں اس وقت NSR کی دھوم تھی بسوں کے اصل اور کل پرزے برمنگھم UK ریلوے اورWagon کمپنی تیار کرکے بذریعہ بحری جہاز NSR کو بھیجا کرتی تھیں ۔یہ انجنGLWS Gardner کے ہوا کرتے تھے،1937ء میںAlbion Buses کی باڈی لندن کی پارک رائیل وہیکلس بنایا کرتی تھی۔ نظام ریلویز کا مکمل کنٹرول1930ء میں اپنے ہاتھ میں لے کر روڈ ویز اور ایئر ویز کے ذریعہ شہریوں اور ریگولرپاسنجرس کو سہولتیں مہیا کرانے کی غرض سے 1932 ء میںNSR کے تحت مذکورہ بالا دونوں ذرائع حمل ونقل کا عظیم الشان پیمانہ پر آغاز کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کے سہولت بخش سفر کا ڈنکا ساری دنیا میں بج گیا اور شوقین اسفاروتفریح اور ملک وبیرون ملک کے سیاح بھی اس تاریخی ومنفرد NSR کے پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم سے بہ شوق مستفید ہوتے رہے۔

سلاطین قطب شاہی ، سلاطین مغلیہ،سلاطین آصف جاہی کے علاوہ بھی ادوار محمود غزنوی ، محمد بن قاسم، اورنگ زیبؒ عالمگیر وغیرہ وغیرہ نے بھی وہ تاریخی کارہائے نمایا ںا نجام دئیے کہ تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ علائو الدین خلجی جیسے باکمال بادشاہ کو ’’فلم پدماوت‘‘ میں ایک ویلن کے روپ میںدکھایا گیا، تعصب وتنگ نظری اور بری طرح سے مسخ شدہ تاریخ کی انتہا کردی گئی۔ معلوم ہونا چاہئے کہ علائوالدین خلجی نے ایک بہترین و لاثانی نظام زراعت کو ملک بھر میں متعارف کرواکر ساری دنیا کو ششدر کردیاتھا ۔ ڈاکٹر کارل اپنی کتاب ’’این اٹلس اینڈ سروے آف سائوتھ ایشین ہسٹری‘‘ کے صفحہ نمبر45 پر لکھتے ہیں کہ ’’17صدی میں مغلوں کے دور میں ہندوستان کی معیشت دنیا کی ایک بڑی معیشت تھی جس کی وجہ سے ہندوستان دنیا کا خوشحال ترین خطہ تھا ۔

اس وقت دنیا کی مجموعی پیداوارکا22 فیصد ہندوستان میںپیداہوتاتھا ۔17ویں صدی کے اختتام تک یعنی اورنگ زیبؒ عالمگیرکے دور میں جی ڈی پی 24 فیصد سے زیادہ ہوچکی تھی جو کہ چین اور سارے یورپ کی مجموعی جی ڈی پی سے بھی زیادہ تھی (عالمی معیشت اورتاریخی اعدادوشمار) مغل دور میں ہندوستان کی مجموعی ملکی پیداوار میں جس برق رفتاری سے اضافہ ہوا، اس کی مغلوں سے پہلے کے ہندوستان کی چار ہزار سالہ تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔مزید مستند وتاریخی ومسلمہ ومصدقہ باتوں کیلئے مذکورہ بالا دو کتب کے علاوہ پروفیسر ڈاکٹر انیگس میڈیسن کی تحقیقات کی روداد (عالمی معیشت اور تاریخی اعداد وشمار کتاب کے علاوہ محترم غلام علی اخضر صاحب کاایک دستاویزی و تاریخی مضمون ’’فلم پدمات تاریخ اورحالات کے تناظر میںایک سال مکمل‘‘میں تفصیلی ملاحظہ فرما سکتے ہیں، جو کہ ویب سائیٹ پر موجود ہے۔

ریاست تلنگانہ کے پہلے و موجودہ وزیراعلیٰ کے چندرشیکھررائو ہمارے اسلاف کی بیش قیمت تاریخی ، لاثانی اور لاجواب تاریخ عمارتوں کی ٹھیک طرح سے اور مطلوبہ دیکھ بھال نہیں کررہے ہیں ۔ اس کی زندہ مثال دواخانہ عثمانیہ، نظامیہ یونانی دواخانہ چارمینار،سٹی کالج، قطب شاہی ادوار کی تاریخی اور ویران مساجد، مسلم جنگ پل ، ٹیپو خاں برج، پرانا پل،CBS قدیم ومخدوش ومتحدہ ریاست اے پی کاسب سے پہلا بس اسٹانڈ، مسجد حیات بخش بیگم موقوعہ حیات نگر کی مشہور وتاریخی و لاجواب اور وسیع وعریض ہتھنی بائولی، سرو نگر کا کئی ایکروں پر مشتمل قدیم وتاریخی یتیم خانہ، تباہ وبرباد ہوتی مسلم وقف بورڈ کی اربوں کی منقولہ وغیر منقولہ جائیدادیں، بے شمار سرکاری ویران پڑی اراضیات وعمارات ،قدیم وتاریخی عیدگاہوں ودرگاہوں وعاشور خانوں کی قیمتی اراضیات وعمارات، ونپرتی میں مسلم بادشاہ کا کئی ایکروں پر مشتمل تاریخی محل(کروڑوں کا) بالاپور کی تاریخی مسجد وقدیم عیدگاہ کی اراضیات ، چارمینار کی تاریخی مسجد، قلعہ گولکنڈہ کا کٹورہ ہائوز( جوکہ تباہی کے داہنے پر ہے) اس کے علاوہ حیدرآبادریس کلب HRC موقوعہ قدیم ملک پیٹ کی کئی ایکرکروڑوں کی اراضی … آخریہ سب کب ڈیولپ ہوںگے؟ دواخانہ عثمانیہ اورچارمینار کا یونانی دواخانہ اکثرذرائع ابلاغ کی سرخیوں میںرہتا ہے ۔ان عمارتوں کا مثالی ومطلوبہ تحفظ اورداغ دوزی ومرمت کا کام ہوگا بھی یا نہیں ؟

خیر!بات تاریخی نظام اسٹیٹ ریلوے اور نظام کے دور کی پبلک ٹرانسپورٹ اور ڈبل ڈیکر بسوں کی چل رہی تھی، اس لیے بین السطور میں مزیدکچھ لازمی وضروری باتیں بھی تاریخی ومستند حوالوں سے احاطہ تحریر میںلائی گئیں تاکہ ہمارے ہندوبھائیوں خاص کر مسلم اور اسلام مخالف ومتعصب و متشدد حضرات وخواتین اور نوجوان نسل کی غلط فہمیوں شکوک وشبہات اور مسخ شدہ تاریخی باتوں اور حوالوں کا ازالہ ہوکر سارے ملک میں ہندو مسلم سکھ عیسائی آپس میں ہیں بھائی بھائی کا پھر سے بول بالا ہوجائے۔

راقم الحروم کئی بار ڈبل بس میں بحمد للہ سفرکرچکا، اس بس میں ڈرائیور ایک ہی ہوتا لیکن کنڈکٹر دو ہوتے …شہر حیدرآباد میں ڈبل ڈیکر بسوں کو بند ہوئے سترہ17 سال ہوچکے ہیں۔اب TSRTC کے اعلیٰ ومتعلقہ حکام دونوں شہروں کیلئے خاص کر تفریحی مقامات کیلئے ڈبل ڈیکر بسیں چلانے اور اسے شروع کرنے کی دھن میں رات دن مگن ہیں ۔یہ جدید ڈبل ڈیکر بسیں، امیرپیٹ، لکڑی کا پل، دلسکھ نگر، چارمینار، سکندرآباد اور مہدی پٹنم روٹس پرچلائی جائیں گی۔ ان جدید ڈبل بس کی اونچائی4.7 میٹرس اور چوڑائی8.7 میٹرس ہوگی اور اس میں60 مسافرین کے بیٹھنے کی گنجائش رہے گی جبکہ ریگولربس میں بیک وقت صرف36 نشستیں ہواکرتی ہیں۔ TSRTC کے چیف میکانیکل انجینئر رگھوناتھ رائو نے ذرائع ابلاغ کو بتلایا کہ ہم نے دلچسپی رکھنے والی کمپنیوں سے مہر بند لفافہ میں ٹنڈرس طلب کئے ہیں اوریہ ٹنڈر 25گاڑیوں کیلئے ہے۔ المختصرTSRTC بعجلت ممکنہ متذکرہ بالا روٹس وتفریحی مقامات پر ڈبل ڈیکر بسیں چلانے کامصمم ارادہ کرچکی ہے لیکن بقول شاعر ؎

کوئی مرحلہ ہو، کوئی معرکہ ہو
نظر عارفانہ ، قدم غازیانہ

ڈبل ڈیکر کی روٹ میںآرام گھر، افضل گنج، شمس آباد گچی بائولی ،مدھانی، شاہین نگر ، جیڈی میٹلہ اور بورہ بنڈہ کا ذکر نہیں ہے۔ JNTU تا ہائی ٹیک سٹی میٹرگیج کی بس نما ٹرین کا بھی مستقبل میںآغاز ہونے والا ہے اور یہ ٹرین150 مسافرین کو بیک وقت پہنچایا کرے گی….
٭٭٭